بھارت تعصب پسندی کی آگ میں

شہریت ترمیمی بل کی مخالفت میں ہر مذہب و مکتب فکر کے لوگ سراپا احتجاج۔ دو طالبات کی جرت مندی نے مودی سرکار کی بربریت کو اقوام عالم میں بے نقاب کر دیا

Muhammad Sikandar Haider محمد سکندر حیدر منگل 31 دسمبر 2019

Bharat tasub pasandi ki aag mein
تعصب اور تکبر جب انسان کو گمراہ کر تے ہیں تو پھر اُس انسان کے زوال کی منزل زیادہ دور نہیں ہوتی۔جب مغرور انسان کے سر پر غرور چڑھنے لگے اور اُسے خدا کے بندے حقیر محسوس ہونے ہیں ، تو خدا اپنی کمزور مخلوق ابابیل سے طاقتور ہاتھیوں کے لشکر کو بھی شکست دلوا دیتا ہے۔
اِس وقت بھارت اپنے تعصب اور انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کے تعصب اور تکبر کی بناپر آگ کے شعلوں میں لپٹا ہو اہے۔

پورے بھارت میں مودی سرکار کے منظور کردہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل 2019کے خلاف پرُتشدد مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے ابتدامیں معمولی انداز میں شمال مشرقی ریاست آسام سے شروع ہوئے تھے مگر جب دہلی پولیس اپنی طاقت کے نشہ میں بدمست ہو کر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں داخل ہو کر ایک طالب علم شاہین کو زدو کوب کرنے لگی تو اُس طالب علم کی فی میل ہم جماعت 22سالہ لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رانا سمیت دیگر دو طالبات نے جس بہادری سے دہلی پولیس کی بربریت کا مقابلہ کیا ۔

(جاری ہے)

وہ جرت ظلم کے خلاف ایک ایسی مثال بنی ہے کہ پورے بھارت میں یہ دونوں طالبات اب پورے احتجاج کی شناخت Face of Jamia Protest The Female کہلا رہی ہیں۔
11دسمبر 2019بروز بدھ کو مودی سرکار نے شہریت (ترمیمی) بل 2019 کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) سے منظور کرایا۔ جبکہ یہ بل 09دسمبر کو ایوان زیریں (لوک سبھا) سے پہلے ہی اپوزیشن کی مخالفت کے باجود پاس ہو چکا تھا۔

اِس بل کے مطابق بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ مذ ہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔اِس بل کی مخالفت بھارت میں ہر طبقہ فکر نے شروع کر دی ۔ سب سے پہلے آسام سے اِس بل کے خلاف آواز بلند ہوئی جو کہ مظاہروں میں تبدیل ہو تی گئی۔ پھر دھیرے دھیرے پورے بھارت میں لوگ مودی سرکار کے اِس متعصبانہ بل کے خلاف سٹرکوں پر آگئے۔

دہلی میں بھی مظاہرے شروع ہوگئے ۔ مگر 15دسمبر بروز اتوار کو جب دہلی پولیس روایتی طاقت کے نشہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ہوسٹل میں داخل ہوئی اور اُس نے شاہین نامی طالب علم پر تشدد کیا اور اُس کی ساتھی طالبات لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رانا نے پولیس گردی کا دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا ۔ اپنے جسم پر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں مگر شاہین طالب علم کو بچا لیا ۔

دوسری جانب دہلی پولیس وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اندر تک گھس گئی۔ بھارت میں وائس چانسلر ز کی اجازت کے بغیر کسی بھی جامعہ میں پولیس کو داخلہ کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ دہلی پولیس نے لابئریری میں بیٹھے ہوئے سٹوڈنٹس پر آنسو گیس کے شیل پھینکے ،لاٹھی چارج کیا حتی کہ باتھ رومز میں چھپنے والے سٹوڈنٹس کو باتھ رومز میں جا کر ظالمانہ تشد د کا نشانہ بنایا اور انہیں لہو لہان کر دیا۔

دہلی پولیس ،اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) اورراشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے غنڈوں کی دہشت گردی و بر بریت کے جب یہ تمام مناظر بذریعہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو پورے بھارت میں بھونچال آیا گیا۔ 
  پورے بھار ت میں مودی سرکاراور دہلی پولیس کی دہشت گردی کے خلاف مظاہروں میں اِ س قدر شدت آ چکی ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، مولانا آزاد میڈیکل کالج دہلی، چندی گڑھ یونیورسٹی، دارالعلوم ندوات العلماء لکھنو، پٹنہ یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرا ٓباد، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی حیدرآباد، آئی آئی ٹی مدارس، آئی آئی ٹی بمبئی، ٹی آئی ایس ایس بمبئی یونیورسٹی، آئی آئی ٹی خان پور، جین یونیورسٹی بنگلور، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس بنگلورو،راجیو گاندھی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یوتھ ڈویلپمنٹ،آسام اسٹوڈنٹس یونین جلوکبری گوہاٹی، اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اتر پردیش کے لاکھوں سٹوڈنٹس سٹرکوں پر نکل کرمودی سرکار کے متنازعہ شہریت ترمیمی بل کے خلا ف مظاہرے کر رہے ہیں۔

یہ مظاہرے آسام سے عام شہریوں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے شروع کیے تھے مگر سانحہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد اب اِن مظاہروں میں تمام مذاہب و مکتبہ فکر کے افراد شامل ہو چکے ہیں ۔اِن مظاہروں کی پر تشد د سینکڑوں ویڈیوز اِس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ جن کی بناپر بھارت کے خلاف امریکہ یورپ سمیت تمام عالم میں مودی سرکار پر سخت الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے۔

گانگر س کے راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ ”CAB اور NRC بڑے پیمانے پر پولرائزیشن کے ہتھیار ہیں جو ہندوستان پر فاشسٹوں نے جاری کیے ہیں۔ ان گندے ہتھیاروں کے خلاف بہترین دفاع پرامن احتجاج ہے اور میں اُن تمام لوگوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہوں جو CAB اور NRC کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کر رہے ہیں“۔ 
متنازعہ شہریت (ترمیمی) بل 2019 کے بارے میں سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کا کہنا ہے کہ یہ بل پارلیمان کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔

اگرچہ سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ نے اس متناز عہ بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ درخواست میں انڈین یونین مسلم لیگ کا قانونی موقف ہے کہ یہ بل برابری، بنیادی حقوق اور زندہ رہنے کے حق سے متعلق آئین کی شقوں سے متصادم ہے۔ مگربھارتی سپریم کورٹ کی سابقہ عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ بھارتی عدالتیں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو ریلیف نہیں دیتیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اِس بل کے خلاف اب پورے ملک میں مظاہرے پھیل چکے ہیں۔ بھارت کے دس اضلاع میں انٹر نیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔ گوہاٹی میں کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔بنگلہ دیش سے ملحقہ انڈین ریاست تریپورہ سمیت مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع مرشد آباد، ہوڑہ، مالدہ میں بھی مظاہر ے پھیل چکے ہیں۔ ابتدائی میڈیا رپورٹس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے کم از کم 17 بسوں، پانچ خالی ریل گاڑیوں، فائر برگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کو نظر آتش کیا جبکہ آدھا درجن ریلوے سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔

 
آسام اور تریپورہ میں عوام کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ان ریاستوں میں بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب آ جائے گا۔جس سے مقامی آباد ی متاثر ہو گی۔ نیز یہ بل اُس آسام معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جواگست 1995 کو انڈین حکومت اور آسام تحریک کے رہنماوٴں کے درمیان طے پایا تھا۔ اُ س وقت بھی آسام تحریک کو چلانے والے بھی سٹوڈنٹس تھے۔

