Episode 14 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 14 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”ایں  آپ کو یہ بات کس نے بتائی۔“ اشفا نے حیرانی سے پوچھا۔
”نمرہ پھوپھو نے۔“
”پھر آج اور کل بابا کیوں نہیں آئے۔“ اشفا کو تجسس سا ہوا۔
”دادو کہتی ہیں انہیں کام ہے اور وہ دور گئے ہیں۔“ شازم نے ہاتھ کے اشارے سے سفر کی دوری کا بڑے معصوم انداز میں بتایا تھا۔
”دادو نے یہ نہیں بتایا کہ کب آئیں گے؟“
”نائیں…“ اس نے نفی میں دائیں بائیں سر ہلایا۔
”مما!“
”جان۔“
”اب شازم کو ڈر تو نہیں لگتا۔“
”نہیں۔“
”اچھا  بھلا وہ کیوں؟“
”اس لئے کہ اب مما جو شازم کے پاس ہیں۔“اشفا کو خود سے نفرت ہونے لگی تھی۔ وہ کیسی سنگدل ماں تھی جو اپنے معصوم بچے کو تنہا چھوڑ گئی۔ اس وقت جب اسے ماں کی شدت سے ضرورت تھی۔

(جاری ہے)

”مما۔“ شازم نے اسے سوچوں میں گم دیکھ کر بازو ہلایا تو وہ چونکی۔
”مما! اب آپ کہیں مت جانا۔ بس شازم کے پاس رہنا۔“
”میں اپنے بچے کے پاس رہوں گی ہمیشہ۔“ اشفا نے اس کے معصوم خدشات کو رفع کیا۔ ”اب سوجاؤ بٹیا! میں آپ کو کہانی سناتی ہوں۔“ اشفا نے اسے کہانی سنانا شروع کی تو وہ چند منٹوں میں ہی گہری نیند سو گیا۔
اگلے دن مہندی کی رسم مشترکہ تھی۔ گھر میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ صبح سے ہی شروع تھا۔
پہلی مرتبہ اشفا بھی ہر کام میں پیش پیش تھی۔ سب کو ہی اس کے رویے میں تبدیلی نظر آ رہی تھی۔ رات کو مرتضیٰ بھی آ گیا تھا اسے خبر ہو چکی تھی اشفا کے آنے کی۔ شاید اسی لئے وہ مردان خانے سے نہیں آیا تھا بلکہ شازم کو وہیں بلا لیا گیا۔
اشفا مہندی کی رات بہت توجہ سے تیار ہوئی تھی۔ وہ اپنے حسن سے آگاہ تھی۔ اسی لئے جب گرین کلر کا سوٹ جس کے گلے دامن اور آستین پر سلور کام ہوا تھا پہنا تو گویا اس کا پورا وجود جگمگانے لگا تھا۔
اس نے کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔ کس کی سیاہ رنگ بدلتی آنکھوں کے حصار میں رہنا تھا۔
وہ بھرپور تیاری کے ساتھ جب نیچے آئی تو رسم شروع ہو چکی تھی۔ عاشر اسے آتا دیکھ کر خفگی سے بولا۔
”اب آئی ہیں آپ  بمشکل تو میں بہانے سے مرتضیٰ کو گھسیٹ کر لایا تھا مگر آپ نے سارا پروگرام غارت کر دیا۔“
”مرتضیٰ! کہاں ہیں؟“ اس نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”چلا گیا ہے  اسے ہوٹل کے انتظام کو دیکھنا تھا۔“عاشر نے خفگی سے بتایا تو اشفا کا چہرہ اتر گیا۔
”اور شازم…“ وہ ادھر ادھر نگاہ دوڑا کر شازم کو تلاش کر رہی تھی۔
”وہ بھی اسی کے ساتھ گیا ہے۔“
”مگر شازم کو تمہیں نہیں جانے دیناتھا۔“ اشفا پریشانی سے بولی۔
”شازم تو اکثر مرتضیٰ کے ساتھ جاتا رہتا ہے۔“
”اچھا…“ اشفا نے حیرت سے کہا۔
”وہ مرتضیٰ کو تنگ کرے گا۔“
