اسد عمر سے استعفیٰ کیوں لیا گیا

سابق وزیرخزانہ ڈالر مافیاکے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے دوسیاسی لیڈروں اور ایک میڈیا ہاؤس کے ڈالر گروپ نے روپیہ کی قیمت گرائی

جمعرات 25 اپریل 2019

Asad Umar Se Asteefa Kiyon Liya Giya
محمد انیس الرحمن
اس وقت ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہو گاکہ پی ٹی آئی حکومت ایک بڑے بحران کا شکار ہے ایسا محسوس ہونا بھی چاہئے کیونکہ پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد اہم ترین شخصیت سابق وزیر خزانہ اسدعمر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اس اقدام نے پاکستان کی پوری سیاسی صورتحال میں غالبا ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ۔سیاسی مخالفین نے خاصے شادیانے بجائے ہیں لیکن ان کی اطلاع کے لئے یہ معاملہ بھی ان کے لئے اس عدالتی فیصلے کی مانند ہے جو انہیں دو روز بعد جا کر سمجھ آتا ہے ۔


اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ کہ دیا جائے کہ اس قدم کو اٹھانے کے سوااب ریاست کے پاس چاراکوئی نہ تھا اسد عمر کی قابلیت اور ایمانداری اپنی جگہ لیکن دنیا کے بہت سے کام ایمانداری اور قابلیت کی بنیاد پر نہیں کئے جا سکتے ۔

(جاری ہے)

۔۔بعض سیاسی حلقوں کے مطابق اسد عمرکو کابینہ سے الگ کرنے کا اصل سبب شاہ محمود قریشی اور جھانگیر ترین گروپوں کی آپس کی چپقلش تھی وہ بھی بالکل غلطی پر تھے ممکن ہے شاہ محمودقریشی نے شروع میں ایسا سمجھا بھی ہو لیکن جلدی صورتحال ان پر بھی واضح کردی گئی تھی۔


اسد عمر کو ہٹائے جانے سے دو روز قبل میڈیا میں ان کے ہٹائے جانے کی خبر لیک ہوگئی تھی جس پر بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے تردید بھی کی گئی لیکن پھر دودن بعد وہی کچھ ہوا جس کی خبر میڈیا دے رہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جان بوجھ کر میڈیا کے ذریعے یہ خبر پہلے لیک کی گئی تھی؟اگر ایسا فی الواقع ہوا ہے تو اس خبر کو قبل ازوقت لیک کرنے کے کیا مقاصد تھے؟واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس خبر کو جان بوجھ کر لیک کرنے کا مقصد ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والی بدمعاشیہ کوواضح پیغام دینا مقصود تھا کہ اب ان کا وقت بھی آن پہنچا ہے ۔


کیونکہ پی ٹی آئی رہنما اگر اسد عمر جیسے شخص کو قربان کر سکتے ہیں تو پھر ٹیکس چور،منی لانڈر اور ڈالر کو اوپر نیچے کرنے والا مافیا کے خلاف اب آہنی ہاتھوں سے کریک ڈاؤن بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مستقبل قریب میں ہوتا نظر آرہا ہے اور اس بات کی جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی واضح اشارہ دے دیا ہے کہ بڑے چور اندر جانے والے ہیں یعنی اب بڑا کر یک ڈاؤن شروع ہونے جارہا ہے اور اس سلسلے میں ملکی اداروں نے کمر کس لی ہے ۔


اس سے پہلے ایک مرتبہ ہم کہہ چکے تھے کہ نئی حکومت میں معیشت سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں ہے کیونکہ گزشتہ زرداری اور نواز دور میں انتہائی منصوبہ بندی سے ملکی وسائل کو لوٹا گیا ہے تاکہ پاکستان کو معاشی بحران کے اس کنارے لاکھڑا کیا جائے جہاں سے اس سے ہر بات منوائی جاسکے۔ہم پہلے بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ یہ تمام جنگ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ لڑ رہی ہیں ان میں حکومتیں صرف چہرے کاکام دیتی ہیں ۔


امریکہ،برطانیہ،اسرائیل اور بھارت اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو زیرکئے بغیر کبھی کوئی کام اپنی مرضی کا نہیں کروایا جا سکتا چاہئے اس کے لئے زرداری یا نواز شریف کو ہی حکومتیں کیوں نہ دے دی جائیں اس بات کا تجربہ وہ نائن الیون کے بعد پہلے مشرف پھر میثاق جمہوریت کے نام پر زرداری اور نواز شریف پر کر چکے تھے لیکن اس پر آشوب دور میں بھی پاکستانی اداروں نے ان مشکوک حکومتوں کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانے دیا تھا جس کے ذریعے ملکی وقار داؤ پر لگ سکے یا خطے میں پاکستانی مفادات کا سودا کیا جا سکے۔


