کشمیری موت سے بے خوف کیوں ؟

کشمیرکے نوجوان اس انتہاء تک پہنچ گئے ہیں کہ انہیں موت کابھی خوف بھی نہیں رہا۔کیاآپ سمجھتے ہیں ،فوج کے ذریعے بہیمانہ ظلم کرکے کسی مسئلے کوحل کرسکتے ہیں؟جب یہ آج کامیاب نہیں ہوا توکیا آگے کامیاب ہوجائے گا؟

سمیع اللہ ملک جمعہ 8 مارچ 2019

kashmiri mout se be khauf kyu ?
پلوامہ خودکش حملے کے بعدبھارتی حکمرانوں اوران کی پروردہ جماعت کے سکہ بندحواریوں نے بھارتی اوربالخصوص کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کاجوالاوٴ سکتا۔جس حملے کے تناظرمیں دہکایا ہے اُسے کوئی ذی شعوردرست تسلیم نہیں کرسکتی۔بھارتی وزیراعظم سے لیکر ان کی جماعت کاعام رکن تک واویلامچارہاہے اورپاکستان پراس کا الزام لگایاجا رہا ہے۔ پاکستان اسے پہلے ہی قابل صدافسوس قراردیکر اس پراپنی مثبت رائے کا اظہارکر چکاہے مگرمودی آپے سے باہرہوکرمعاملے کوسلجھانے کی بجائے اسے بدلہ لینے اور جنگ کے میدان بدلنے کی بات کرکے معاملے کومزید الجھا دیا ہے جس کاایک پس منظرہے۔

پلوامہ حملے کے کئی روزگزرجانے کے بعدجب معاملات بھارت کی جانب سے جنگی مشقوں تک جا پہنچے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے مختصرخطاب میں جنگی جنون میں مبتلابھارت کوبراہِ راست مخاطب کرتے ہوئے ممکنہ حملے کوجواب حملے سے دینے کاواضح پیغام دیتے ہوئے کہاکہ اگر نئی دہلی نے ایسی کوئی غلطی کی توپاکستان سوچے گانہیں بلکہ فوری طورپرمنہ توڑجواب دے گا۔

(جاری ہے)

عمران خان نے پلوامہ کانام لئے بغیرکہاکہ بھارت کویہ بات سوچنی چاہئے کہ کشمیری آخرموت سے اتنے بے خوف کیوں ہوگئے ہیں؟ وزیراعظم کا کہناتھاکہ پڑوسی ملک کشمیرکے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بجائے الزام تراشیاں کرتاہے۔ 14فروری کوجب پلوامہ کاواقعہ ہوا،تواس پرہمیں فوری ردّ ِ عمل دیناتھاکیونکہ اس کاالزام پاکستان پر لگایا گیاتھالیکن اس وقت پاکستان میں سعودی ولی عہد کابہت ہی اہم دورہ اورسرمایہ کانفرنس جاری تھی، اس لئے پلوامہ واقعہ پرحکومتی ردّ ِعمل سامنے نہ آسکالیکن جونہی دورہ ختم ہواتوعمران خان نے فوری طورپر اپنے ردّ ِ عمل میں بھارت کو تحقیق کیلئے مکمل تعاون کانہ صرف یقین دلایابلکہ اس معاملے پر ہمدردی کااظہارکرتے ہوئے اس واقعے کوپاکستان کیلئے بھی ایک سازش اور شدید نقصان دہ قرار دیا۔

عمران نے اپنے بیان میں مودی کے جنگی جنون کے جواب میں اس ہولناک قدم سے بازرہنے کی جہاں تلقین کی وہاں بازنہ آنے کی صورت میں کسی بھی بھارتی جنگی جنون کے جواب میں منہ توڑجواب دینے کابھی اعلان کیا۔
عمران خان نے کہاکہ نئی دہلی نے پھر کسی ثبوت کے پاکستان پرالزام لگادیااورسوچاتک نہیں کہ اس سے پاکستان کوکیافائدہ ہوگا؟وہ بھی ایسے موقع پرجب ہم استحکام کی طرف گامزن ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سعودی ولی عہداپنے ساتھ سرمایہ کاروں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں میں مصروف ہیں۔

اس حال میں کوئی احمق ہی ہوگاجواتنے اہم موقع کوایسے بیجااورخطرناک کارروائیوں میں مصروف ہو۔ ہم نے 15سال دہشتگردی کی جنگ لڑی ہے اور70ہزارجانوں کی قربانیوں کے ساتھ 115بلین ڈالرزکاخطیرنقصان برداشت کیاہے۔پچھلے چندسالوں میں ضرب العضب اورردّالفسادآپریشنزکے ذریعے ہماری افواج نے بے پناہ جانی قربانیاں دیکردہشتگردی کی اپنے ملک سے بیخ کنی کی ہے اورمسلسل اس جنگ میں مصروف ہے جس کے بعددہشتگردی کاگراف نہ ہونے کے برابررہ گیاہے۔

عمران خان نے بھارتی حکومت سے سوال کیاکہ آپ ماضی میں پھنسے رہناچاہتے ہیں؟اورہرمرتبہ کشمیرمیں کسی بھی سانحہ کاذمہ دارپاکستان کوٹھہرانا چاہتے ہیں؟دنیاکاکون سا قانون کسی شخص یاملک کومدعی بھی منصف بھی بننے کی اجازت دیتاہے۔موجودہ سال بھارت میں الیکشن کاسال ہے اوروہ سمجھتے ہیں پاکستان کوسبق سکھانے سے انتخاب میں فائدہ ہو گا۔

اگربھارت نے حملہ کیاتو پاکستان سوچے گانہیں بلکہ بھرپورجواب دے گاکیونکہ اس کے بغیرکوئی دوسراراستہ نہیں ہوگا اوریہ بات کدھرجائے گی ،اللہ بہترجانتاہے۔انہوں نے کہاکہ جنگ شروع کرنا آسان ہے اوراسے شروع کرنا بھی انسان کے ہاتھ میں ہوتاہے لیکن ختم کرناانسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا،اس لئے میں امیدرکھتاہوں کہ اس میں ذمہ داری اورحکمت سے کام لیں گے اوریہ مسئلہ بھی مذاکرات سے حل کرلیاجائے گا۔

وزیراعظم نے بھارتی حکومت کوپیشکش کی کہ اگروہ پلوامہ حملے میں کسی بھی قسم کی تحقیقات کرانا چاہتے ہیں توپاکستان تیارہے۔اگرآپ کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی قابل عمل اورٹھوس شواہد ہیں توپاکستان کوفراہم کئے جائیں ،میں یقین دلاتاہوں کہ ہم کارروائی کریں گے اورہم یہ کسی دباوٴپرنہیں بلکہ اس لئے کریں گے کہ یہ پاکستان سے بھی دشمنی ہے کہ کوئی دہشتگردی کیلئے ان کی سرزمین استعمال کررہاہے۔

انہوں نے یہ واضح کیاکہ یہ نیاپاکستان،نئی ذہنیت اورنئی سوچ ہے،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ کوئی پاکستان سے جاکرباہردہشتگردی کرے اورنہ باہرسے ہمارے ہاں دہشتگردی ہوکیونکہ یہ ہمارے مفادمیں ہے۔ہم استحکام چاہتے ہیں ،ہم دہشتگردی کے مسئلے پربھی بات چیت کرنے کیلئے تیارہیں ،اس لئے کہ دہشتگردی پورے خطے کیلئے ایک ناسوربن چکی ہے اورہم اس کے مکمل خاتمہ کا تہیہ کرچکے ہیں۔

عمران خان نے کہاکہ اب بھارت میں بھی نئی سوچ آنی چاہئے ،کشمیرکے نوجوان اس انتہاء تک پہنچ گئے ہیں کہ انہیں موت کابھی خوف بھی نہیں رہا۔کیاآپ سمجھتے ہیں ،فوج کے ذریعے بہیمانہ ظلم کرکے کسی مسئلے کوحل کرسکتے ہیں؟جب یہ آج کامیاب نہیں ہوا توکیا آگے کامیاب ہوجائے گا؟اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ اگرآج افغانستان میں 17برس بعددنیایہ تسلیم کررہی ہے کہ فوجی آپریشن مسئلے کاحل نہیں توپھربھارت میں اس پربات چیت نہیں ہونی چاہئے؟
وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے حالیہ خطاب میں مودی کوآئینہ بھی دکھایااوریہ بھی بتادیاکہ اگربھارت نے کسی حملے کی کوشش کی تو اس پر خاموش نہیں رہاجائے گابلکہ چنگاری شعلہ بنے گی۔

دیکھا جائے تویہ بات بھی شعوروفکررکھنے والوں کیلئے ناقابل فہم ہے کہ پلوامہ حملہ ایک ایسے وقت میں رونماہواجب ایک طرف عالمی عدالت انصاف میں بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیوکے کیس کی سماعت تیارتھی ، دوسری جانب سعودی ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان پاکستان آکرسرمایہ کاری کے معاہدات پر دستخط کرنے آرہے تھے۔تیسری ایک اور اہم وجہ جس کاوزیراعظم نے اپنے خطاب میں بطور خاص تذکرہ کیاہے وہ ہے بھارت میں ہونے والے انتخابات جس میں مودی سرکارکواپنی لٹیاڈوبتی نظرآرہی ہے کیونکہ مودی کی جماعت کم وبیش نصف درجن ریاستوں میں شکست فاش کاسامنا کر چکی ہے،اب وہ پاکستان سے مخاصمت نکال کراپنی قوم کواپنے حصارمیں لینے کیلئے بیتاب ہیں۔

پاکستان سے دشمنی بھارتی حکمرانوں کووتیرہ رہاہے ،وہ حکمراں خواہ بی جے پی سے ہوں یا کانگرس سے انہوں نے جب بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے پاکستان مخالف جذبات ابھار کرہی اپنی قوم کوبیوقوف بنایاہے اوراس بار بی جے پی کامودی پلوامہ خودکش حملے کی آڑمیں پاکستان کونشانہ پرلیتے ہوئے اپنی قوم کوجنگ کاایندھن بنانے پرتلاہوانظر آرہاہے، اگر خدانخواستہ یہ آگ بھڑک اٹھی توپوراخطہ ایٹمی جنگ کے نرغے میں آجائے گا۔

جنگیں تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں دیتیں اوراب توجنگ کاماحول بھی روایتی نہیں رہا۔ اب ایٹمی ہتھیاروں کادوردورہ ہے، بھارت اپنے بڑے پن کے زعم میں نہ رہے،بیشک پاکستان چھوٹاملک ضرورہے لیکن اس کی ایٹمی ٹیکنالوجی اورفوجی مہارت کسی طورپربھی دنیاکی بڑی افواج سے کم نہیں ، پھریہ قوم وہ قوم ہے جوکلمہ شہادت پڑھ کرمیدان کارزارمیں اترتی ہے ،وطن اورقوم کی خاطرجان دینے کوسعادت سمجھتی ہے۔

اللہ نہ کرے ،اگر جنگ چھڑگئی توپھر22کروڑعوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ بھارت کوناکوں چنے چبوانے سے کم کسی فیصلے پرتیارنہ ہوں گے لہندامودی اوران کے حواریوں کوہوش کے ناخن لینے کی اشدضرورت ہے کہ وہ ماحول کومزیدجنگ زدہ کرنے کی بجائے پرامن بنانے کی طرف آئیں۔
مودی سرکارکواب اس حقیقت کااعتراف کرلیناچاہئے کہ رات کے اندھیرے میں بھارتی بزدلانہ حملے کے بعدپاکستان نے چیلنج کرکے ایک ذمہ دارملک کی حیثیت سے چندمنٹوں میں یہ باور بھی کروادیااور بھارت کونہ صرف دوجنگی جہازوں سے محروم ہوناپڑابلکہ اب اس کاایک پائلٹ ''ابھی نندن''کوپاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیاجومیڈیاکے سامنے پاکستانی فوج کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے اپنی جان بچانے پرشکریہ ادا کر رہاتھا۔

اس سے قبل آئی ایس پی آرکے ترجمان میجرجنرل آصف غفورنے انتہائی تمکنت اوربرباری کے ساتھ عالمی میڈیاکو بریفنگ میں بتایاکہ کس طرح بھارتی طیاروں نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی جس پرپاک فضائیہ نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے دونوں بھارتی طیاروں کومارگرایا۔
یہ تمام کارروائی دن کی روشنی میں کی گئی ،ترجمان نے مزیدکہاکہ یہ بھارتی جارحیت کاجواب نہیں بلکہ اپنے دفاع کی صلاحیت کا اظہار ہے، اس لئے کہ پاکستان اب بھی کشیدگی نہیں چاہتالیکن بھارت نے مجبورکیاتوپاکستان اپنابھرپورجواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے جس کایقینا اب بھارت کوبخوبی پتہ چل گیاہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستانی لڑاکاطیاروں نے جموں وکشمیرکے ضلع راجوری میں نوشہرہ سیکٹرکے قریب دوبھارتی لڑاکاطیارے مار گرائے۔مودی سرکارپہلے تواپنے ہونے والے نقصان کاماننے کوتیارنہیں تھی لیکن سوشل میڈیا پر بڈ گام میں کشمیریوں کابھارتی طیارے کے جلتے ہوئے ملبے پرکھڑے ہوکرپاکستان زندہ باد کے نعروں نے سارابھانڈہ پھوڑدیاجس کے بعدانہوں نے فوجی ہیلی کاپٹرکے گرنے پرتباہ ہونے کا اعتراف کرلیاجس میں چھ بھارتی فوجی سمیت سات افرادہلاک ہوگئے۔

بھارتی حکام نے ہیلی کاپٹرکی تباہی کو تکنیکی خرابی کی وجہ بتاتے ہوئے بالآخر تسلیم کرلیا۔
پاکستان نے ہمیشہ معاملات کومذاکرات کی میز پرحل کرنے کی ضرورت پرزوردیاہے مگربھارت ہمیشہ مکاری کے ساتھ مذاکرات سے بھاگ کھڑا ہوتاہے۔بھارت کوسوچناچاہئے کہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائدفوج تعینات اورکشمیریوں پربے پناہ تشددوظلم وستم اوربربریت کے بعدبھی کشمیرکا مسئلہ پہلے سے زیادہ سراٹھاکرکھڑاہے۔

مودی سرکاریہ کیوں نہیں سوچتی کہ جنگ اگرمسئلے کاحل ہوتاتوپہلے روس اورپھرامریکاافغانستان سے ہزیمت کے ساتھ رخصت نہ ہوتے ،کیامودی مذکورہ دونوں طاقتوں سے زیادہ طاقتورحکمران ہے۔ ہرگز نہیں، مودی کواس کے ہوس اقتدارنے پاگل پن میں مبتلاکردیاہے۔پاکستان ہرطرح کے مقابلے کیلئے خودکوتیارکرچکاہے مگراب بھی مذاکرات کی پیشکش کررہاہے۔ اس آفر کو پاکستان کی کمزوری ہرگزنہ سمجھا جائے بلکہ اس پردانش،مندی کا اظہارکرتے ہوئے اسے آئندہ نسلوں کی بقاء کے تناظرمیں لیاجاناچاہئے۔

پھرعالمی قوتوں بالخصوص اقوام متحدہ جیسی تنظیم کوبھی اس معاملے میں مفاہمتی کرداراداکرتے ہوئے اپنے ادارے کی منظورشدہ قراردادوں پرعملدرآمدکراتے ہوئے کشمیرکامسئلہ حل کروانے میں آگے بڑھناچاہئے جو اس کے وجودکااصل مقصدہے لیکن اس سارے تناظر میں ان تمام اداروں کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے،توکیایہ سمجھ لیاجائے کہ اقوام متحدہ اوردیگرعالمی قوتیں پاک بھارت جنگ روکنے کی بجائے اس سے لطف اندوزہوناچاہتی ہیں؟یہ سوال ہنوزاپنی جگہ مسلمہ ہے۔

ادھرپاکستانی وزیراعظم نے مشترکہ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امن کے اسٹیڈیم میں ایک اورچھکامارکریہ اعلان کردیاکہ پاکستان گرفتاربھارتی ونگ کمانڈرجوپاکستان پر حملے کی خاطرنقصان پہنچانے کیلئے آیاتھا،اس کوخطے میں امن کوایک اورموقع دیتے ہوئے بلامشروط رہاکررہا ہے حالانکہ اگرپاکستان چاہتاتواس معاملے میں عالمی قانون کاراستہ اختیار کرتے ہوئے کئی معاملات پرسودہ بازی کرسکتاتھالیکن پاکستان نے عالمی امن کیلئے ایک بہترین مثال قائم کرکے مودی سرکاراوربھارتی عوام کیلئے ایک اہم سوال چھوڑاہے کہ اگرایساہی معاملہ اورایسی ہی فوقیت بھارت کے پاس ہوتی توکیاوہ بھی اس کڑے وقت میں ایسی ہی کوئی مثال قائم کرتا؟یقیناً ماضی کے تجربات کی بناء پراس کاجواب نفی میں ہی ملتاہے لیکن بہترین اخلاق کی گراں قدرمثال قائم کرکے پاکستان نے فتح کاایک اورمعیارقائم کیاہے جس کیلئے اب بھارتی باشعورعوام کوضرورسوچناہوگا کہ کل کلاں بھارتی جیل میں پاکستانی قیدی کوپتھر مار مارکرنہ صرف شہید کر دیا گیا تھابلکہ اس کے چہرے کوبھی مسخ کردیاگیاتھا،اسی پاکستان میں بھارتی ائیرفورس کا ونگ کمانڈرکوبلامشروط رہا کردیاگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kashmiri mout se be khauf kyu ? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.