”نہیں… وہ مرتضیٰ کو تنگ نہیں کرے گا۔ بلکہ دور دور کے دوروں پر تو وہ خوشی خوشی باپ کے ساتھ جاتا ہے۔“ عاشر نے بتایا اور پھر ثانیہ کو آواز دیتا پلٹ گیا تو اشفا بھی مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر رسم میں شرکت کی غرض سے صحن میں چلی گئی۔
رات مرتضیٰ اور شازم کی واپسی بہت دیر سے ہوئی تھی۔ مرتضیٰ نے سوئے ہوئے شازم کو احتیاط سے اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ آیا۔
وہ جانتا تھا کہ اشفا اسی کے کمرے میں رہ رہی ہے۔ وہ اشفا کی ڈھٹائی بلکہ بے شرمی پر حیرت زدہ تھا کوئی اور عورت ہوتی تو شرمندگی کے مارے منہ چھپائے پھرتی۔ لوگوں کی باتوں کے خوف سے گوشہ نشین ہو جاتی مگر یہ اشفا ہارون تھی جو کہ چھ سال پہلے رات کی تاریکی میں اپنے کم سن بیٹے کو چھوڑ کر بھاگ گئی۔ اپنی ممتا پر کیچڑ اچھلتے دیکھ  سن کر بھی بڑی ڈھٹائی سے اسی گھر میں رہ رہی تھی۔
اس نے اپنی ممتا کو خواہشات اور آرام پر قربان کر دیا۔ لوگوں کی زبانیں تو نہیں روکی جا سکتیں۔ مرتضیٰ نے خود کچھ خواتین کی گفتگو سنی تھی۔
مرتضیٰ کمرے میں داخل ہوا تو اسے بیڈ پر نیم دراز پایا۔ اشفا جاگ رہی تھی۔ یہ بھی ایک حیران کر دینے والا واقعہ تھا۔ اسے اپنی نیند اور آرام کا کس قدر خیال رہتا تھا۔ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ وہ سوتی جاگتی تھی اور اکثر جب مرتضیٰ اسے گہری نیند سے جگا دیتا تو ان دونوں کی لڑائی کا ہونا لازمی تھا۔
اسے یاد تھا جب ایک مرتبہ ساون کی پہلی بوند نے کمرے کی کھڑکی پر دستک دی تو مرتضیٰ نے اشفا کو جھنجھوڑ کر اٹھا دیا۔
”کیا ہوا ہے؟“ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔
”بارش۔“ مرتضیٰ نے شرگوشی نما آواز میں کہا تو اشفا تپ اٹھی۔
”آپ نے بارش کا بتانے کیلئے میری نیند خراب کر ڈالی۔“ غصے کے مارے اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے کہ غصے میں تم بہت خوبصورت لگتی ہو۔
“ مرتضیٰ نے اسے چھیڑا تو وہ آگ بگولا ہو گئی۔
”کیوں جگایا ہے مجھے  اب مجھے دیر تک نیند نہیں آئے گی۔“
”تو میں بھی کب چاہتا ہوں کہ تم سو جاؤ۔ اپنی نیند کی بڑی پروا ہے برابر لیٹے شوہر کی بے چین کروٹوں کا کچھ خیال نہیں۔اتنے دنوں بعد آیا ہوں  تمہیں تو میرے آگے پیچھے پھرنا چاہئے تھا دل بہلانے کا کچھ سامان کرنا چاہئے تھا مگر یہاں تو نیند ہی کسی پل پوری نہیں ہوتی۔
”کتنے جھوٹے ہیں آپ روز تو رات کو آ جاتے ہیں اور نیند میری کیسے پوری ہو اتنا تو جگاتے ہیں آپ۔“ وہ واقعی بہت منہ پھٹ اور بے حد بولڈ تھی۔ہر بات بغیر لگی لپٹی کے کہہ دینے والی اگرچہ کافی مرتبہ اسے بہت غلط ملط بول لینے کے بعد احساس ہوتا تھا کہ وہ کیا بول گئی ہے۔
”روز آ جانے کا طعنہ دل کو لگا ہے۔“ مرتضیٰ نے مسکرا کر اس کے بالوں کو چھیڑا تو وہ جھنجھلائی۔
”ہاتھ مت لگایئے گا مجھے۔“
