عمران خان ’’فاتح‘‘ کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں داخل

جولائی2018ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی ’’ متنازعہ‘‘ قومی اسمبلی کے ارکان نے تین روز قبل حلف اٹھا لیا ہے

جمعہ 17 اگست 2018

Imran Khan faateh ki hesiyat se parliment mein daakhil
نواز رضا
25جولائی2018ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی ’’ متنازعہ‘‘ قومی اسمبلی کے ارکان نے تین روز قبل حلف اٹھا لیا ہے ممکنہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطوں کا نتیجہ ہے یا اپوزیشن جماعتوں کی نئی ’’حکمت عملی‘‘ کہ حلف برداری کے روز اپوزیشن نے کوئی ’’احتجاج‘‘ اور نہ ہی ’’سیاہ پٹیاں ‘‘ باندھ کر عوامی مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ’’ڈاکہ‘‘ کے خلاف کوئی بات اپنی زبان پر لائی۔

متحدہ مجلس عمل کے ارکان کی جیبیں کالی پٹیوں سے بھری کی بھری رہ گئیں ۔ اپوزیشن جماعتوں نے ارکان قومی اسمبلی کی حلف برداری پر امن ماحول میں کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی سکھ کا سانس لیا تاہم ابھی تک یہ عقدہ حل نہیں ہوا کہ اس مفاہمت کے پیچھے کن نادیدہ قوتوں کا عمل دخل ہے۔

(جاری ہے)

13اگست 2018ء کو اس لحاظ سے تحریک انصاف کا دن کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی22 سالہ ’’خواہش ‘‘ حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے ۔

’’کپتان‘‘ کے قائد ایوان کی نشست پر بیٹھنے کے لئے ’’اضطراب اور بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جوں ہی ایوان میں داخل ہوئے تو سیدھے قائد ایوان کی خالی نشست پر براجمان ہوگئے۔ انہیں بتایا گیا یہ نشست ابھی خالی ہے اور نہ ہی وہ ابھی تک باضابطہ طور وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں لہذا وزیر اعظم کے منصب کا خیال کرتے ہوئے وہ ابھی اس نشست پر نہ بیٹھیں جس کے بعد وہ قائد ایوان کے ساتھ والی نشست پر جا کر بیٹھ گئے ۔

یہ وہی نشست ہے جس پر سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو عمران خان کے ایچیسن کالج میں ہم جماعت تھے، وہ بیٹھتے تھے۔ عام انتخابات کے بعد آل پارٹیز کانفرنس جس میں مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی ، ایم ایم اے ، اے این پی ، نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن 8اگست 2018ء کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے پر اکتفا کیا۔

میاں شہباز شریف نے احتجاجی مظاہرے میں’’ رونق افروز ‘‘ نہ ہو کر طاقت ور قوتوں ‘‘ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ’’لولی لنگڑی جمہوریت‘‘ کے گھروندے کو گرانے کے درپے نہیں ہیں تا ہم جب ان سے مظاہرے میں عدم شرکت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ خرابی موسم کی وجہ سے ان کی اسلام آباد کی فلائٹ منسوخ ہو گئی تھی۔ انھوں نے یقین دلایا کہ وہ آئندہ ہونے والے احتجاج میں بھرپور شرکت کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی احتجاجی مظاہرے میں شرکت نہ کر کے مقتدر قوتوں کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن و اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر کے موجودہ انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کریں گے اور انھیں عام انتخابات کے نتیجے میں جو کچھ دے دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کریں گے۔

راقم السطور نے اپنی صحافتی زندگی میں کئی اسمبلیاں ٹوٹتی اور بنتی دیکھی ہیں۔ پچھلے دس سال پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ دو قومی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے لیکن 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے قومی اسمبلی کے وجود کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

تاحال سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کے ذہن عام انتخابات کی شفافیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، بہرحال تمام ترخرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود پر امن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے۔ 15 ویں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں نے بے پناہ ’’ تحفظات‘‘ ہونے کے باوجود حلف نہ اٹھانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اور پارلیمنٹ کے اندر رہ کر عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کو بے نقاب کرنے اور عوامی مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ’’ڈاکہ‘‘ کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک’’ فاتح ‘‘کی حیثیت سے اس پارلیمنٹ میں داخل ہو گئے جس پر وہ عوامی اجتماعات میں ’’لعنت‘‘ بھیجتے رہے ہیں۔ ’’کپتان‘‘ نے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اور وزارت عظمیٰ کا منصب ان سے چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ جس روز پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی کے ارکان حلف اٹھا رہے تھے، اسی روز پاکستان کے تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والی ملک کی مقبول ترین سیاسی شخصیت نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں احتساب عدالت میں لا کر شہری آزادیوں کا پرچار کرنے والوں کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ سر اٹھا کر چلنے والے سیاستدان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا سکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں 139 ارکان نے حلف اٹھایا لیکن جن پارلیمنٹرین کی کمی محسوس ہوئی ان میں میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، اسفندیار علی، غلام احمد بلور، مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی کے نام قابل ذکر ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی بدھ کو مکمل ہو گیا ہے۔ سپیکر کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے قاسم سوری کامیاب ہو گئے ہیں۔

