Episode 29 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 29 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”مل آئی ہو سہیلی سے۔“ اس نے بڑے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا جب دادو نے اسے دیکھتے ہی سوال داغ دیا۔ رحاب کا موڈ چونکہ سخت خراب تھا اسی لئے رکھائی سے جواب دیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
شام کو جب وہ نیچے آئی تو دادو اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ رحاب بھی ان کے قریب موڑھا کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔
”رات کے کھانے میں حلیمہ کیا پکائے۔
“ انہوں نے بہت شفقت سے اس کی پسند دریافت کی تھی۔
”دال چاول۔“ وہ بے زاری سے گویا ہوئی۔
”تمہارے جنت مکانی چھوٹے دادا کو بھی دال چاول بہت پسند تھا۔“ دادو شوہر کی یادیں تازہ کرنے بیٹھ گئی تھیں۔ رحاب بھی دلچسپی سے سنتی رہی۔ رات تک اس کا موڈ قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ جب وہ سونے لگی تھی تب چاچو کا فون آ گیا۔ ساتھ ہی اسے گل مینا آنٹی کے ساتھ کی گئی تمام باتیں ازسر نو یاد آ گئیں۔

(جاری ہے)

”کب آؤ گی گڑیا  تمہارے بغیر یہ گھر کاٹ کھانے کا دوڑتا ہے۔“ دوسری طرف چاچو بڑی محبت کے ساتھ کہہ رہے تھے۔
”ابھی تو بالکل بھی نہیں آؤں گی۔ قسم سے چھوٹی دادو اتنی خوش ہیں کہ میں بتا نہیں سکتی۔ دو چار مہینے رہوں گی ان کے پاس۔“
”ہیں اتنا لمبا پروگرام۔“ چاچو نے مصنوعی حیرانی سے کہا تو وہ مسکرا دی۔
”چاچو! دادو اتنا یاد کرتی ہیں آپ کو…“ گزرے تین دنوں کی ہر بات اس نے عادتاً فراز کو بتائی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے سنتے رہے۔
”گل مینا کے گھر گئی تھیں تم…؟“ فون بند کرنے سے پہلے فراز نے اچانک پوچھ لیا تھا۔ وہ اسی سوال سے ہی بچنا چاہ رہی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد آہستگی سے بولی۔ ”نہیں۔“ اور ساتھ ریسیور بھی کریڈل پر ڈال دیا۔
#########
اگلی صبح وہ تیار ہو کر نیچے آئی تو حلیمہ بی کو باورچی خانے میں مصروف پایا۔
”حلیمہ بی! میں ناشتہ نہیں کروں گی اور ہاں دادو کو بتایئے گا کہ میں اپنی اسی سہیلی کے پاس جا رہی ہوں…“ کچن میں جھانک کر اس نے حلیمہ بی کو مخاطب کیا اور پھر تیزی سے باہر نکل گئی۔
رحیم خان سے گاڑی کی چابی لے کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ گیٹ پر ہی پلوشہ سے مڈھ بھیڑ ہو گئی تھی۔ پلوشہ اسے دیکھتے ہی گھبرا گئی۔
”میم صاحب! تم…“
”سُنو  آنٹی سے کہو کہ رحاب آئی ہے۔“ اس نے پلوشہ کے گھبرائے گھبرائے چہرے کی طرف دیکھ کر سختی سے کہا تھا۔
”وہ تو گھر نہیں ہے۔“ پلوشہ نے نظریں جھکا کر کہا۔
”جھوٹ مت بولو۔
“ رحاب کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہو گئی تھیں۔
”میم صاحب! تم چلی جاؤ۔ ورنہ بی بی ام کو بہت غصہ ہو گی۔“
”اوکے…“ رحاب نے گہرا سانس خارج کیا۔
”ابھی تو میں جا رہی ہوں۔ کل پھر آؤں گی۔ آنٹی کو بتا دینا۔“ وہ جھنجلاتے ہوئے پلٹی اور سارا غصہ گاڑی پر نکال دیا۔ غصے کی زیادتی کی وجہ سے اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی تھی اسی لئے جب ٹرن لیا تو سامنے سے آتی جیپ دکھائی نہ دی اور نہ ہی سپیڈ کم ہو سکی لہٰذا زور دار ٹکر ہونے کے بعد خود بخود انجن خاموش ہو گیا تھا۔
رحاب کا پارہ ایک دم ہائی ہو گیا۔ دو مرتبہ گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ اسی پل اس کی گاڑی کا شیشہ بجایا گیا تھا۔ رحاب نے جھنجلا کر دائیں طرف دیکھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا اسے باہر نکلنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ رحاب کچھ سوچ کر باہر نکل آئی۔
”روڈ پر نکلنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ مگر آپ جیسے لوگ اندھوں سے بھی بدتر ہیں۔
جس سیٹ پر آپ بیٹھی ہیں اس کے کچھ اپنے تقاضے ہیں جس سے آپ شاید ناواقف ہیں اور ناصرف اپنا بلکہ دوسروں کا بھی نقصان کر ڈالتے ہیں۔ میری جیپ اور اپنی گاڑی کا حال دیکھ لیں۔ ورکشاپ میں گئی تو خوامخواہ سات آٹھ ہزار کا خرچہ آ جائے گا۔ آئندہ احتیاط کیجئے گا اوکے۔“ مضبوط دبنگ لہجے میں اپنی کہتا اس کی بغیر سنے وہ تیزی سے پلٹ گیا تھا۔ رحاب دانت پیتے ہوئے ایک دفعہ پھر گاڑی کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”کتنی باتیں سنا گیا ہے فضول آدمی…“ وہ بڑبڑاتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کرنے لگی تھی۔ گھر آئی تو حلیمہ بی نے دادو کی خرابی طبیعت کے بارے میں بتایا۔ وہ پریشانی کے عالم میں ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دادو کی کمر میں شدید درد اٹھا تھا اور اب انہیں پسلی میں بھی شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ رحیم خان کے ساتھ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ مختلف ٹیسٹ وغیرہ کروائے۔
تفصیلاً چیک اپ کروانے کے بعد وہ قریبی میڈیکل اسٹور سے دوائیاں لینے گئی تو گل مینا آنٹی کے ساتھ انہی حضرت کو اسٹور سے باہر نکلتے دیکھا۔ اس کی چال بڑی ہموار اور باوقار قسم کی تھی۔ رحاب ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ وہیں کھڑی رہی۔
”کیا رشتہ ہو سکتا ہے اس کا گل مینا آنٹی کے ساتھ۔“
واپسی پر یہی ایک سوچ ذہن کے دریچے پر دستک دیتی رہی تھی۔
دوسری صبح وہ دادو کی رپورٹس لینے جا رہی تھی کہ ماما کی کال آ گئی۔اس نے سرعت سے سیل آن کرکے کان سے لگایا۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi