Episode 31 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 31 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

وہ گنگناتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی تو پہلی نظر صوفے پر بیٹھی افسردہ ماہا پر پڑی۔ رحاب اس کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
”کیا ہوا ہے ماہا ڈئیر۔ ایسی رونی صورت بنا کر کیوں بیٹھی ہو۔“
”تمہیں کیا تکلیف ہے۔ میں غمگین بیٹھوں یا پھر اچھلوں کودوں ناچوں گاؤں۔“ وہ گویا انگارے چبا کر بیٹھی تھی۔
”حلیمہ بی اسے صبح صبح کس چیز کا ناشتہ کروایا ہے۔
کچن سے نمودار ہوتی حلیمہ بی کو دیکھ کر وہ شرارت سے بولی تھی۔ ماہا نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور پھر غصے سے بولی۔
”تم اتنے سویرے کہاں گئی تھیں۔“
”اوہو تو اس بات کا غصہ ہے۔“ رحاب نے سوچا اور پھر ماہا کا ہاتھ نرمی سے پکڑا۔
”ابھی تھوڑی دیر بعد میں اپنی پیاری بہن کو زبردست سی شاپنگ کرواؤں گی اور آج کا دن ہم خوب گھوم پھر کر گزاریں گے۔

(جاری ہے)

کیوں ٹھیک ہے نا۔“ اس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
”ہوں… ٹھیک ہے۔“ وہ روٹھے روٹھے لہجے میں بولی تھی۔
”واہ کیا شاہانہ انداز پائے ہیں۔“ رحاب زیر لب بڑبڑاتی ہوئی دادو کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
وعدے کے مطابق وہ پورا دن انہوں نے گھومتے پھرتے گزارا تھا۔ چونکہ ماہا بہت تھک چکی تھی اسی لئے آتے ہی سو بھی گئی جبکہ رحاب بے انتہا تھکن کے وجود بھی پوری رات سو نہیں پائی تھی۔
چاچو کا ویران چہرہ ذہن کا اسکرین پر ابھرتا تو وہ بے چین سی ہو کر اٹھ بیٹھتی تھی۔ وہ رات بھر جاگتی رہی اور سوچتی رہی۔
صبح ہوتے ہی رحیم خان نے کسی خاص نمائش لگنے کی اطلاع دی تھی۔ ماہا تو سنتے ساتھ ہی ایکسائیڈ ہو گئی تھی۔ اسی لئے رحاب کو مجبوراً رحیم خان کے ساتھ ماہا کو لے کر نمائش دیکھنے آنا پڑا۔ ماہا بہت پر جوش تھی جبکہ رحاب قدرے بے زار سی الگ تھلگ سے کونے میں کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اچانک ہی اک خاص چہرے پر اس کی نگاہ پڑی۔
کچھ سوچ کر وہ سرعت سے اس کی جانب بڑھی تھی۔
”ہیلو شاہ نور  کیسے ہو۔“ رحاب نے کمال بے تکلفی کے ساتھ اسے مخاطب کیا تھا۔ شاہ نور کی آنکھوں میں اک پل کو تحیر ابھرا۔ اس کے چہرے کے تاثرات یک لخت بدل گئے تھے۔
”تم ابھی تک گئے نہیں۔“ شاہ نور کو مہربہ لب کھڑا دیکھ کر وہ ایک دفعہ پھر گویا ہوئی تھی۔ اب کے وہ کچھ چونک گیا تھا۔
”کہاں…؟“
”اپنے گھر اور کہاں۔
“ وہ ایسے بول رہی تھی گویا کہ برسوں سے اس سے آشنائی ہو۔ شاہ نور بے حد حیرانی کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”میں تو سوچ رہی تھی کہ تم اب تک چلے گئے ہو گے…“
”میرے آنے جانے سے تمہارا کیا واسطہ  مجھے خوامخواہ کی بے تکلفی پسند نہیں۔“ وہ کھردرے لہجے میں کہتا ہوا پلٹ گیا تھا۔ رحاب لب بھینچتے ہوئے ماہا تک آئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں گھر میں موجود تھیں۔
ماہا کا چہرہ پھولا ہوا تھا جبکہ رحاب لاپروائی سے چینل سرچنگ میں مصروف ہو گئی۔ اس کام سے دل اکتایا تو ریموٹ پھینک کر اپنے کمرے میں گھس گئی جبکہ ماہا گہری سانس خارج کرتے ہوئے دادو کو اپنی شاپنگ دکھانے لگی تھی۔ کمرے میں آکر وہ کافی دیر غصے سے ادھر ادھر چکراتی رہی تھی پھر سلگتی کنپٹیاں دباتے ہوئے پلنگ پر ڈھے گئی۔
پلوشہ کے ساتھ مختصر سی دوستی کرکے اس نے شاہ نور کا پرسنل نمبر حاصل کر لیا تھا۔
رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہ بہت اطمینان کے ساتھ ماہا کے سو جانے کے بعد شاہ نور کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔
”سوری ڈیئر تمہاری ماں تک پہنچنے کیلئے تمہارے قریب آنا بہت ضروری ہے۔“ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اس نے سیل کان سے لگایا تھا۔ پانچویں بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی۔ رحاب نے طویل سانس کھینچ کر اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیئے اور دوسری طرف موجود شخص کی کڑوی کسیلی باتیں سننے کیلئے خود کو تیار بھی کر لیا۔
”اگر میں نے تمہاری نیند ڈسٹرب کی ہے تو پیشگی معذرت…“ وہ بے حد سکون سے کہہ رہی تھی دوسری طرف شاہ نور کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
”کون ہو تم اور کیا چاہتی ہو؟“ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ ترش لہجے میں بولا تھا۔ رحاب کے لبوں پر مسکان پھیل گئی۔
”بڑی جلدی خیال آ گیا ہے پوچھنے کا۔“ اس نے طنز کیا۔ دوسری طرف یقینا وہ سلگ اٹھا تھا۔
”رات کے اس پہر اجنبی مردوں سے گفتگو کرتی لڑکیاں زہر لگتی ہیں مجھے۔ شرم نہیں آتی ایسی چیپ حرکت کرتے ہوئے۔ اگر وقت نہیں گزر رہا تو کسی اور نمبر ڈائل کرو…“ رحاب کے لبوں کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہو گئی۔ شدید اہانت کے احساس نے اسے آگ بگولا کر دیا تھا تاہم اس نے اپنے لہجے کی نرمی کو برقرار ہی رکھا۔ ورنہ دل تو چاہ رہا تھا ابھی اس کا دماغ ٹھکانے لگا دے۔
”میں تمہیں اجنبی نہیں سمجھتی۔“
”اوہو…“ اس نے ”اوہو“ کو کافی طویل کھینچا پھر اسی سر دو سپاٹ انداز میں گویا ہوا۔
”ایک دو اتفاقیہ ملاقاتوں سے آپ کون سی رشتہ داری گانٹھ بیٹھی ہیں۔“
”رشتہ بنتے کون سی دیر لگتی ہے۔“ وہ اپنے ازلی منہ پھٹ لہجے میں بے باکی سے کہتی شاہ نور کو سلگا گئی تھی۔ رحاب نے غصے سے سیل آف کرکے صوفے پر پٹخا اور خود بھی لیٹ گئی۔
”تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کیسی ڈھیٹ خاتون سے پالا پڑا ہے۔“ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے پلکیں موند لی تھیں۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi