ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پُکار

میرے قاتل سے کہو اب مجھے آزاد کرے امریکی عقوبت خانے سے

ہفتہ 24 نومبر 2018

dr Afia Siddiqui ki pukar
ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کے دوران امریکہ سے کہا گیا ہے کہ عافیہ سے متعلق تمام تر انسانی حقوق کو مد نظر رکھا جائے
 خالد نجیب خان
پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ دس برس سے بھی زیادہ مدت سے باقاعدہ امریکی جیل میں صعوبتیں برداشت کررہی ہیں جبکہ پندرہ سال سے بھی زیادہ مدت سے اپنے گھر سے دور ہیں ۔
پاکستان میں اُن کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور بعض سیاسی حلقے اُن کی رہائی کیلئے مسلسل کوشش کررہے ہیں مگر بد قسمتی سے کامیابی دور سے دور ہوتی چلی گئی۔


اس میں جہاں ماضی کی ہماری اپنی حکومتوں کی کوتاہیوں کا عمل دخل ہے وہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ رباب اختیار نے اپنے مفادات کے باعث اُن کا کیس ٹھیک طرح سے لڑاہی نہیں جسکی وجہ سے امریکی عدالت نے اُنہیں مجموعی طور پر 86سال کی قید سخت کی سزاسنادی۔

(جاری ہے)

قید میں اُن کے ساتھ جوسلوک روا رکھا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے اور امریکہ جیسے مہذب کہلوانے والے ملک سے اِسکی توقع نہیں کی جاتی ۔


قید تنہائی میں رکھی گئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے حصولِ انصاف کیلئے ہر ممکن پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اُنہیں انصاف ملنا تو درکناراُن کا موٴقف تک سننے کی زحمت نہیں کی گئی ۔وہ پاکستان کی ایسی بیٹی ہے جسے 2003ء میں پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے امریکہ کے محض ایک اشارے پر امریکہ کے حوالے کردیا تھا تا کہ وہ امریکی حکمرانوں کی دادوصول کر سکیں۔


ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2مارچ1973ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں 8سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پھر سے کراچی آگئیں اور یہیں پر اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی اور ٹیکساس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے2002ء میں پاکستان واپس آ گئیں ۔پاکستان میں اُ نہیں مطلوبہ ملازمت نہ مل سکی تو ایک مرتبہ پھر وہ عارضی طور پر امریکہ چلی گئیں ۔
اِس دوران اُنہوں نے خط وکتابت کیلئے میری لینڈ میں ایک پوسٹ باکس کرائے پر لیا 2003ء میں وہ پاکستان واپس آگئیں F.B.Iکو کسی وجہ سے شک گزراکہ اُنہوں نے یہ پوسٹ باکس دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کیلئے حاصل کیا تھا ،لہٰذا امریکی میڈیا میں اُن کی تشہیر ایک دہشتگرد کے طور پر کرنا شروع کر دی گئی۔


ڈاکٹر عافیہ اِس صورتحال سے پریشان ہو کر روپوش ہو گئیں ۔30مارچ 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈ ی جانے کیلئے وہ ایک ٹیکسی میں اےئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئیں تو اےئر پورٹ پہنچنے سے پہلے ہی لاپتہ ہو گئیں اور مشہور ہو گیا کہ اُنہیں امریکیوں نے اغوا کر لیا ہے ۔اُن کی گمشدگی کے حوالے سے خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں مگر پاکستانی حکام اُس سے لاعلم رہے۔


بعدازاں عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی بگرام جیل میں قیدی نمبر 650شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جسکی حالت بہت بری ہے ۔پاکستان اور دنیا بھر کے کئی ممالک کے میڈیا کے شور مچانے پر امریکہ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 27جولائی2008ء کو افغانستان سے گرفتار کرکے نیویارک پہنچادیا گیا ہے تا کہ اُن پر دہشتگردی کا مقدمہ چلایا جا سکے ۔

ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے جوکہانی امریکہ نے بیان کی تھی ،انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اُسے ناقابل یقین قرار دے دیا تھا۔
حال ہی میں پاکستان کی اِس بیٹی نے پاکستان کے نئے حکمران وزیراعظم عمران خان کو مدد کیلئے پکارا ہے ۔اپنے ایک خط میں اُنہوں نے اپیل کی ہے کہ امریکی جیل سے رہائی کے حوالے سے حکومت پاکستان اُن کی مدد کرے ۔یہ خط اُنہوں نے گزشتہ دنوں امریکی ریاست ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل کو جیل میں ملاقات کے دوران دیا۔

