Episode 22 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 22 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

وہ جب بھی گاؤں آتا تھا اپنے گھر میں ہی ٹھہرتا۔ آج بھی وہ کافی دیر زمینوں کا چکر لگانے کے بعد گھر آیا تو برابر والے مکان سے بڑی درد بھری آواز سنائی دی۔
اے راجہ حسن دا صدا راج مانے
کدی پھیرا پاول غریباں دے ڈیرے
”ہیں یہ پڑوس میں کون سی مائی میراں آ گئی ہیں۔“
وہ سوچتا ہوا اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔
سارے گھر کی تمام لائٹس آن کرکے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
چونکہ سارا دن مصروف گزرا تھا  لہٰذا کافی تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ جب وہ بہت تھک جاتا تو پھر نیند بہت مشکل سے آتی۔
وہ جوں ہی بستر پر دراز ہوا تو اماں اور بابا کی یاد آنکھوں کو نم کرنے لگی۔ اس گھر میں کبھی خوب رونق ہوا کرتی تھی۔ قہقہے  مسکراہٹیں  خوشیاں  پھر آہستہ آہستہ اس گھر میں غموں نے بسیرا کر لیا۔

(جاری ہے)

ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔

نہ جانے کیوں آج پھر زخموں سے گویا ٹانکے ادھڑ رہے تھے۔ بیتا وقت یاد آ رہا تھا۔ زخموں سے خون رسنے لگا تھا۔ وہ یادیں جو ماضی کا حصہ بن چکی تھیں۔ کچھ خوشیاں بہت سے غم۔
اماں اور بابا کی جدائی نے اسے اندر سے بالکل توڑ دیا تھا۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ کسی کم سن بچے کی طرح خوب دھاڑیں مار مار کر روئے۔
اس کی پیاری ماں جو سوتیلی ہونے کے باوجود اس کیلئے صرف ”ماں“ ہی تھی۔
اگرچہ اماں کی بہن اس کی چاچی انہیں کس قدر اس سے متنفر کرنے کی کوشش میں لگی رہتی تھیں۔ مگر اماں کے رویے میں کبھی اک پل کیلئے بھی تبدیلی نہیں آئی۔ حتیٰ کہ نمرہ اور ثانیہ کی آمد کے بعد بھی جو اہمیت اس کی تھی اور جو اسے محبت ملتی تھی وہ ہمیشہ اس کی رہی۔
وہ ہاسٹل سے گھر آتا اماں کے اس کیلئے ڈھیروں مزے دار پکوان اپنے ہاتھ سے بنواتیں اور پھر منتیں کر کرکے کھلاتیں۔
اتنے ڈھیروں کے حساب سے لاڈ پیار کے باوجود وہ بگڑا نہیں تھا بلکہ اماں اور بابا کی محبتوں نے اُسے ڈھیروں اعتماد بخشا۔
وہ جب بھی گھر آتا ثمینہ چاچی کی پیشانی پر بل پڑ جاتے۔ نو  دس سال کے بچے سے نہ جانے ان کا کیا بیر تھا یا پھر یہ ان کی فطرت میں شامل تھا۔ ہر ایک سے تلخ کلامی کرنا طنز کے تیر برسانا۔ غصے سے گھورتے رہنا اور مرتضیٰ کو تو کبھی کبھی وہ مار پیٹ بھی لیتی تھیں مختلف بہانوں سے۔
وہ نوجوانی کی عمر کو پہنچا تو چاچی کے رویے میں خود بخود تبدیلی آ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اسے ذہانت اور وجاہت سے بہت نوازا تھا۔ سب سے بڑھ کر اس کا اچھا اور دل موہ لینے والا اخلاق تھا جو بھی اس سے ملتا گرویدہ ہی ہو جاتا۔
اسے یاد تھا پہلی مرتبہ کب  کس دن اور کس موقع پر مرتضیٰ اور چاچی کی براہ راست تلخ کلامی ہوئی تھی۔
وہ معمول کے مطابق یونیورسٹی سے گھر آیا تھا۔
آتے ساتھ ہی وہ ٹریکٹر لے کر زمینوں کی طرف نکل گیا۔ رات جب وہ گھر واپس آیا تو مہوش آئی بیٹھی تھی۔ مرتضیٰ کو زیادہ بولنا اور خصوصاً چاچی کی فیملی کے ساتھ بولنا قطعاً ناپسند تھا۔
یہ اسی رات کی بات ہے جب مہوش اس کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آئی۔ مرتضیٰ اپنی ناگواری چھپائے مہوش کی طرف متوجہ ہوا۔
”کوئی کام تھا تو باہر ہی کہہ لیتی۔
”سب کے سامنے کہنے والا ”کام“ نہیں ہے۔“ وہ معنی خیزی سے مسکرائی۔
”بولو  کیا کہنا ہے۔“
”اظہار محبت کرنا تھا۔“ مہوش نہایت بے خوفی سے بولی تو وہ چیخ پڑا۔
”کیا بکواس کر رہی ہو؟“
”سچ کہہ رہی ہوں۔“ اس کی ڈھٹائی  عروج پر تھی۔ پھر اس نے ایک لو لیٹر اس کی طرف بڑھایا۔ مرتضیٰ نے وہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں پکڑا تھا۔
مہوش وہ خط کرسی پر رکھ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد مرتضیٰ نے وہ خط اٹھا کر پڑھا تو اس کا رواں رواں سلگ اٹھا۔ وہ غصے سے بھناتا ہوا چاچی کے پورشن میں پہنچ گیا۔ مگر چاچی نے الٹا آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ انہوں نے چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا اور رو رو کر دہائیاں دیں۔
”میری معصوم بیٹی کو اس نے ورغلایا ہے۔“
”ثمینہ! ہوش کر  بغیر سوچے سمجھے میرے بچے پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ وہ ایسا ہرگز نہیں۔“ اماں اور دادی دونوں نے ثمینہ کو جلی کٹی سنائیں تو انہوں نے مزید واویلا کرنا شروع کر دیا۔
”ہمیں اپنی تربیت پر فخر ہے۔ میرا پتر آج کل کے چھچھورے لڑکوں کی طرح نہیں اور پورا خاندان جانتا ہے کہ ہارون کی بیٹی میرے میر پتر کی بچپن کی منگ ہے۔“ دادی نے گرج کر کہا تو ثمینہ جل بھن گئیں اور مہوش ساکت سی رہ گئی۔
اس واقعے کے بعد مرتضیٰ نے ثمینہ چاچی کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا۔ مگر مہوش نے اپنی گھٹیا حرکتوں کو ترک نہیں کیا تھا۔
وہ جب بھی گھر آتا مہوش پہلے سے موجود ہوتی۔ شعر و شاعری والے کارڈ  خطوط اور گفٹس جو کہ وہ چپکے سے مرتضیٰ کے کمرے میں رکھ آتی تھی  پھر انہیں اکٹھا کرکے اس کے منہ پر مارنا مرتضیٰ کا کام تھا۔
کچھ وقت مزید بیتا اماں اور دادی نے ہارون چچا سے شادی کا تقاضا کرنا شروع کر دیا۔
اشفا ہارون جو کہ اس کی بچپن کی منگیتر تھی نہ جانے کب کیسے اور کیونکر اس کے خیالوں پر چھاتی چلی گئی۔ مرتضیٰ نے بہت بچپن میں اسے دیکھا تھا۔ اسے تو اب اشفا کے نقوش تک بھول چکے تھے۔ مگر اس کا خیالی پیکر ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہا۔ وہ اسے چپکے چپکے چاہنے لگا تھا۔ جب بھی اماں اور دادی اس کا ذکر چھیڑتیں  مرتضیٰ کے دل کے تار بج اٹھتے۔
پھر ہارون چچا نے پاکستان آنے کا بتا کر ان کو مسرور کر دیا تھا۔ وہ شادی کے سلسلے میں ہی آنا چاہتے تھے۔
مرتضیٰ نے یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اشفا اس کے ساتھ شادی پر دل سے راضی نہیں ہو گی۔ وہ تو مطمئن تھا۔ سرشار تھا۔ مسرور تھا۔ عطیہ چاچی بار بار اشفا کو خوش رکھنے کا اس سے وعدے لے رہی تھیں۔
”دیکھو مرتضیٰ! ہمارے بعد ہماری بیٹی کا تم نے بہت خیال رکھنا ہے۔
اسے کبھی تکلیف مت دینا۔ وہ کچھ ضدی اور ناسمجھ ہے اور ہم سے کچھ کچھ ناراض بھی۔ مگر تم اسے کسی بھی حال میں خود سے الگ نہ کرنا۔“ مرتضیٰ نے انہیں ہر طرح سے مطمئن کر دیا۔ مگر خود وہ اشفا کے رویوں پر کئی مرتبہ الجھا تھا۔ اسے غصہ بھی بے تحاشا آتا  مگر خود کنٹرول کرکے اشفا کی تمام تلخ و کڑوی باتوں کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی جاتا۔
اس نے اشفا کی ہر خطا کو معاف کرنے کا پہلے سے ہی سوچ رکھا تھا  مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کے ضبط کی طنابیں چھوٹ گئیں۔
اس کا مان ریزہ ریزہ ہو گیا۔ وہ بری طرح ٹوٹ گیا تھا۔ اس کی انا کا بت بھی پاش پاش ہو گیا۔ اس کی ہستی کا غرور خاک میں مل گیا۔ دل لہو لہو ہو گیا  اس کی بے تحاشا محبت دیوانگی اس کا منہ چڑاتی رہ گئی۔
اسے یوں محسوس ہوا کہ میر مرتضیٰ اندر سے مر گیا ہے۔ وہ اس رات واقعی مر گیا تھا  جب مہوش جیت کے نشے سے سرشار آنکھوں میں مسکراہٹ کی چمک لئے اس کے کمرے میں بڑے تفاخر سے داخل ہوئی تھی۔
”چلی گئی  تمہاری اشفا چلی گئی۔ کتنے مزے کی بات ہے  میر مرتضیٰ کی بیوی اپنے دو ماہ کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہ جانے کس کے ساتھ  کوئی پرانا عاشق بوائے فرینڈ… ہا ہا ہا۔“ وہ قہقہے لگا رہی تھی۔ ہنس رہی تھی۔
”کہاں منہ چھپاؤ گے مرتضیٰ! کتنی بے عزتی کی بات ہے کہ تمہاری بیوی تمہیں چھوڑ گئی  بلکہ تم پر تھوک گئی۔ میں نے کہا تھا ناکہ یہ لڑکی زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہیں رہ پائے گی۔
ان عیاش  آوارہ امیر زادیوں کا بھلا کیا بھروسہ  مگر تم پر تو اس کے عشق کا بھوت سوار تھا۔ واہ مزا آ گیا ہے۔ اسی دن کیلئے تو میں بے قرار تھی  بے چین تھی۔ اب میری روح بھی پرسکون ہو گئی ہے۔“ وہ اسے پتھر کا بت بنا کر چھوڑ چلی گئی۔
اور پھر سب نے دیکھا کہ مرتضیٰ حیدر نے ہنسنا چھوڑ دیا ہے۔ ہنستا تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھا  مگر لوگ کہتے تھے کہ وہ نہ بھی مسکرائے تو اس کی آنکھیں مسکراتی ہیں۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi