بد حال عوام میں حکمرانوں کا جنگی جنون

برطانوی سامراج نے اپنی چلاکی اور عیاری سے تقسیم کرو اور حکمرانی کے فارمولے کے تحت جو کشمیر کا مسئلہ ادھورا چھوڑا تھا وہ کشمیر ایک طرف تو سامراجیوں کے لیے جنگی سازو سامان کے گاہکوں کی صورت میں ایک منافع بخش مسئلہ بن کر رہ گیا

 Rashid baghi راشد باغی جمعہ 1 مارچ 2019

bad hall awam mein hukmraanon ka jangi junoon
عظیم ولایمیر لینن روس انقلاب کے رہنما نے کہا تھا جنگ اور جنگی ماحول میں سب سے پہلے سچ کا قتل ہوتا ہے جنگ سماج کے داخلی تضادات کے انتہائی تناوٴ کی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے۔ جنگ داخلی سیاست کو کسی اور طریقے سے چلانے کا نام ہے یہ قومی شاونزم اْبھار کے محنت کش عوام کا معاشی اور جسمانی قتل عام کا بیہودہ رقص ہے۔ جنگ ایک خوفناک عمل ہے۔ لیکن سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کیلئے خوفناک حد تک منافع بخش ہے ۔


آج اکیسویں صدی کی تقربیا دو دہائیاں ختم ہونے کو ہیں لیکن عظیم لینن کے کہے گے یہ جملے کسی صبح صادق کی طرح اِس سرمایہ دار نظام کی متجمع شدہ پیدا وار بن کر نسل انسان کو ایک اذیت اور بظاہر نہ ختم ہونے والے جبر سے دو چار کیے ہوئے ہیں ایک طرف جہاں آج پوری دنیا سرمایہ دارنہ نظام میں ایک گہرے نہ مٹنے والے بحران کی کیفیت سے گْزر رہی ہے وہاں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں سمٹ کر غربت اور امارت کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے اور اِس نظام کے محافظوں کی تجوریاں ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتی اِس عالمی منڈی کے زائد پیداوار کے بحران کے ساتھ جب ملٹی نیشنلز کا منافع سے شرح منافع محنت کشوں کی محنت لوٹ کر ممکن نہیں رہا تو یہ مزید پوری دنیا کے محنت کشوں ،محکوموں کو جنگوں، خانہ جنگیوں کے ذریعے نہ صرف تاراج کر رہے ہیں بلکہ اگر یہی سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری رہا تو اپنی سرمائے کی حرص میں اِس سیارے کو ہی تباہی کے دہانے پر لے جائیں گے۔

(جاری ہے)

جس طرح امریکہ, چین, یورپ, وسطی ایشا آج سرمایہ دارنہ نظام کی تاریخی متروکیت کے باعث شدید تر داخلی ,خارجی تضاذات سے بھرپور اتھل پتھل کا شکار ہیں بالخصوص وسطی ایشا میں کل تک جو مستحکم کہلانے والی ریاستیں تھیں وہ آج جنگوں,خانہ جنگیوں کی بھینٹ چڑھتے انسانیت دل سوز کیفت سے گزر رہی ہیں۔
 ایسے ہی بر صغیر میں دو ایٹمی قوتیں پاکستان اور ہندوستان جیسی ریاستیں جو کہ ایک خونی بٹوارے کے نتیجے میں قیام پذیر ہوئی جس کے حکمران آغاز سے ہی اپنی نامرادی اور نااہلی کے باعث یہاں کی عوام کے لیے کسی خوف ناک جلاد کا کردار ادا کرتے رہے وہ آج ایک دوہراے پر کھڑی ریاستیں شدید تر داخلی اور خارجی تضاذات سے بھرپور ایک ناسور کی شکل میں انسانی احساسات کو تار تار کر رہی ہیں محکومیت کی حالت میں مبتلا بسنے والی عوام پر جابر حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے حکمران ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں یہ دونوں ریاستیں کہنے کو ایٹمی ریاستیں ہیں لیکن ڈیڑھ ارب کی آبادی والی یہ ریاستیں غربت پالنے میں شائد ہی کرہ ارض پر اپنا کوئی ثانی رکھتی ہیں۔

ساڑھے ساتھ ارب کے اِس سیارے پر انسانی آبادی میں دنیا کی 42% غربت پال رہی ہیں ایک طرف جنگی جنون اور قومی شاوئزم کے ابھارنے سے اِن کے نت نئے پروپیگنڈے مین سٹریم میڈیا پر اچھالے اور دل دادا بنائے جا رہے ہیں جو میڈیا بھی سرمائے کے اِس چنگل میں غربیوں,محنت کشوں ,محکوموں کے خون سے اپنے ہاتھ بگونے میں پیش پیش ہے۔ خونی بٹوارے میں برطانوی سامراج نے اپنی چلاکی اور عیاری سے تقسیم کرو اور حکمرانی کے فارمولے کے تحت جو کشمیر کا مسئلہ ادھورا چھوڑا تھا وہ کشمیر ایک طرف تو سامراجیوں کے لیے جنگی سازو سامان کے گاہکوں کی صورت میں ایک منافع بخش مسلئہ بن کر رہا گیا لیکن اِن ریاستوں پر براجمان حکمرانوں کے لیے خون اور آگ کے کاروبار میں کسی جنگل کے درخت سے نہ ختم ہونے والا شہد ثابت ہو رہا ہے جس کو ڈھال بنائے دونوں اطراف کے حکمران جنگ و امن کے ناٹک کرتے انسانی نسل کے لیے رہبروں کے بھیس میں زہرنوں سے بھی بدتر عوام سے سلوک کر رہے ہیں پاکستان جو پیچھلے سال کی مردم شماری کے مطابق پونے 21 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی رکھنے والا ملک ہے اِس پر مسلط آج اور ماضی میں آمریت تھی یا جمہوریت اِس ملک کی عوام کا استحصال ہر ایک حکمران نے جاری رکھا اور اِس وقت پاکستان کی کْل آبادی میں سے 60 فیصد نوجوان طبقہ ہے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جو اعداد و شمار ایک گورکھ دھندہ ہیں بیروزگاری کی تعداد 6 سے 7 فیصد ہے جبکہ اصل حقیقت پاکستان میں بیروزگاری کی شرح پچاس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔

 کْل آبادی کے حساب سے پڑھے لکھے ہنر مند اور غیر ہنرمند نوجوان پاکستان میں اِس وقت ہر سال محنت کی منڈی میں تقربیا 20 لاکھ نوجوان محنت بیچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اِس ملک کی روبہ زوال معیشت میں ہر سال پونے دولاکھ سے دو لاکھ نوکریاں گورنمنٹ اور نجی اداروں میں تخلیق کرنے کی صلاحیت نہیں رہی ہے ان کے گورکھ دھندوں پر مبنی اعداد شمار تب مزید بھونڈے لگتے ہیں جب سرکاری ہدایت نامہ کے تحت ایک اجرتی کام کرنے والے کی ماہانہ کم از کم پندرہ ہزار تنخواہ مقرر ہے جس ملک پندرہ ہزار سے بیس ہزار گھروں میں بجلی کے بل آئیں اور دیگر یوٹیلیٹی واجبات ادا کرتے بقاء کی جنگ ایک نرق میں گزرے تو وہاں روزگار بھی محنت کش طبقے کے لیے کسی تاریک زنداں سے کم نہیں ہوتااسی طرح زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو زبوں حالی کا شکار نہیں ۔