ڈاکٹر عافیہ کو وزیراعظم عمران خان سے بہت اُمیدیں وابستہ ہیں اور توقع کررہی ہیں کہ سابق حکمرانوں کے برعکس وہ اُن کیلئے حقیقی معنوں میں کچھ کریں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کے تحفظات سے متعلق امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کے دوران امریکہ کو آگاہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ عافیہ صدیقی سے متعلق تمام ترانسانی حقوق کو مد نظر رکھا جائے ۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اِس حوالے سے ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدق سے بھی ملاقات کررہے ہیں جن کے پاس اُن کی رہائی کے حوالے سے تمام ترمعلومات موجود ہیں اور وہ اُن کی رہائی کیلئے تحریک بھی چلا رہی ہیں ۔
امریکہ کی بعض رپورٹس میں ڈاکٹر عافیہ کو اسامہ بن لادن کے نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون قرار دیتے ہوئے لیڈی القاعدہ کانام دیا گیا ۔

ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ اُنہیں تلاش کرتے رہے مگر حکومت سے لے کر عدالت تک کسی نے بھی اُن کی دادرسی نہ کی 2008ء تک مبینہ طور پر پاکستان کی کسی حکومت یا ادارے کو یہ علم نہیں تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اُن کے تین بچے کہا ں گئے۔
پھر جولائی 2008ء میں خبر ملی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغان پولیس نے گرفتار کیا ہے اور اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ اُن کے قبضے سے 900گرام سوڈیم سائنائیڈ اور نیویارک میں متوقع حملوں کے حوالے سے کچھ دستاویزات برآمدہوئی ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک نہتی خاتون کو جس طرح گرفتار کیا گیا،اُسکے قبضے سے کچھ بھی برآمد کیاجا سکتا تھا ،حتیٰ کہ ایٹم بم بھی برآمد کرلیتے تو بعید نہ تھا۔
اُن پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ گرفتاری کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے مزاحمت کے دوران ایک فوجی اہلکار سے سرکاری رائفل چھین کراُس پر حملہ کیا اور گولیاں بھی چلائیں مگر کوئی ایک گولی بھی کسی اہلکار کو چھوئی تک نہیں جبکہ جوابی کارروائی میں ڈاکٹر عافیہ خود زخمی ہو گئیں ۔

اِس ”جرم “کی پاداش میں اُنہیں ستمبر 2010ء میں امریکی عدالت کے جج رچرڈبیر من نے 86برس قید سخت کی سزا سنائی۔اُس موقع پر پاکستان میں اُن کی سزا کے خلاف بھرپور مظاہرے اور احتجاج کئے گئے مگر امریکی حکام پر اُن کا کچھ اثر نہ ہوا۔
اپیلیٹ کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وکیل ڈان کارلی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ جو کچھ ہوا اُسکے بارے میں امریکی حکومت اور سی آئی اے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔


ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک معمہ ہے جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ کو ئی نہیں جانتا۔
نہ ہم جانتے ہیں نہ یورآنرآپ جانتے ہیں اور نہ ہی عدالت میں موجود کوئی شخص ‘نہ ہی استغاثہ اور نہ ہی امریکی اور نہ پاکستانی ،جسطرح ہم خفیہ امریکی جیلوں اور ٹارچر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔جج نے اپنے فیصلے میں مقدمے کا پس منظر پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ اُن کی عدالت میں پیش کیا گیا سب سے مشکل مقدمہ تھا۔


ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان کے شہر غزنی میں 17 جولائی2008 کو پیش ہوئیں۔اِس سے قبل وہ کہا ں تھیں اور اُسکے امریکی اور پاکستانی حکام کے تحویل میں ہونے اور تشدد کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا صفائی کوئی گواہی یا شہادت نہیں پیش کرسکے ہیں جبکہ امریکی حکومت اُن کی امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر اُن کی ایم فوررائفل سے قاتلانہ حملہ ثابت کر چکی ہے اور جیوری نے اُن کو 7الزامات میں مجرم قرار دیا ہے ۔


جج نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا کی طرف سے اُن کے نفسیاتی مریض ہونے کی دلیل کورَد کرکے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا ۔ڈاکٹر عافیہ کی وکیل نے جج سے ایک عورت اور انسانی ہونے کے ناطے اُن کی سزا کی مدت 86سال سے 12سال کرنے کی درخواست کی مگر اُن کی یہ درخواست بھی اِسلئے ردکردی گئی کہ یہ سزائے موت کا مقدمہ نہیں بلکہ دہشتگردی کا مقدمہ ہے ۔


ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا نے بعدازاں یہ بات میڈیا کو بتائی کہ اُنہیں امریکی حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی خفیہ گواہی تک دسترس نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی اُن کو مسترد کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔
امریکی نظام انصاف کی شفافیت کو آج نظر انداز کردیا گیا اور اِس میں نہ تو استغاثہ کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی جج کا بلکہ اِس مقدمے کا عمل درست نہیں تھا۔


واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران واضح الفاظ میں یہ کہا تھا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل سمیت کسی بھی ملک کی مخالف نہیں ہیں ۔مجھے خفیہ جیلوں میں ٹارچر کیا گیا ہے ،دوران مقدمہ کئی طرح کی ناانصافیاں بھی کی گئی ہیں تاہم میرے حامی عدالت ،امریکہ اور امریکیوں پر برہم نہ ہوں کیونکہ میں پاکستان اور امریکہ دونوں سے پیار کرتی ہوں ۔

اِس تقریر کے بعد جب جج نے فیصلہ سنایا تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے با آواز بلند کہا”شیم آن دی کورٹ “اِ س پر جج نے کہا کہ کیا وہ عدالت میں موجود رہنا چاہتی ہیں یا متصل کمرے میں جانا چاہتی ہیں ۔
ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیر ہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکی جیل حکام ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کر لے تو اُسے فوری طور پر رہائی مل سکتی ہے ۔

اِسکے علاوہ اُنہیں جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اُنہیں اپنی عبادات کرنے دی جارہی ہیں ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2008ء میں جب کراچی سے لاپتہ ہوئیں تو اُس وقت اُن کی عمر 30برس تھی اور اُن کے تین بچے بھی اُن کے ہمراہ تھے جن میں ایک سب سے چھوٹا بچہ اِس دوران جاں بحق ہو گیا تھا جبکہ باقی بچے بعد میں گھر پہنچادئیے گئے ۔ڈاکٹر عافیہ کو اپنے پیاروں سے بچھڑے5700سے زیادہ دن گزر چکے ہیں ۔


ہر گزرنے والا دن اُن پر ایک نئی اذیت اور تکلیف لے کر آتا ہے ۔شروع کے پانچ سال تو کسی کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں ۔اُن کے گھر والے خیال کررہے تھے کہ وہ پاکستان میں ہی کہیں ہیں مگر وہ تو افغانستان کی بگرام جیل میں اذیتیں برداشت کر رہی تھیں 2008ء میں جب امریکی حکام نے اُن کی گرفتاری کی تصدیق کی تو اُن کے اہل خانہ نے اُن کی رہائی کیلئے باقاعدہ تحریک شروع کی جس کے نتیجہ میں اگست 2009ء میں اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ وہ امریکہ کے تین وکلا کی خدمات حاصل کریں گے جو امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اُن کی وکالت کریں گے اور حکومت اِن تین وکلاء کو 2ملین ڈالر بطور فیس ادا کرے گی ۔


بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کردیا تھا کہ کہیں یہ رقم خورد بردنہ ہوجائے ۔پھر ستمبر 2010ء میں پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ امریکی حکام سے عافیہ صدیقی کو باعزت واپسی کیلئے امریکی حکام کو خط لکھ دیا گیا ہے ۔پاکستانی حکام ایک خط لکھ کر یہ توقع کرتے رہے کہ امریکہ اِس خط کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ کو رہا کردے گا۔


ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ کاکہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کیلئے تین راستے ہیں ۔
اول یہ کہ پاکستان اُس عالمی معاہدے میں شریک ہوجائے جس میں مجرمان کو اپنے ملک منتقل کیا جا سکتا ہے ۔امریکہ پہلے ہی مختلف ممالک کے ساتھ اِس طرح کے معاہدے کر چکا ہے ۔ڈاکٹر عافیہ نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے خط میں اِسی طرف توجہ دلائی ہے ۔

امریکہ کے نائب اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بروس شوارٹس نے ایک خط میں کہا ہے کہ اگر پاکستان اِس معاہدے میں شریک ہوجائے تو امریکہ عافیہ صدیقی کو واپس بھیجنے پر تیار ہو گا ۔
دوم یہ کہ امریکہ پاکستان مذاکرات میں عافیہ صدیقی کو واپس لانے پر بات کی جائے کیونکہ امریکہ نے اِس حوالے سے مثبت اشارے دےئے ہیں ۔سوم صدارتی معافی ہے ۔صدراوبامہ کے دور حکومت میں صدارتی معافی نامہ حاصل کرنے کیلئے تیار کی جاتی رہی ہے مگر پاکستانی حکام نے اس حوالے سے بروقت کا رروائی نہیں کی ۔


آج جبکہ پاکستان نے برطانیہ سے مجرموں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے تو اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ سے ایسا معاہدہ کیا جا سکتا ہے جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی عمران خان کو اپنا ہیروبھی خیال کررہی ہیں تو اُنہیں اس حوالے سے ضرور پیش رفت کرنی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

dr Afia Siddiqui ki pukar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.