آسام معاہدے کے مطابق مہاجرین کو ملک میں رہنے کی قانونی حیثیت دیے جانے کی تاریخ 25مارچ 1971ہے، لیکن شہریت کے ترمیمی بل میں اسے 31دسمبر 2014 تحریر کیاگیا ہے۔شہریت کے ترمیمی بل میں نئی کٹ آف ڈیٹ کی وجہ سے اُن لوگوں کے لیے بھی شہری درجہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے جو 1971 کے بعد اور 31 دسمبر 2014 سے پہلے آسام میں داخل ہوئے ہیں۔اِسی طرح دیگر متنازعہ قانونی پہلو لوگوں کے لیے باعث تشویش بنے ہوئے ہیں۔

شہریت کے متنازع قانون کی منظوری پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ری ایکشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ ’امریکہ بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی آئینی اور جمہوری اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔“۔ ناقدین اور بھارت کی حزب اختلاف کی شخصیات کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں میں عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے۔

اقلیتوں کے ساتھ مودی کی دشمنی کے یہ مناظر دُنیا پہلی بار نہیں دیکھ رہی بلکہ اِس سے قبل بھی مودی مسلم دشمنی کے متعدد پر تشدد واقعات کا ذمہ دار ہے۔ مگر چونکہ گذشتہ 72سالوں سے بھارت میں ہندو انتہاپسندی کا آج تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکا اِسی بناپر مودی قتل کرکے بھی بچ جاتا ہے۔
بھار ت میں اِس سے بڑھ کر مسلم دشمنی اور انصاف کا قتل اور کیا ہو سکتا ہے کہ گذشتہ دنوں گجرات اسمبلی نے ناناوتی مہتا کمیشن کی رپورٹ پیش کی ، جس میں 2002 میں ہونے والے مسلم مخالف تشدد کی تحقیقات میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی کو بے گناہ و بے قصور قرار دیا گیا ہے۔

2002میں گودھرا میں ٹرین کو جلانے کے خوفناک واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد ایک منظم ہجوم نے ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو تشد د کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ پوری دُنیا جانتی ہے کہ سانحہ گجرات مودی کا ظالمانہ منصوبہ تھا۔ قابل افسوس تو یہ امر ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس سپریم کورٹ جی ٹی ناناوتی اور سابق گجرات ہائی کورٹ کے جسٹس اکشے مہتا (ریٹائرڈ)نے نہ صر ف اُس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی ، اُس کی ریاستی انتظامیہ ، پولیس اور وزرا کو فسادات میں کسی بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہونے سے بری کردیا ہے بلکہ کمیشن نے حکمران جماعت بی جے پی جس کے حکم پر پرُتشد د واقعات ہوئے تھے اُس کو کلین چٹ تھما دی ہے۔

حالانکہ رپورٹ میں یہ شواہد ملے ہیں کہ گجرات کے مسلم علاقوں میں پیش آنے والے واقعات میں وی ایچ پی (وشوا ہندو پریشد) اور بجرنگ دل کے مقامی اراکین نے حصہ لیا تھا۔ 
بھارت اِس خطے میں ایک بڑا ملک ہے۔ اِس کا کل رقبہ 3287263مربع کلومیٹر ہے۔ پارلیمانی طورپر وفاقی جمہوریہ ہے اور اِسی وجہ سے یہ دُنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے۔

اِس کی آبادی ایک ارب 34کروڑ 92لاکھ 17ہزار956(بمطابق 3اگست 2018) ہے اور بلحاظ آبادی انڈیا اِس وقت دُنیا کا دوسر ا بڑا ملک ہے جبکہ 2025تک یہ دُنیا کا پہلے ملک بن جائے گا۔اِ سکی 29ریاستیں اور 07وفاقی علاقے ہیں۔ انڈین حکومت خو دکو لادینی (سیکولر) ریاست کہلواتی ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق بھار ت میں 79.8فیصد ہندو، 14.2فیصد مسلمان اور6فیصد دیگر مذاہب کے افراد آباد ہیں۔

بھارت کے 497شہروں میں دس بڑے شہر ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد دکن، احمد آباد، چینائی، کلکتہ، سورت، پونے اور جے پور ہیں۔ جبکہ 29ریاستوں میں دس بڑی ریاستیں اُترپردیش، مہاراشٹر، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، راجھستان،کرناٹک ، گجرات اور آندھیرا پردیش ہیں۔ بھارت کی مشرقی سرحدیں بنگلہ دیش ، میانمار، شمال سرحدیں بھوٹان، چین ،نیپال اور مغربی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔

جبکہ سری لنکا اور مالدیپ قریبی ہمسایہ ممالک ہیں۔ 
بھارت جوہری ہتھیاروں سے لیس بلحاط تعداد افواج دُنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت ہے جو پورے خطہ میں ایک فتنہ کی پہچان رکھتی ہے۔ بھارت اپنے تکبر کی بناپر تمام ہمسایہ ممالک کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ پاکستان سے تین بڑی جنگیں 1965، 1971اور 1999کرگل جنگ کر چکا ہے۔ جبکہ دیگر تمام ہمسایہ ممالک بشمول چین سے اکثر وبیشتر فتنہ انگیزی کرتا رہتا ہے۔

موجودہ وزیر اعظم نرنیدر مودی 26مئی 2014سے تاحال دوسری مرتبہ منصب وزرات عظمی پر فائز ہے۔ مودی ایک تعصب پسند اور انتہا پسند ہندو ہے۔ مسلمانوں سے سخت نفر ت کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں پاکستان سے فتنہ سازی کرتا رہا ہے مگر پاک افواج کی منہ توڑ جوابی کاروائیوں کی بناپر ابھی تک جنگ کی دھمکی سے آگے بات نہیں بڑھا سکا۔ پاکستان افواج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹوئیٹر پیغام میں بھارت کے حالیہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ”ہندوستان کے مقبوضہ جموں و کشمیر سے آسام اور اس سے آگے ... اِس کے خاتمے کا آغاز ہے“
بھارت اِس وقت تکبر اور جنگی جنون میں مبتلا ہے۔

دفاعی خرچ کرنے والا یہ اِس وقت چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے۔ مگر دوسری جانب مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2016میں ہر روز 31کسانوں نے تنگ آکر خود کشی کی۔ بھوک کے حوالے سے 2019کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اِس وقت 117ممالک کی فہرست میں 102پوزیشن پر ہے۔ جبکہ پاکستان ، بنگلہ دیش، سری لنکا ، نیپال اور چین بالترتیب 94،88،66،73 اور 25پوزیشن پرہیں۔ بھارت دُنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں بھوک کے خوف سے بچوں کو ( پیدائش سے قبل بذریعہ اسقاط حمل) مار دیا جاتا ہے۔

جبکہ 09ماہ تا 23ماہ کے 90فیصد بچوں کو مطلوبہ خوراک ہی میسر نہیں ہے۔ غربت ، کرپشن ، صحت عامہ کے مسائل اور بے روز گاری نے اِ س وقت بھارت کو چاروں طرف سے جکڑ رکھا ہے ۔ مگر پھر بھی بھارت ہمسایہ ممالک سے ہر وقت لڑنے کو تیاررہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ چار ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے ، کرفیو نافذ ہے اور کشمیری جہنم کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

کشمیریوں پر حالیہ جاری ظلم ایک آتش فشاں بن چکاہے جس دن یہ آتش فشاں پھٹے گا ، یہ پورے خطے کو یہ اپنی لیپٹ میں لے گا۔ ظلم کی دیمک نے بھارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دو معصوم طالبات لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رانا کی ظلم کے سامنے جرت نے مودی سرکار کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ آج ہندو بھی مسلم سٹوڈنٹس اور اقلیتی مظاہرین کے شانہ بشانہ مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حقائق و واقعات سے گمان واقعی یہی ہوتا ہے کہ ہندوستان کے خاتمے کا آغاز ہو چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bharat tasub pasandi ki aag mein is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 December 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.