مقبوضہ وادی میں اسرائیلی کمانڈوز‘عالمی گٹھ جوڑ کا ثبو ت ہے

کشمیر بھارت کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے!

جمعہ 6 ستمبر 2019

Maqboza Wadi Main Israeli Commandos Aalmi Gath Jor Ka Saboot Hai
 محمد انیس الرحمن
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جو کارروائیاں کی گئی ہیں اس کے روز اول سے لیکر اب تک جو حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں ان کے مطابق:
․․․․․․بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات میں امریکہ اس کا برابر کا شریک ہے۔
․․․․․․اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے دانستہ کشمیرکے معاملے میں زیادہ دلچسپی دکھانے کی کوشش نہیں کی۔


․․․․․․اسرائیل خود اس خطے میں پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کرنے کی غرض سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے عسکری ماہرین اور کمانڈوز اتار چکا ہے۔
․․․․․․مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مودی کے بین الاقوامی خصوصاً خلیجی ممالک کے دورے بڑی منصوبہ بندی کا حصہ تھے جس کی پہلے سے تیاری کی جاچکی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو امریکی شہہ اس وقت ملی جب افغانستان میں افغان طالبا ن اور امریکہ کے درمیان امریکی شرائط پر معاہدے کی کوشش کی جارہی تھی۔

(جاری ہے)


ان تمام چیدہ نکات کے بعدیہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کو امریکہ ،یورپ اور اسرائیل کی مکمل تائید حاصل ہے اس لئے یہ بات طے ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی جنگ اکیلے ہی لڑنا ہے اس جنگ میں روس اور چین تو پاکستان کے طر فدارہیں لیکن باقی تمام دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان حق پر نہیں بلکہ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ دنیاکسی طور بھی مسلمانوں کے معاملات اور بحرانوں کو سلجھانے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس وقت دنیاکی تمام دجالی صہیونی قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے اور ان کے وسائل پر اپنا قبضہ جمانے کی نیت بنائے ہوئے ہیں ۔

چار پانچ دہائیوں کی مسلسل کوششوں سے دنیا کو ایک ”معاشی درندے “میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں دین ،عقیدے ،اخلاقیات اور انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہی ان دجالی قوتوں کا مقصد حقیقی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی جغرافیے میں پاکستان جہاں واقع ہے یہ عالمی اقتصاد یات کا دھانہ بن چکی ہے ۔
امریکہ کو افغانستان میں اسی خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا تھا ورنہ القاعدہ اور افغان طالبان تو محض ایک بہانہ تھے ۔

اس بات کو بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ امریکہ افغانستان میں مٹی کے گھر وندوں پر بمباری کیلئے نہیں آیا تھا بلکہ جس مقصد کیلئے عالمی دجالی صہیونی قوتوں نے اسے افغانستان کی جانب دھکیلا تھا اس کا مقصد اولین پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانا اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے سامنے بند باندھنا تھا تاکہ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے معدنی وسائل پر آسانی سے ہاتھ صاف کئے جا سکیں اور مشرق وسطی میں جس وقت اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا اعلان ہوتو کوئی اسے روکنے والا نہ رہے۔


اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت دنیاکی واحد سپر طاقت کہلانے والا امریکہ بذات خود کیا ہے اور دجالی اسٹریٹیجک میں اس کا کیامقام ہے؟یہ بات بھی ہمارے بہت سے قارئین کو عجیب لگے گی کہ امریکہ عالمی دجالی صہیونی بساط کا ایک طاقتور مہرہ تو ضرور ہے لیکن حکمت عملی میں اسے آزاد نہیں کہا جا سکتا۔اس کے مالیاتی امور صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے،اس کے عسکری منصوبے دجالی صہیونی لابی ترتیب دیتی ہے ،اس کی معاشی اور معاشرتی پالیسیوں میں عالمی صہیونیت پوری طرح دخیل ہے یوں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ جغرافیے کے نام پر ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر عالمی دجالی صہیونی منصوبہ بندی کے تحت دنیا کے سرد گرم پر حاوی ہواجا تا ہے۔

یہ عالمی دجالی صہیونی نیٹ ورک ایک ریاست کی شکل بھی رکھتا ہے جسے دنیا اسرائیل کے نام سے جانتی ہے اس لئے حقیقی معنوں میں دنیا پر اس وقت غلبہ امریکی کور میں اسرائیل کا ہے امریکہ بذات خود کچھ نہیں۔۔۔!!
اس کی صرف افرادی قوت فوج کی شکل میں اور معاشی قوت اخراجات کی شکل میں صرف کی جاتی ہے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اور یورپین سفارتخانے اسرائیلی مفادات کے اڈے ہیں۔

اس لئے اگر امریکی مائیں افغانستان میں اپنے بیٹوں کی ہلاکتوں کا ماتم کرتی رہیں تو اس سے عالمی دجالی صہیونی قوتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا،اگر افغانستان کی مہم پر اب تک ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں تو کوئی بات نہیں یہ خطیر رقم تو امریکی ٹیکس دہند گان کی جیبوں سے نکالی گئی ہے نہ کہ عالمی صہیونی سیسہ گروں نے اس کی ادائیگی کی ہے ۔ایک عام امریکی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے علاج اور سوشل کے نام پر اسے جو سہولیات درکار تھیں وہ مدتوں پہلے ختم کردی گئی ہیں۔


دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی ہر بڑی ٹیکنالوجی کے ادارے کا صدر دفاتر اسرائیل منتقل کیا جا چکا ،عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں کے تمام مراکز اور ڈینا تل ابیب میں ہے ،دنیا کی سب سے پہلی سلی کن ویلی تل ابیب میں قائم ہوئی تھی اس کے بعد امریکہ کا نمبر آیا تھا۔امریکہ میں صرف مذاکرات ہوتے ہیں فیصلے نہیں ہوتے ،فیصلے تل ابیب میں کئے جاتے ہیں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت امریکہ کی حیثیت ایک”فرنٹ مین“کی سی ہے جس کے تمام اموروہ شخص چلا تا ہے جسے دنیا ڈونالڈٹرمپ کا داماد جیرالڈ کو شنر کے نام سے جانتی ہے اور جو نیویارک کے ایک بڑے یہودی صہیونی خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔


اسرائیل کی کا بینہ میں نصف کے قریب انتہا پسند یہودی رہائی وزراء کی حیثیت سے کام کرتے ہیں لیکن دنیا کو اس پر اعتراض نہیں،بھارت میں آرایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم اقتدار میں آکر بھار ت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہے لیکن دنیا کو اس پر بھی اعتراض نہیں کیونکہ یہ سب کچھ اسرائیل کی انتہا پسند حکومت کے حق میں ہے لیکن اگر پاکستان میں عدم ثبوت کی بنا پر حافظ سعید کو آزاد کردیا جائے تو تمام دنیا کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ جاتی ہے ۔


کیا یورپ اور امریکہ کے عیسائی حکمران اس بات سے واقف نہیں کہ مودی کا بھارت نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کا بھی اتنا ہی دشمن ہے ۔کیا بھارتی گر جا گھروں کو نذر آتش اور عیسائیوں کو زندہ جلانے کے واقعات عالمی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے لیکن یورپ کی کسی عیسائی ریاست یا امریکہ نے محض مذہب کے نام پر ہی بھارتی عیسائیوں کی حمایت میں کوئی بیان دیا ہو ،لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایک عرصے سے اسرائیلی فوجی فلسطینی مسلمانوں کے بچے عالمی میڈیا کے سامنے اغوا کرکے جیلوں میں بند کر رہے تھے لیکن عالمی حکومتوں نے چپ سادھے رکھی اب یہی کام بھارتی فوج اور آر ایس ایس RSSکے غنڈے مقبوضہ وادی میں کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں
۔
یہ ہے وہ صورتحال جس میں اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے اپنے کمانڈوز سیاحوں کے روپ میں مقبوضہ وادی میں اتار دئیے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں لہیہ کے مقام پر اسرائیلی”سیاحوں “کی بھر مار ہو چکی ہے کہا جاتا ہے کہ اسرائیلیوں کے سوا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی غیر ملکی سیاح موجود نہیں ہے۔ایسی صورتحال میں جب کسی علاقے میں کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہوں وہاں سے غیر ملکی سیاح بہت پہلے نکل یا نکالے جا چکے ہوتے ہیں لیکن اسرائیلی”سیاحوں“کی آمد کا سلسلے اس وقت شروع ہوا ہے جب خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور جنگ کی تلوار دونوں ملکوں کے سر پر لٹک رہی ہے۔

ایسے میں اسرائیلی سیاحوں کا مقبوضہ وادی میں پہنچنا چہ معنی دارد؟
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت کی جانب سے اسرائیلی ”سیاحوں “کی حفاظت کا ذمہ بھی بھارتی سیکورٹی فورس کے ذمہ ہے ۔اطلاعات کے مطابق مقامی باشندوں کے مطابق بہت سے اسرائیلی ”سیاح “خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ماضی میں اسرائیل فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔

اس لئے یہ بات اب پوری طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اسرائیل خود اس خطے میں پاکستان کے خلاف عسکری مہم جوئی کا حصہ بننے مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے ۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سقوط ڈھاکہ میں اسرائیل نے کس طرح بھارت کی پاکستان کے خلاف مدد کی تھی وہ اب تاریخ کے اوراق پر عیاں ہو چکی ہے ۔پاکستان کے جو ہری پروگرام کی تکمیل کے دوران بھارت اور اسرائیل کس کس انداز میں اس کے خلاف منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے گزشتہ فرور ی میں بھارتی مہم کے دوران پاکستان شاہنوں نے جب بھارتی طیاروں کو زمین پر ناک رگڑ وائی تھی تو اس میں اسرائیلی طیارے بھی موجود تھے اور ایک پائلٹ تاحال پاکستان کی قید میں ہے ۔

اس لئے آنے والے وقت میں جنگ کا دائرہ کس حد تک وسیع ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں۔
بھارت کے لئے پاکستان کے خلاف مہم جوئی اب اس لئے بھی ضروری ہوتی نظر آرہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اٹھایا جانے والا مودی کا قدم خود اس کے گلے پڑ چکا ہے ۔بھارتی بنئے کو جو سبز باغ عالمی صہیونیت نے دکھایا تھا اس کے مطابق ایسا ہی لگتا ہے کہ بھارتی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ آئین کی شق 370ختم کرکے اور مقبوضہ وادی میں مزید فوج بھیج کر اور کشمیری مسلمانوں کو ان کے گھروں میں قید کرکے چند دنوں میں یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔

یہی وہ سبز باغ ہے جو امریکہ اور یورپ کو افغانستان پر حملے سے پہلے دکھایا گیا تھا کہ پاکستان جیسے افغان طالبان حکومت کے حمایتی ملکوں کو زیر کر لیا گیا ہے،نیٹو کی بھر پور عسکری قوت اور شمالی اتحاد کی بھر پور معاونت کے بل بوتے پر چند دنوں میں طالبان مجاہدین کو افغانستان کے نقشے سے مٹا دیاجا ئے گا۔
اس تصور کے ساتھ امریکہ بہادر کو افغانستان روانہ کر دیاگیا لیکن کچھ عرصے بعد کیا ہوا؟خود امریکی اتحاد میں شامل برطانیہ اور فرانس جیسے ملکوں کو افغانستان میں اپنے دستوں پر حملہ نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ اس کی قیمت ڈالروں کی شکل میں افغان طالبان کو ادا کرنا پڑتی تھی اس کے بعد پہلی فرصت میں یہ امریکی اتحادی افغانستان سے بھاگ گئے اور امریکی پاکستان کو کوسنے دینے لگے ایک فیصلہ عالمی دجالی صہیوینت کا تھا اور ایک فیصلہ رب العالمین کا تھا اور نتائج ہمیشہ رب العالمین کے فیصلوں کے مطابق نکلا کرتے ہیں۔

دجالی صہیونی قوتیں صرف فیصلہ کر سکتی ہیں لیکن ان کے نتائج پر کائنات میں اللہ رب العزت کے سوا کسی کا اختیار نہیں ۔کیا سوویت یونین جیسی قاہر انہ قوت اس لئے افغانستان آئی تھی کہ آخر میں اس کا وجود تاریخ کا حصہ بن جائے۔
افغانستان آنے کا فیصلہ ماسکو کا تھا لیکن اس کے نتائج کا اسے گمان تک نہ تھا۔یہی حال اب امریکہ کا ہے اور یہی حال اب آگے چل کر بھارت کے انتہا پسند ہندوبنیے کا ہونے جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صرف فیصلہ ہی بھارتی ہندوبنیاکر سکتا تھا جو اس نے کیا لیکن بعد میں ہو گا کیا اس کا علم صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے۔بھارتی قصاب مودی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ جنوبی ہند میں واقع بھارتی ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں مزید شدت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوں گی،اس نے بیس لاکھ سے زائد آسام کے مسلمانوں کی بھارتی شہریت منسوخ کرکے انہیں غیر ملکی قرار دے کر ان کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہتھیانے کا منصوبہ بنا لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں ہیں کہ بڑے بڑے قصبوں کی طرح ایسے کیمپ بنائے جائیں گے جہاں ان مسلمانوں کو رکھا جائے گا آگے چل کر اگر یہی کیمپ تر بیتی کیمپوں میں تبدیل ہو گئے تو کوئی کیا کر سکے گا ؟آنے والے وقت میں جو ہڑ بونگ بھارت میں ہونے جارہی ہے اس کے دوران کوئی بے وقوف سر مایہ کارہی ہو گا جو بھارت میں سرمایہ لائے گا۔


امریکہ،اسرائیل ،یورپ یا چند عرب ملک اگر مقبوضہ کشمیر کی سر زمین پر سرمایہ کاری کی بنیاد پر فیکٹریاں یا کچھ اور قائم کرنے کی سوچ رہے ہیں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔ اگر گڑ بڑکے نام پر امریکہ مقبوضہ کشمیر میں ”امن فوج“کے نام پر عسکری مداخلت کا خیال رکھتا ہے تو یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان میں جو مارتا حال امریکہ کو پڑرہی ہے اس کا دائرہ مقبوضہ وادی تک پہنچ جائے اور روس اور چین اسے کیسے برداشت کریں گے اس کا بھی کسی کو کوئی علم نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آنے والے وقت میں وادی کی صورتحال سے گھبرا کر اگر بھارت پاکستان پر حملہ کر دیتا ہے تو ہمیں اس کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
دنیا کہیں کی کہیں جا چکی ہے سفارتی ،سیاسی اور اخلاقی معاملات کی بساط الٹ چکی ہے عالمی مالیاتی دجالی قوتوں نے دنیا کو معاشی وحشت نا کی میں تبدیل کر دیا ہے اور مالیاتی مفادات کے سوا کسی کی کوئی اہمیت نہیں رہی اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ سفارتی سطح پر اور بیانات کی سیاست تک محدود نہ رہے ۔

ہم ستر برس تک اقوام متحدہ کی سرخ بتی کے پیچھے لگے رہے ہیں لیکن بھارت نے آج ہمیں پھر 1948ء والے مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ بھی اس صورتحال میں جب ہماری معاشی صورتحال سابق سیاستدان اور حکمران قومی دولت کی لوٹ مار کر کے مخدوش کر گئے۔اس موقع پر جرات مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔پاکستان اپنی پراکسیوں کو آزاد کرے ،لائن آف کنٹرول کی باڑ کو اکھاڑ پھینکے۔

معاملات کو صرف مقبوضہ کشمیر تک اب محدود نہ رکھا جائے بلکہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کا بھی علم بلند کیا جائے۔
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چائے کہ بھارت ایک مصنوعی ملک ہے یہ تاریخ میں کبھی اس طرح متحد نہیں رہا۔بھارتی برہمن نے اکھنڈ بھارت کی آڑ میں موجودہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی ہے تا کہ یہاں پر دیگر ذاتوں اور اقلیتوں کو زیر دام رکھا جا سکے،تاریخ میں کسی ’اکھنڈ بھارت “کا کوئی وجود نہیں ۔

اس وقت ہندوتا کے نام پر بھارت کی بنیاد اسٹیبلشمنٹ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔اقوام متحدہ نے زبان نہ کھول کر پاکستان کے ہاتھ پاؤں کھول دئیے ہیں۔جو اس نے اس سے پہلے”استصواب رائے“کی رسی سے باندھ رکھے تھے۔دونوں ملک چونکہ ایٹمی قوت ہیں اس لئے دونوں جانب سے ایٹمی جنگ کافی الحال کوئی خطر ہ نہیں لیکن روایتی اور پر اکسی جنگ میں بھارت پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ ودیگر غیر ہندو اقلتیں بھی پاکستان کا دست وبازو ہیں۔مسلمانوں کی جہادی قوت جتنی زیادہ بے سروسامان رہی اتنی ہی کامیاب بھی رہی ہے ،افغان طالبان اکیسویں صدی کا معجزہ ہیں ۔ایک طرف دوحہ میں وہ امریکہ کے اصرار پر مذاکرات کررہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان میں اس کی درگت بنارہے ہیں۔ایک طرف خبر آتی ہے کہ دوحہ میں ہونے والے”امن مذاکرات“کو افغان طالبان نے حوصلہ افزا قرار دیا ہے تو اسی وقت دوسری خبر یہ بھی آتی ہے کہ افغان طالبان نے شمالی افغانستان پر دھا وا بول دیا ہے اور قندوز میں گھمسان کارن پڑا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maqboza Wadi Main Israeli Commandos Aalmi Gath Jor Ka Saboot Hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 September 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.