”کیا کر لو گی۔“ مرتضیٰ نے مزید ایک عدد بھرپور شرارت کر ڈالی تو اس کا غصو سوا نیزے پر پہنچ گیا۔ ”چیخ چیخ کر سب کو بتاؤں گی کہ آپ رات کو چوری چھپے آتے ہیں۔“
”اوہ… اوہ یہ غصب نہ کرنا۔“ اس نے جان بوجھ کر ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔ ”ویسے آج کیوں طعنوں کی بوچھاڑ کر ڈالی ہے۔“ مرتضیٰ نے اس کی روشن پیشانی پر ہاتھ رکھا اور کروٹ کے بل قدرے اونچا ہو کر اس کے تنے تنے نقوش کو میٹھی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
”مجھے چھونے کی کوشش نہ کریں۔“ وہ اس کی مزید پیش قدمی کو روکنے کی غرض سے تنبیہی لب و لہجے میں بولی۔
”تم کبھی بھی اچھی مزاحمت نہیں کر سکیں۔“ سیاہ آنکھیں اب مسکرا رہی تھیں۔ ان آنکھوں میں نہ جانے کیا طلسم تھا کہ جب بھی وہ اسے اس انداز میں دیکھتا اشفا خود بخود نرم پڑ جاتی۔
”میں… میں آپ سے ہرگز بات نہیں کروں گی۔“ اسے جب کوئی سخت الفاظ نہ سوجھے تو وہ جھنجھلا کر بولی۔
”یہ اچھی دھمکی ہے۔“مرتضیٰ نے مسکراتے ہوئے اس کے گرد بازوؤں کے حلقے کو مزید تنگ کیا تو وہ بھینچی آواز میں بلبلائی۔
”مرتضیٰ…“
”مرتضیٰ …“ شازم کو بیڈ پر لٹا کر وہ جوں ہی پلٹا اشفا کے لبوں نے جبنش کی دوسرے ہی پل وہ اس کے مقابل تھی۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”تم سے مطلب۔“ اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
”مرتضیٰ! آپ مجھ سے خفا ہیں۔
آپ میری بات تو سنیں۔ میں آپ کی تمام بدگمانی دور کر دوں گی۔ پلیز آپ مجھے موقع تو دیں اپنی صفائی پیش کرنے کا۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر لجاجت سے بولی تو مرتضیٰ نے تنفر سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولا۔
”مجھے تمہاری بات نہیں سننا۔ آئندہ مجھے روکنے کی کوشش مت کرنا۔“
”کیوں نہ روکوں  میں آپ کی بیوی ہوں۔“
”بہت جلد یاد آ گیا ہے کہ تم میری بیوی ہو۔
مرتضیٰ کا لہجہ زہر زہر تھا۔ اشفا پشیمان سی نگاہ جھکا گئی۔
”ہٹو…“ مرتضیٰ نے چنگھاڑ کر کہا جبکہ اشفا اسی طرح دروازہ تھامے راستہ روکے کھڑی رہی۔
”سنا نہیں تم نے۔“
”نہیں سنا۔“ وہ بھی تپ اٹھی تھی۔
”میں کہہ رہا ہوں کہ پیچھے ہٹ جاؤ ورنہ لگاؤں گا دو ہاتھ۔“
”آپ جب تک میری بات نہیں سنیں گے میں آپ کو جانے نہیں دوں گی۔
“ وہ بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔ مرتضیٰ نے ایک لمحے کیلئے سوچا اور پھر جھٹکے سے اسے دروازے کے سامنے سے ہٹایا اور پھر خود تیز قدموں سے چلتا باہر نکل گیا جبکہ اشفا دم بخود سی کھڑی رہ گئی۔
یہ وہ مرتضیٰ تو نہیں تھا جو اشفا کی قربت کیلئے بہانوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ یہ تو کوئی اور مرتضیٰ حیدر تھا۔ اشفا کو ایک دم محسوس ہوا تھا کہ ان دونوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi