بھارت زخمی سانپ کی طرح دوبارہ وارکرے گا!

نیتن یاہو‘مودی اور اشرف غنی کا مستقبل داؤ پر او آئی سی میں بھارت کی شرکت اسرائیلی دباؤ کا نتیجہ ہے

منگل 12 مارچ 2019

Bharat zakhmi saanp ki tarhan dobarah waar keray ga
 محمد انیس الرحمن
نائن الیون کے ”ڈرامے کی کامیابی کے بعد“جارح ملکوں کو ایک سبق ملا ہے کہ اپنے ہاں کسی بھی قسم کا کوئی دہشت گردانہ حملہ کروا کر ملبہ مطلوبہ ملک پر ڈال کر کارروائی کا جواز حاصل کر لیا جائے۔اس ”کامیاب پالیسی“کے مد نظر رکھتے ہوئے بھارت بھی اب تک اپنے ہاں کئی ”ڈرامے“کر چکا ہے جس میں پلوامہ کا واقعہ اس میں سب سے نیا ہے مگر اس مرتبہ یہ ڈرامہ بری طرح پٹ گیا ہے ۔

بلکہ مودی سرکار کو لینے کے دینے پڑ گئے ،بھارتی میڈیا ہندوانتہا پسندوں کی گن پوائنٹ جس کا شوروغوغا کرتا ہے اس پر بحث بے کار ہے ۔
جس وقت پلوامہ کے واقعے پر بھارت نے پاکستان پر الزام تراشیاں شروع کی تھیں ہم اس وقت سے ان ”ڈرامے “کی ٹائمنگ نوٹ کرنے میں لگ گئے تھے ۔ایک طرف دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہورہے تھے جس میں نہ کابل کی ماشرف غنی انتظامیہ شامل تھی اور نہ ہی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والا بھارت موجود تھا تیسری جانب افغانستان میں امریکی موجودگی کا سب سے بڑا حامی اسرائیل تھا۔

(جاری ہے)

اس لئے مودی کا بطور مہرہ کام دکھانا بے معنی نہیں تھا۔
ہمارے میڈیا اور سرکاری حلقوں میں بے شک اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ پلوامہ کا واقعہ درحقیقت مودی کی آئندہ انتخابی مہم کا ایک حصہ ہے لیکن روز اول سے ہم نے اسے صرف مودی کی انتخابی مہم کے طور پر نہیں دیکھا۔اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بین الالقوامی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو مودی کی انتخابی مہم کی ٹائمنگ کا معلوم تھا اس لئے اس مہرے کو خطے کی بساط پر آگے بڑھایا گیا تھا لیکن مودی سرکارا س پتے کو صحیح انداز میں کھیلنے میں ناکام رہی ۔

یہ ممکن نہیں ہے کہ جب تک کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ اپنے حکمران کے ساتھ نہ ہو وہ کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا اس لئے اسے صرف مودی کی مہم جوئی قرار دینا عقل میں نہیں آتا۔
کیا امریکی صدر اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بائی پاس کرکے کوئی بڑا بین الالقوامی قدم اٹھاسکتا ہے ؟کیا کبھی برطانیہ یا دوسرا کوئی مغربی ملک اپنی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کسی بڑی کا رروائی کا آغاز کر سکتا ہے؟
یقینا نہیں یہ رواج کہیں نہیں ہے ۔

ہم نے اور ہمارے زر خرید میڈیا اور لبر لر لابی نے جس انداز میں اپنی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً عسکرے ادارے کو نشانے پر لیا ہوا ہے ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔اس لئے اس ساری مہم جوئی میں موجودی سرکا ر اور اس کو بر سراقتدار لانے والی برہمن اسٹیبلشمنٹ پوری طرح شریک ہے۔
اس سارے دورانیے میں عرب امارات میں او آئی سی کا اہم اجلاس بلایا جاتا ہے جس میں امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے بھارتی وزیر خارجہ کو بھی دعوت نامہ ار سال کر دیا حالانکہ بھارت کا کیا کام مسلم ملکوں کی تنظیمی کا نفرنس میں لیکن عبداللہ بن زاید کے اصرار پر بھارت کو مدعو کیا گیا پاکستان کو بھی اس دعوت نامہ کا اس وقت علم ہوا جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کا اعلان کیا۔

پلوامہ کا واقعہ ہو چکا تھا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی کسی وقت بھی بڑی جنگ کے چھڑ جانے کے خطرات منڈلارہے تھے۔
بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کا بھانڈہ پھوٹ چکا تھا اور اگلے روز ہی پاکستان کے بہادر شاہنوں نے دو بھارتی طیارے بھی گر ادئیے تھے ایسی فضا میں بھارت کا او آئی سی کے اجلاس میں بطور مندوب شرکت کرنا انتہائی معنی خیز تھا ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کو مدعو کرتے ہوئے عرب امارات کے حکام نے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور دیگر اہم رکن ممالک کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

آخیر اس ساری کوشش کے پیچھے کون تھا؟بعض عرب ذرائع نے یہاں تک دعوی کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یو اے آئی پر بھارت کو مدعو کرنے کا دباؤ تھا۔۔۔!!تاکہ پاکستان کی سبکی کرائی جائے۔لیکن پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرکے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا۔وہ الگ بات کے کہ اجلاس کے مشترکہ بیانیے میں بھارت کی دال نہ گل سکی۔

لیکن اس سارے واقعے نے او آئی سی کے پہلے سے داغدار ماضی میں ایک اور دھبہ لگادیا۔
مسلم دنیا کی اس وقت دو نمائندہ تنظیمیں ہیں جن میں سے ایک او آئی سی ہے جس میں تمام مسلم ممالک شامل ہیں جبکہ ایک عرب لیگ ہے جس میں صرف عرب ممالک شامل ہیں ۔لیکن آج تک یہ دونوں تنظیمیں کسی بھی مسئلے کو حل کرانے میں ناکام رہی ہیں ۔بلکہ اب اسے ایک ڈیبیٹنگ کلب کا نام بھی دیا جانے لگا ہے جہاں صرف مسائل زیر بحث آتے ہیں مگر ان کا کوئی حل پیش نہیں کیا جاتا نہ اس طرف کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا ہے ۔


عراق ،شام ،لیبیایمن برباد ہو گئے لاکھوں مسلمان اس صہیونی دجالی جنگی مہم کی نذر ہو گئے نہ تو او آئی سی اور نہ ہی عرب لیگ اس مسئلے کے حل میں کوئی فعال کردار ادا کر سکی اور ادا بھی کیسے کرتی جبکہ اس کے
بیشتر رکن ممالک امریکہ اور اسرائیل کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں ۔اس لئے پاکستان کی جانب سے اس او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کر نایا نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔


پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ مہم کا جائزہ لیا جائے تو اس کی کئی قسم کی وجوہات سامنے آئیں گی ۔
بھارت کو ایک اضطراب یہ ہے کہ پاکستان کے پڑوس افغانستان میں اٹھارہ برس سے امریکہ اور اس کے صہیونی دجالی اتحادی جنگ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں لیکن اس ساری مہم کے دوران پاکستان کمال مہارت سے محفوظ رہا۔بھارت سمیت تمام دشمنوں نے افغانستان میں مورچہ لگا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کیں لیکن ہر بار یہاں کے اداروں نے ملکی سلامتی کے لئے جانیں قربان کرتے ہوئے اس پر کوئی آنچ نہ آنے دی ۔

صرف یہی نہیں ان پر آشوب حالات میں پاکستان جیسا ملک چین کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے منصوبے تیزی کے ساتھ مکمل کرنے لگا۔
جن منصوبوں کو روکنے کے لئے کے پی کے سے بلوچستان تک آگ بچھادی گئی تھی وہ آگ اس وطن کے سپوٹوں نے اپنے خون سے بجھادی ۔جس کی وجہ سے بھارت سے لیکر امریکہ تک خفت کی ایک لہر دوڑ گئی۔بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ چین کے بعد روس اور ترکی بھی تیزی کے ساتھ اس سی پیک میں شرکت کے لئے آگے بڑھنے لگے دشمن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس وقت روس بھی پوری طرح اس منصوبے میں پاکستان کا پارٹنر بن گیا تو پورا وسطی ایشیاخود بخود اس میں شامل ہو جائے گا۔

یوں پاکستان کی اس اقصادی ترقی کی وجہ سے یہاں پر ہن برسنا شروع ہو جائے گا۔
کیونکہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے قائم کر دہ این آر او زد ہ سیاسی قیادتیں کچھ جیل جا چکی ہیں اور کچھ جانے والی ہیں ۔اب ایک طرف سی پیک ،گوادر کی پورٹ ،افغانستان میں امریکہ کا افغان طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا ،چین کے بعد روس ،ترکی سعودی عرب،قطر اور عرب امارات کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری ہے جس نے پاکستان کو عالمی منظر نامے میں مرکزی حیثیت دلادی ہے جبکہ بھارت عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے جی ہاں وہ بھارت جو خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی فرنٹ لائن تصور کیا جاتا ہے ۔


اب ایسی صورت میں پاکستان معاشی اور عسکری طور پر مزید مضبوط ہو جائے یہ امریکہ اور اسرائیل کو کسی صورت منظور نہیں اسی لئے انہوں نے اپنے آزمودہ مہر ے مودی سر کار کو اس ساری پیش رفت کے سامنے بندباندھنے کے لئے آگے بڑایا اس سلسلے میں مشہور برطانوی صحافی رابرٹ فسک کا یہ انکشاف کہ پاکستان میں بھارتی فضائیہ کی مہم جوئی کے دوران اسرائیلی ساختہ بم گرائے گئے معاملے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اسرائیل اس وقت بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے پہلا ملک بن چکا ہے ۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان نہ صرف اسلحہ سازی کے کئی مشترکہ منصوبے روبہ عمل ہیں بلکہ خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان قریبی روابط ہیں ۔اس کے علاوہ بعض عرب صحافتی ذرائع نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اسرائیل کی ناجائزریاست کے وزیر اعظم نیتن یا ہو بھی جلد بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ دور میں تین قسم کی جنگیں پوری شدت اور جوش کے ساتھ لڑی جارہی ہیں ۔

پہلی جنگ اسلحے کے زور پر لڑی جارہی ہے اسلامی دنیا اسے مذہبی جنگ سمجھتی ہے لیکن حقیقت میں یہ مذہب کے ساتھ ساتھ معاشی جنگ بھی ہے ۔یہ جنگ جدید اسلحے کے زور پر افغانستان ،عراق،شام ،لیبیا وغیرہ میں لڑی جارہی ہے ۔اس کے بعد ”ذہنی یا دماغی تباہی کی جنگ“اس جنگ میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں میں اعلیٰ ترجیحات ختم کی جارہی ہیں تا کہ وہ ایک فضول قسم کے وجود کی حیثیت اختیار کر جائیں ۔

فضول قسم کے وجود میں تبدیل ہو کر انسان کسی طور بھی اپنے کاندھوں پر قومی ذمہ داریوں سے عاری ہو جاتا ہے ۔ان دو قسم کی جنگوں کے حوالے سے پہلے بھی بات ہوتی رہی ہے کہ اب دشمن کے لئے جدید اسلحہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس نے کئی دوسرے محاذوں تک اس جنگ کو امت مسلمہ کے خلاف پھیلا دیا ہے ۔
اب یہ جنگ زمین کے دائرے سے نکل کر خلا تک جا پہنچی ہے اسے دنیا کی مہنگی ترین جنگ کہا جاتا ہے جو فی الوقت چین اور امریکہ کے درمیان جاری ہے لیکن یقین جانیں کہ مسلم دنیا کے لئے یہ محاذ انتہائی اہم ہے جبکہ تیری صفر۔

۔۔امریکہ اور اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ چین کو کم سے کم پاکستان کے راستے کو سی پیک کے نام سے استعمال کرنے سے روکا جائے اس لئے وہ براہ راست چین سے شاہد ٹکر نہ لیں لیکن خطے میں اپنے سب سے بڑے اتحادی بھارت کو اس سلسلے میں پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار کیا ہوا ہے ۔پولامہ کے واقعے کے بعد کی صورتحال ابھی پہلا راؤنڈ ہے جس میں بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں انتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ زخمی سانب کی طرح بل کھارہا ہے ۔


جہاں تک او آئی سی میں پاس ہونے والی قرار دادیا مشترکہ بیانیے کو پاکستان اپنی اخلاقی فتح تصورنہ کرے کیونکہ اس وقت او آئی سی کی لگا میں جن عرب ملکوں کے ہاتھوں میں ہے وہ خودا س وقت اسرائیل کے انگوٹھے تلے آچکے ہیں اس لئے اس جانب سے پاکستان کو کوئی اخلاقی حمایت مل جائے ایسا ہوتا بہت مشکل لگا رہا ہے جو ملک اپنے فیصلے خود نہیں کر پارہے وہ بھالا پاکستان کی کیا مدد کریں گے ۔


جہاں تک افغانستان سے امریکی انخلا کی بات ہے تو امریکہ کی جانب سے پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی صورت اس کی موجودگی کا ہلکا سا جواز ہی میسر آجائے تا کہ وہ وہاں آئندہ کی پلانگ کے لئے اپنے چند ہزار فوجی رکھ سکے جو افغان طالبان کو کسی صورت منظور نہیں ۔اس لئے اس خوش فہمی میں مبتلا ہونا کہ امریکہ آسانی سے افغانستان سے نکل جائے گا بے جاہو گا۔


جس طرح ہلمند میں افغان طالبان نے امریکہ کے سب سے بڑے اڈے کو نشانہ بنایا ہے اسی صورت میں امریکہ کو افغانستان سے بھگایا جا سکتا ہے ۔بھارت کی جانب سے کسی غلط فہمی میں مبتلا رہنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔بھارت اس وقت زخمی سانپ کی شکل اختیار کر چکا ہے بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ اس ذلت کے داغ کو دھونے کے لئے کسی وقت اور کسی بھی سمت سے پاکستان پر وار کر سکتی ہے اس لئے پاکستان اور اس کی عسکری قوت اور عوام کو ہمہ وقت چاک وچوبندرہنا ہو گا ۔کیونکہ بھارت جانتا ہے جس وقت امریکہ افغانستان سے نکل گیا تو گذشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران اس نے پاکستان کو جوزخم لگانے کی کوشش کی ہے اس کے جواب میں اس کی بری طرح شامت آجائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bharat zakhmi saanp ki tarhan dobarah waar keray ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.