پاکستان میں آج غذائی قلت سے%50 بچے ذہنی اور جسمانی نشو و نما کی تکمیل سے محروم ہیں %60 آبادی غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں کراچی جیسے بڑے شہروں %90 آبادی غلیظ اور آلودہ پانی پی رہی ہے 5 لاکھ سے زیادہ خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں آبادی کی بھاری اکثریت ہیپاٹایٹس ,ملیریا,ٹی بی اور دوسری غربت کی بیماریوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے %62 بلڈ پریشر اور %41 شوگر کے مریضوں کو اپنے مرض کا علم ھی نہیں ہے%84 ذہنی مریضوں کو اپنے مرض کا پتا نہیں %77 سے %80 علاج غیر سائیسی ہے جو کہ عطائی ڈاکٹر,نیم حکیم اور پیر فقیر کرتے ہیں %26 امراض کی تشخیص درست ہوتی ہے جبکہ %74 غلط ہوتی ہیعلاج کا نجی شعبہ اس وقت پاکستان کا منشیات اور دہشتگردی کے بعد تیسرا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے ۔

علاج کے طرح تعلیم کے شعبے کی حالت بھی ابتر ہے۔پاکستان اس وقت شائد دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پچھلے 5 سالوں میں سرکاری طور شرح حواندگی کی شرح میں 2.5% کمی واقع ہوئی ہے اور حکومتی شرح خواندگی کے اعداد شمار بھی ایسے اِس ملک میں وہ خونداہ ہے جو اپنا نام لکھ لے طبقاتی نظام تعلیم کی انتہا ہے۔ ایک طرف طلباء کے لیے فیسوں میں اضافے اور دوسری طرف زیادہ سے زیادہ کام کے بوجھ نے تعلیم کے حصول کو ایک عذاب مسلسل بنا دیا گیا ہے۔

طبقاتی تقسیم اور طلبہ سیاست پر پابندی محنت کش اور درمیانے طبقے کے طلبہ کو احساس محرومی اور دوہرے جبر کا شکار کرتے ہیں۔ 62% سے زیادہ بچے اس طبقاتی نظام تعلیم آور بجٹ میں تعلیم پر کم حرچ کرنے کی وجہ سے محروم ہیں۔ علاج کے بعد تعلیم کا شعبہ بھی بڑا منافع بحش کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ 
گیس بجلی لووٴڈ شیڈنگ اس ریاست میں عوام کے لیے اب ایک مسلسل عذاب بن چکا ہے یہ ایسے بحران ہیں جو بڑھتے ہی جا رہے ہیں بجلی اور گیس کے نزخوں میں اضافہ جیسے اِس نئی بننے والی حکومت کے منصوبوں میں صرف ایک ہی منصوبہ ہے وہ قیمتوں کو مسلسل بڑھانا اور پچھلی حکومتوں کی رہی سہی کسر بھی چند ہی ماہ میں پوری کرتے عوام کے جسم سے ایک ایک بوند خون کی نچوڑ لینا ہے تبدیلی سرکار کی طرف سے چند ہی ماہ میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث عوام گہری تشویش اور صدمے میں ہے۔

 چند روز پہلے گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد اضافہ کیا گیا جو گھریلو صارفین موسم سرما میں تین ہزار گیس کے بل بھرتے تھے اب اْن کے ہاتھ تیس تیس ہزار کے بل تھما دیے گے جب ان بلوں کو دیکھ کر عوام غم و غصہ کا اظہار کرنے لگے تو وزیر اعظم صاحب نے تحقیقات کروانے کا حکم جاری کر دیا اور تحقیقات میں بتایا گیا محکمانہ غلطی کی وجہ سے دس سے پندرہ فیصد صارفین کو اضافی بل دیا گیا لیکن یہ سفید جھوٹ ہے محکمانہ غلطی کے بجائے گیس کی قیمت بڑھا دی گی جب عوامی غصہ دیکھا گیا تو اْسے کم کرنے کے لیےِ بِل درست کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا جب کے دوسری طرف گیس کی قیمتوں میں بڑے صنعتکاروں ,سرمایہ داروں کو دو سو ارب روپے کے بِل معاف کر دیے گے جسکا بوجھ بھی عوام پر لادا گیا۔

