فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے انکار

پیپلز پارٹی کی مقتدروں سے تجدید تعلقات کی حکمت عملی زرداری اور بلاول کے بیانات نے تلخیوں اور فاصلوں کو جنم دیا

جمعرات 31 جنوری 2019

fouji adalaton ki muddat mein tosee se inkaar
  اسرار بخاری
دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں سکہ رائج الوقت جمہوریت ہو فوجی عدالتوں کا قیام ملکی وقار کے منافی ہوتا ہے اور اسے بے نظیر تحسین نہیں دیکھا جاتا لیکن پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام کو اس حقیقت نے جواز بخشا ہے کہ دہشتگردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرموں کو عام عدالتوں کے ذریعہ کیفر کردار تک پہنچا نا ممکن نہیں رہا تھا جس کے لازمی نتیجے کے طور پر دہشتگردی کی وارداتوں میں بے حد اضافہ نے ملک بھر میں بے سکونی اور خوف و ہر اس کی فضا پیدا کردی تھی جس طرح کراچی میں پولیس کے ذریعہ بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ ‘اغوابرائے تاوان‘اچانک گلیوں ‘بازاروں میں فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات اور مجرموں پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد رینجر زکو طلب کرنا پڑا۔

(جاری ہے)


جس نے کراچی میں آج جیسا پرامن ماحل پیدا کیا ورنہ صورت یہ تھی کہ مرد حضرات کام کاج کے لئے گھروں سے باہر جاتے تو واپسی تک گھر کی خواتین سلامتی کے ساتھ واپسی کے لئے مختلف خدشات اور پریشانی کا شکار رہتیں ۔اس طرح عام عدالتوں کے بلکہ خصوصی عدالتوں کے جج حضرات بھی دہشت گردی کے ہاتھوں عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں اس لئے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا جہاں تک فوجی عدالتوں کی کار کردگی کاتعلق ہے تو اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنی مدت میں ان عدالتوں نے فیصلے کئے وہ عام یا خصوصی عدالتوں کے ذریعہ ہونا ممکن نہیں تھا اس مدت میں ان عدالتوں کے ذریعہ دہشت گردی کے 200مجرموں کو پھانسی دی گئی اور 185مقدمات زیر التوا ہے ۔


فوجی عدالتوں سے دی جانے والی جن سزاؤں کی توثیق آرمی چیف کرتے ہیں وہ عدالت عظمیٰ کے بھی زیر غور آتی ہیں اس طرح ان پر سویا غیر فوجی اعلیٰ عدالت کی میز بھی لگ جاتی ہے ،بلاشبہ فوج‘رینجرز‘خفیہ ایجنسیوں اور پولیس نے دہشت گردی کے عفر فتی پر قابو پانے اور کراچی میں امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس میں انصاف سے دیکھا جائے تو قابل ذکر حصہ رینجرز کا ہے ۔


جس کی کراچی میں تعیناتی تین ماہ کے لئے ہوتی تین ماہ کی مدت گزرنے کے بعد مزید توسیع کی منظوری میں سندھ حکومت تاخیری ہتھکنڈے اختیار کرکے رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی حالانکہ کراچی میں امن وامان کی بحالی اور اس کے بر قرار رہنے کا سارا فائدہ سندھ حکومت کو ہی تھا اس رویہ کی وجہ بعض حلقے یہ بیان کرتے ہیں رینجرز ایسے افراد پر بھی ہاتھ ڈال سکتی تھی جو سندھ حکومت یا حکمران پیپلز پارٹی کے چہیتے تھے ۔

اگر چہ ظاہر یہ کرنے کی کوشش کی جاتی کہ پیپلز پارٹی جو جمہوریت پر گہرا یقین رکھتی ہے شہر رینجرز کے حوالے کرنے کے سلسلے میں تحفظات رکھتی ہے ۔
فوجی عدالتوں کی معینہ مدت 7جنوری کو ختم ہو گئی ہے اور تدم تحریر․․․․․جنوری ان میں توسیع نہیں ہوسکی ہے ۔(ن)لیگ کی جانب سے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اور نگزیب نے (ن)لیگ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے انکار کیا ہے ۔


پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ایگز یکٹو کونسل نے ایک قرار داد کے ذریعہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے انکار کیا ہے ۔جمہوری لفظ نظر سے جائز لیا جائے تو یہ جمہوریت کے ساتھ گہری اور پختہ وابستگی کا اظہار ہے جبکہ بعض حلقوں کے مطابق معاملہ کچھ اور ہے پیپلز پارٹی کے رہنما اور آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ترجمان مصطفی نواز کھوکھر نے بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ نہیں دے گی یہ بات کیونکہ آصف زرداری اور بلاول کے ترجمان سے کہی ہے اس لئے یہ ان دونوں کی جانب سے اعلان بھی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ خاص حلقوں کو پیغام بھی سمجھا جاسکتا ہے دوسرے فوجی عدالتوں کے سلسلے میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کا رمقرر کرنے کو غیر سنجیدگی قرار دیکر یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اگر ”سنجیدہ حلقے “رابطہ کریں تو مثبت جواب مل سکتا ہے ۔


البتہ اس پر پردہ ڈالنے کے لئے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم خود رابطہ کرتے تو بات سمجھ میں آتی یا کسی دوسرے کو مقرر کیا جاتا تو بات سمجھ میں آتی ۔فرحت اللہ بابر‘خورشید شاہ اور مصطفی نواز کھوکھر کے بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر انکار کی پوٹلی میں بند آمادگی ‘دراصل سوچی سمجھی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کی جانب سے براہ راست رابطہ کیا جائے اور پھر ان کی بات مان کر تلخیوں کی اس فضا کو ختم یا کم کیا جائے جو آصف زرداری اور بلاول زرداری کے بیانات سے پیدا ہوئی ہے حکمت عملی سے شاید کچھ رعایتوں کا راستہ ہموار ہو سکے ممکنہ طور پر اس مقصد کا حصول بھی ہوسکتا ہے قیاس اور انداز سے اپنی جگہ ہفتوں نہیں دنوں میں سب کچھ سامنے آجائے گا۔


ادھر قومی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کا رویہ بھی ناقابل فہم ہے اگر چہ اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فوادچو دھری کی سر براہی میں کمیٹی بنادی گئی ہے مگر اس نے تادم تحریر(ن )لیگ‘پیپلز پارٹی یا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے رابطہ نہیں کیا بلکہ وزارت داخلہ کی جانب سے کہے جانے پر وزارت قانون نے کابینہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے جوسمری تیار کی تھی کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں ہونے کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے اسے موخر کر دیا ممکن ہے اس کا مقصد پہلے اپوزیشن جماعتوں کو اتفاق رائے کے مرحلے پر لانا ہیں ،یہ امر خوش آئندہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں جہاں سیاسی معاملات میں اختلافات ہیں اور یہ انہونی بھی نہیں ہے وہاں قومی ایشوز پر سب کا موقف ایک ہی ہے اور کیونکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں تو سیع سیاسی معاملہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اس لئے اصولی طور پر کسی جانب سے عدم اتفاق نہیں ہونا چاہئے۔

جیسا کہ مرضی میں اس سلسلے میں بطور اپوزیشن جماعت (ن)لیگ کی حکومت سے تعاون کیا تھا۔واضح رہے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب جن کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنا تھا پر ساری قوم کا موقف ایک تھا۔وہ سال قبل پہلی مرتبہ اس سلسلے میں چند ہفتوں کی تاخیر اس لئے ہوئی تھی کہ اپوزیشن کو اعمادِ میں لیا گیا تھا دوسرے بہت سے مقدمات ان عدالتوں میں زیر التوا اور کچھ ابتدائی مراحل میں تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

fouji adalaton ki muddat mein tosee se inkaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 January 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.