اس لئے اس کے بعد اب ایک ہی حربہ باقی رہ جاتا تھا یعنی معاشی بدحالی۔تاکہ جس وقت وطن عزیز کو معاشی استحکام کے لئے بین الالقوامی مالیاتی دجالی اداروں کی جانب رجوع کرنا پڑے تو وہ اپنی شرائط پر پاکستان کو قرضہ دینے کے لئے حامی بھر سکیں ۔مغربی دجالی صہیونی مالیاتی ادارے کیا شرائط عائد کرتے ہیں مثلاً پاکستان میں مزید مہنگائی کی جائے ،اسلامی انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کئے جائیں اور چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں وغیر ہ وغیرہ۔


بظاہر کسی بھی مالیاتی ادارے کی ایسی شرائط سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں کیونکہ یہ تمام کی تمام سیاسی نوعیت کی شرائط ہیں پھر مغربی مالیاتی اداروں کاان سے کیا تعلق؟تعلق اس طرح بنتا ہے کہ یہ صہیونی مالیاتی ادارے عالمی دجالیت کا معاشی ونگ ہیں جو اپنے اپنے وقت پر کام کرتے ہیں ۔یہ وہی دجالیت ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”قیامت سے قریب دجال ایک ہاتھ سے روٹیاں بانٹے گا اور دوسرے ہاتھ سے آگ برسائے گا“۔

اب پاکستانی قوم خود سمجھ لے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور اس کام کو آسان بنانے میں زرداری اور نواز کے ساتھ ساتھ اس ملک پر مسلط بدمعاشیہ نے کیا کردار ادا کیا ہے
 ۔۔۔
اس حوالے سے اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ ایک خاص زاویے سے ٹھیک فیصلہ ہے بلکہ اسے بہتری کی جانب ایک قدم بھی کہا جا سکتا ہے لیکن کیوں؟اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں جو حالیہ ڈالر مہنگا ہوا تھا اس میں کیا صورتحال پیش آئی تھی وہ اس طرح ہیں کہ پاکستانی اداروں نے پاکستان میں کام کرنے والی ایک سوبیس منی ایکسچینج کمپنیاں جو پاکستان میں چھ گروپوں کے ساتھ ڈالر مہنگا کرنے کی واردات میں شامل تھیں نشاندہی کی تھی ان میں تین گروپ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر زرداری ،
نوازشریف اور ایک بڑے میڈیا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔


آج سے تین چار ماہ قبل کافی شوراٹھا تھا کہ ایک بڑامیڈیا گروپ ختم ہونے جارہا ہے ،میڈیا کی تباہی ہوگی لیکن پھر اچانک ایک خاموشی کی کیفیت نظر آنے لگی۔۔۔کیوں؟ اس دوران ڈالر مہنگا ہوا تو اس مہنگائی کی صورت میں پیدا ہونے والا اضافی پیسہ کہاں گیا؟کہا یہ جارہا ہے کہ اس روپے سے اس میڈیا گروپ میں تنخواہیں ادا کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے جس وقت اداروں نے رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی کہ یہ لوگ اور گروپ اس سارے کام میں ملوث ہیں تو وزیراعظم کے استفسار پر وزیرخزانہ اسد عمر نے موقف اختیار کیا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ڈالر کا ٹریڈ اینڈ بیلنس کا خسارہ تھا جس کے مقابلے کے لئے معیشت مستحکم کرنے کی ضرورت تھی وغیر۔


لیکن یہ جواب حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا تھا ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسد عمر کا اس وقت چلے جانا ڈالر مافیا کی شامت کی جانب واضح اشارہ ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسد عمر کا تعلق تو کسی ایسے مافیا سے نہیں تھا نہ اس نے کبھی ایک روپے کی کرپشن کی تو پھر ہوا کیا؟ذرائع کے مطابق اسد عمر شریف آدمی ہیں انہوں نے جو کچھ کام کرنا تھا وہ ان سے ہو نہیں پایا۔

اب چونکہ ڈالر خور اور قبضہ مافیا کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کی خبریں ہیں دوسری جانب خطے کی صورتحال کے حوالے سے وطن عزیز اس وقت حالت جنگ میں ہے ۔
اس کا مطلب ہے کہ آپ کے دفاعی اداروں کے لئے مزید اسلحہ بھی خریدا جائے گا اب یہ خریداری مقامی کرنسی میں تو ہوتی نہیں بلکہ اس کے لئے ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں اب اگر ڈالر ہی مہنگاہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ جو چیز ہم پہلے ایک سودس روپے میں لیتے تھے اب ایک سو پچاس میں لینا پڑے گی یہ صورتحال ہمارے دفاعی اداروں کے لئے بھی پریشان کن ہے کیونکہ جنگ اب ہر ملک کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے اور اس صورتحال سے وہی ملک بچ سکیں گے جو معاشی طور پر کسی حد تک مستحکم ہوں ۔