اِسی طرح بجلی کے بِلوں میں بھی اضافہ ہوا ہے پٹرول کی قیمتوں میں جو پوری دنیا میں کمی ہوئی ہے لیکن یہاں تمام پٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ ہوا اِس کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کے ساتھ الیکٹرونکس مصنوعات پر بے تحاشا ٹیکس لگا دیے گے اور پاکستان عوام سامراجی قرضے ادا کرتے کرتے اِس ٹیکس اور مہنگائی تلے دب کر ایک اجیرن زندگی گزار رہی ہے اور قرض ایسا جو یہاں کی عوام کی فلاح پر کبھی مختص ہوا ہی نہیں صورتحال یہ ہے پہلا قرض ادا کرنے کے لیے نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف جیسے استحصالی ادارے کے سامنے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں جو قرض بھی حکمرانوں کی عیاشیوں سمیت دفاع کے نام پر خرد برد ہوتا ہے۔

 اِس وقت مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق کم ریونیو کلیکشن کے دباوٴ کے تحت حکومت اپنے بڑھتے ہوئے ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قرض لے رہی ہے جبکہ بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے نے حکومت کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بیرونی خلا پورا کرنے کے لیے ڈالر حاصل کرے۔مالی سال 2019 کے 5 ماہ کے دوران حکومت کا کل خسارہ 22 کھرب 40 ارب روپے یا 10.2فیصد اضافے کے ساتھ 264 کھرب 52 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

اسی عرصے کے دوران حکومت کا ملکی خسارہ 907 ارب روپے سے بڑھ کر 173 کھرب 23 ارب روپے ہوگیا جبکہ غیر ملکی خسارے میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا اور بیرونی قرضہ 13 کھرب 34 ارب روپے سے بڑھ کر 91 کھرب 3 ارب روپے ہوگیا۔
بیرونی قرضے میں اضافے بے تحاشہ اضافے کی ایک اور وجہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 15 فیصد تک اضافہ بھی ہے کیونکہ جون کے اختتام پر ایک ڈالر 121 روپے 54 پسے کا تھ جو 140 روپے 26 پیسے سے زائد کا ہوگیا روپے کی قیمت مسلسل گرنا افراط زر پر قابو نہ پایا جانا بھی مسلسل نوٹ چھپوائی کے باعث ہے حکومت کی جانب سے اپنے اندرونی قرض کو بنیادی طور پر خزانے کے بل پر انحصار کرکے مختصر مدت کے قرض کے ذریعے بڑھایا اور مالی سال 2019 کے پہلے 5 ماہ میں مختصر مدت کا قرض 11 کھرب 68 ارب روپے سے بڑھ کر 100 کھرب 57 ارب روپے ہو گیا ۔

اِس مْلک کے حکمران کے پاس عرب ممالک سے قرض کی بھیک اور آئی ایم ایف کے سامنے گڑ گڑاتے ملکی معشیت کو چلانے کے منصوبے ہیں جو ملک دیوالیہ کیفیت میں ہے اس میں عوام سے ہی بلاد کار جاری رہے گا جس طرح ملکی معیشت اور پاکستانی کی سیاسی سماجی کیفیت ہے اْس میں بیرونی سرمایہ کاری کرنے والوں کے زیادہ امکان نہیں حال ہی سعودی شہزادے نے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان تو کیا ہے لیکن سعودی شہزادے کے بارے میں کہا جاتا ہے اْس نے اِس عرصے میں ایسے کہیں ممالک میں اِس طرح کے اعلانات اور وعدے کیے ہیں لیکن وعدوں کے مطابق دس فیصد پروجیکٹس کی بھی تکمیل کے لیے سرمایہ نہیں لگایا اور اگر اِس طرح کی سرمایہ کاری جن پروجیکٹس کے بارے میں زیر غور کیا گیا اگر شہزادا کرتا بھی ہے تو اْس کام کے شروع ہوتے ایک دہائی لگ سکتی اور سامراجی اگر سرمایہ کاری کرتے بھی ہیں تو اْن کا حتمی مقصد یہاں کے محنت کشوں کو لوٹنا ہی ہوتا ہے اور اِس سرمایہ کاری کی شائد پھر عوام کو بڑی قیمت جھکانی پڑے جس طرح آج تک یہ عوام پرائی افغان جنگ میں جھلس رہے ہیں ایسا کچھ ممکن ہے ایک آزاد ریاست کے یہ منہ پر طانمچہ ہی ہے جو سعودی شہزادہ پاکستان میں کھڑا ایران کو دھمکی دے رہا ہے دوسری طرف سیکولر بھارت شائینگ بھارت کے نعرے کسنے والے مودی سرکار کی بھارت کی صورتحال کچھ مختلف نہیں 80 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے عوام زندگی گزارنے پر مجبور وکاس کے سارے وعدے دھندلے جن پر مٹی پھر گئی اور الیکشن میں مکمل شکست جب نظر آئی تو جنگی جنون اور مذہبی شدت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔

اِس بڑھتے ہوئے عدم تحفظ لاقانونیت میں عوامی غم و غصہ کو زائل کرنے طبقاتی جڑت کے خاتمے کے لیے دونوں ریاستوں کو اِن داخلی تضاذات سے نمٹنے کے لیے عوامی تحریکوں کو روکنے کے لیے مہنگائی اور ٹیکس کی بھرمار عوام پر لادنے کے لیے سامراجی قرض ادا کرنے کے لیے اِس غریب محرمیوں میں جکڑی ہوئی عوام کو قومیت کے جذبے مذہب کے بھائی چارے پر دشمنی کا کھیل رچانا ہو گا اور اِن جذبات میں اپنے اوپر ہونے والے معاشی سماجی قتل کی برداشت پیدا کرنی ہو گی سامراجی مقاصد کی تکمیل کرنی ہو گی جنگی صنعت میں پڑے اسلحے کی کھپت کے لیے ایسے محاز کھولنے ہونگے خوف و ہراس سے انسانوں میں بیگانگی اور مایوسی پیدا کرنا ہو گی غربیوں کی بستایاں اجاڑنی ہو گی انفراسٹکچر تباہ و برباد کرنا ہو گا جہاں سرمایہ دار پھر سے سرمایہ لگا سکیں آہوں سسکیوں اور خون میں لتھڑی تصویروں کو روایتی میڈیا سوشل میڈیا پر دیکھاتے اْن کے نام پر خیرات اکھٹی کرنی ہو گی یہ تماشہ آج کا نہیں یہ سامراجیوں کا تخلیق کیا کھیل ہے جو سرمایہ دارنہ نظام کی حتمی پیداور کا ماتم بھی بنا رہا ہے اور یہ ماتم پچھلے بہتر سال سے یہاں کی عوام پر مسلط ہے۔

 اِس جنگی جنون میں عام انسان میں نفرت اور جنگی کھیل کی دھمکیاں سوشل میڈیا پر گردش کرتی اِس نظام کی انسانی رشتوں اور ثقافت کی زوال پذیری کی عکاسی ہے اور یہ زوال پذیری انسان کے ماتم جیسی ہی ہے لیکن دشمنی، تعصابات،نفرت بھی زندہ اجڑے زخمی سماج کی نشاندی کرتے ہیں لیکن یہ تعصابات,نفرت ,دشمنی انسان کی شان نہیں انسان کا شعار نہیں یہ دشمنیاں,تعصابات,فرقہ واریت,قومیت جھوٹے ترین ہیں اور یہ ایک بدبوار سماج نظام کی غمازی کرتے ہیں ناقابل برداشت حالات انسان کو قریب آنے پر مجبور کریں گے جس جڑت میں اب زیادہ دیر نہیں جلد برصغیر کا محنت کش,غریب ,نوجوان,محکوم ان تمام تر تعصابات کو مسترد کرے گا یہ جنگی کھیل ناٹک ہوا میِں تحلیل ہونگے اور تاریخ کے میدان میں طبقاتی جڑت قائم ہو کر رہے گے اور ایک انسان سماج کی بنیاد رکھی جائے گی جہاں جنگ کے بجائے حقیقی امن ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

bad hall awam mein hukmraanon ka jangi junoon is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.