اگرچہ اپوزیشن نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے اپنے امیدواروں کو کامیاب بنانے کے لئے خاصی تگ و دو کی تاہم 7 ،8 جماعتوں کی حمایت سے پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے دو اہم مناصب پر اپنے امیدوار کامیاب کرا لئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 18 اگست کو قائد ایوان کے انتخاب کا نتیجہ بھی کیا ہو گا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوا ہے لیکن وزیراعظم کا انتخاب ’’ ڈویژن‘‘ سے ہو گا جس میں تمام ارکان اوپن ووٹ دیں گے۔

قائد ایوان کے انتخاب کے بارے میں ہفتہ عشرہ قبل جو غیر یقینی صورتحال پائی جاتی تھی وہ ’’مقتدر قوتوں ‘‘ کی کوشش سے یقینی صورتحال میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لئے عمران خان کے وزیراعظم بننے میں اب کوئی شائبہ نہیں۔ عمران خان کے اس منصب پر فائز ہونے کے بعد ہی پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے پہلے خطاب سے ان کے سیاسی عزائم سامنے آئیں گے ۔

اب دیکھنا ہو گا کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے میں کس حد تک سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں ۔ دوسری طرف متحدہ اپوزیشن کی حالت ناقابل بیان ہے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن کے قیام کی صورت میں متحدہ اپوزیشن کی کوئی امید کی کرن نظر آئی تھی، وہ اب آصف علی زرداری کی کمپرومائزڈ سیاست کی بھینٹ چڑھنے کا امکان ہے۔

اپوزیشن کی دو جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما دن رات ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری میاں شہباز شریف ملاقات کے روادار نہیں انہوں نے میاں شہباز شریف سے ایک فاصلہ قائم رکھا ہوا ہے ۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر‘‘ پر اکٹھی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت نے اچانک میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ بنانے کی مخالفت کرکے اپوزیشن جماعتوں کو حیران ششدر کر دیا ہے۔

شنید ہے کہ آصف علی زرداری اس وقت شدید دبائو کی حالت میں ہیں اس لئے انھوں نے مسلم لیگ ن کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ اگر میاں شہباز شریف کی بجائے خواجہ آصف، احسن اقبال کو وزارت عظمیٰ کے لئے امیدوار کھڑا کر دیا جائے تو پیپلز پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس طرح وہ میاں شہباز شریف کو پہلے مرحلے میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر رکھ رکھنے کے ایجنڈے کا حصہ بن رہے ہیں ۔

قومی اسمبلی میں متحارب سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایک دوسرے کے بارے میں ’’معاندانہ‘‘ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مصافحوں کے ساتھ مسکراہٹوں کے تبادلے سے لولی لنگڑی جمہوریت کو سہارا دینے کی جو کوشش کی گئی ہے، اس میں یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے تو مصافحہ نہیں کیا البتہ چند روز بعد وزیراعظم بننے والی شخصیت عمران خان سے مصافحہ کرتے ہوئے ان کے چہرے پر آنے والی ’’رونق‘‘ سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک عمران خان کی اپوزیشن کریں گے۔

پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کو کسی غیر جمہوری ’’واردات‘‘ سے بچانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے ۔ تاحال متحدہ اپوزیشن نے پاکستان تحریک انصاف کو ’’گنجائش‘‘ دی ہے۔ غیر مرئی قوتوں کی درپردہ کوششوں سے ممکنہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان غیر اعلانیہ مفاہمت کرانے کی جو کوشش کی گئی ہے۔اس کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں اپنی پارلیمانی قوت کو پیش نظر رکھ کر اپنے دائرے میں سمٹ کر سب کو ساتھ لے کر چلیں۔

اگر آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی نے’’ مفاہمانہ طرز عمل‘‘ اختیار کر کے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کیا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے راست جدا ہو سکتے ہیں پارلیمنٹ کے اندر 15 رکنی متحدہ مجلس عمل اور پارلیمنٹ کے باہر ’’زخم خوردہ‘‘ مولانا فضل الرحمٰن ، اکیلے ہی عمران خان کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Imran Khan faateh ki hesiyat se parliment mein daakhil is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 August 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.