اس بات کا اندازہ سوویت یونین کے انجام سے لگایا جا سکتا ہے جسے افغانستان معاشی طور پر کھا گیا تھا آج یہی صورتحال امریکہ کے ساتھ ہے وہاں لوگوں پر سوشل اور میڈیکل کی سہولیات کم یا ختم کی جارہی ہیں ،ٹیکس بڑھائے جارہے ہیں کیونکہ امریکہ حالت جنگ میں ہے ۔
سابق وزیرخزانہ چونکہ مزاجا شریف آدمی ہیں اس لئے وہ معاشی پالیسیوں کو مختلف انداز میں لیکر چلنا چاہتے تھے لیکن چونکہ اس وقت وطن عزیز میں طاقتور بدمعاشہ موجود ہے جس نے قوم کا پیسہ دبارکھا ہے وہ کسی طور بھی اسد عمر جیسے بندے کو چلنے نہیں دے سکتے تھے ۔

یہی بات اسد عمر کو بتائی گئی تھی کہ جناب آپ سے یہ کام نہیں ہونا اس لئے آپ کو چلے جانا چاہئے اس لحاظ سے عمران خان نے صحیح وقت پر صحیح قدم اٹھایا چاہئے بھلے نہ چاہتے ہوئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
بین الالقوامی صہیونی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی ڈالر مافیا کے ذریعے ڈالر کو ایک سواسی روپے تک لانے کے لئے کوشاں تھی اس دوران اسد عمر کا یہ کہنا کہ وہ ایک سوچالیس یا بیالیس روپے ڈالر پر معاشی صورتحال کنٹرول کر لیں گے کسی طور پر بھی ممکن نہیں تھا ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی اداروں اور حکومت کو کس قسم کے خطر ناک معاشی مافیا سے واستہ پڑ چکا تھا اس بات سے اسد عمر غافل تھے ان کے خیال میں اس مافیا کے لوگوں کو بھی عام انسانوں کی طرح ہی ڈیل کرکے کام نکالا جا سکتا تھالیکن یہ ناممکنات میں سے تھا۔
اسد عمر کے جانے کے بعد اب عمران خان کے پاس وقت کم ہے ملک میں اس وقت اسٹیسٹ ایمر جنسی کی صورتحال ہے ۔

اسد عمر کا جانا درحقیقت ڈالر مافیا کے لئے خبر تھی کہ اب ان کی گردن پر ہاتھ ڈالا جانے والا ہے ۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ میڈیا کر یک ڈاؤن کا سلسلہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے میڈیا یوسف بیگ مرزا سے شروع کیا جا چکا ہے اس کے بعد انتہائی خوفناک انکشافات کا دور شروع ہو جائے گا۔یہ وہ معاملات ہیں جو عمران خان سے سنبھالے نہیں جارہے تھے لیکن ریاست نے اپنے آپ کو آٹو کریکٹ کرتے ہوئے اب قدم اٹھانا شروع کردیا ہے ۔

اس میں عمران خان کے لئے ایک ہی صائب راستہ ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کردیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ان کی ٹیم میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط میں ہیں اور وزیرعمران خان کو اس کی خبر بھی ہے ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی وزارتوں میں بد عنوانی کی ہے ۔
وزیراعظم کے میڈیا مشیر یوسف بیگ مرزا پہلے نواز شریف اور بعد میں زرداری حکومت میں بھی بطور ایم دی پی ٹی وی کام کرتے رہے ہیں انہیں عمران خان کی جانب سے اپنے لئے مشیر برائے میڈیا مقرر کر دینا بہت سے حلقوں کے لئے حیران کن تھا ان کے خلاف تحقیقات کی خبر آنے پر بہت سے باخبر ذرائع نے واضح کر دیا ہے کہ اب میڈیا اور ان میں بھاری معاوضہ لینے والے اینکروں کی شامت سر پر کھڑی ہے ۔

کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جس وقت کچھ میڈیا ہاؤسسز کی کارستانیوں کی خبر یں مع ثبوت سامنے آجائیں گی تو ممکن ہے ان میں سے کچھ میڈیا ہاؤسز اس سال کے آخر تک ”قومیا“لئے جائیں
۔
اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات کا ادراک کر لیا ہے دنیا میں بڑی تبدیلیاں کے اسباب مشرق وسطی اورجنوبی ایشیا میں دیکھے جارہے ہیں افغان طالبان آسانی کے ساتھ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے نہیں دیں گے،بھارت امریکہ اور اسرائیل کی شہہ پر پاکستان کو سبق سکھانے کی پالیسی سے باز آنے والا نہیں چاہئے اس میں اسے اپنا جغرافیے سے دستبرادار ہونا پڑے۔

گذشتہ بیس برسوں کے دوران پاکستان کی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں جو بھارت اور امریکہ نواز فصل بوئی گئی ہے اس کے کٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔
ریاست اس بات سے بھی پوری طرح خبر دار ہے کہ خلیج میں اسرائیل کی سفارتی پیش قدمی عمان کے ساحلوں تک آلگی ہے جو گوادر سے زیادہ دور نہیں ۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران بھی بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے وہ بھی اس وقت جب بلوچستان کی کوسٹل ہائی وے پرچود ہ بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا اور دہشت گردوں نے ایرانی علاقے کی جانب راہ فرار اختیار کی ۔ان حالات میں پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں قربت پیدا کرنے کی کوشش کرنا انتہائی ناگزیر
 ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Asad Umar Se Asteefa Kiyon Liya Giya is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.