مسئلہ کشمیر،بھارتی جنگی جنون ، نتائج اور سفارشات۔۔۔تحریر: حسنات غالب راز

لمحہ فکر یہ ہے، دو ماہ ہونے کو ہیں، ۵ اگست ۲۰۱۹ء سے تاحال انڈیا حکومت نے آرٹیکل ۳۷۰ اور۳۵ اے کے تحت کشمیر ی مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے لیے دھونس اور بے شرمی سے کشمیر کو یرغمال بنا رکھا ہے، حرام ہے بااستثنائے چند ممالک کے کسی اسلامی و غیر اسلامی ملک کو کشمیر کی حالتِ زار پر ترس آیا ہو

ہفتہ 19 اکتوبر 2019

masla Kashmir, Bharti jangi junoon, nataij aur sefarshat
ہندوستان، براعظم ایشیا کا وہ علاقہ ہے،جہاں ہندو ،سکھ، مسلمان اور دیگرکئی قومیں آباد ہیں ۔ یہاں مغلوں کی ہزار سال کی حکومت زوال پذیر ہوئی تو یہ علاقہ تاج برطانیہ کی دسترس میں چلا گیا ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ دوسری بڑی قوم ہندو تھی،بلاشبہ یہ قوم بھی تاجِ برطانیہ سے چھٹکارے کی حامی تھی ، مگر جب جنگِ آزادی ناکامی سے دوچار ہوئی تو ہندووٴں کی شاطرانہ رگ پھڑکی ۔

وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انھوں انگریزی تسلط کی مخالفت سے لاتعلقی ظاہر کردی اور اپنی عیاری سے غیر ملکی غاصبوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ جنگ آزادی کے نام سے غدر کے ذمہ دار صرف اور صرف مسلمان ہی ہیں ۔ہندووٴں کی لگائی اس آگ کے تدارک کے لیے مسلمان مصلح ِ قوم سر سید احمد خاں نے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند اور لائل محمڈ نز آف انڈ یا لکھ کر انگریزوں کے دلوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کیا۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ہندووٴں کی ناپاک ذہنیت کو بھانپتے ہوئے ۱۸۶۷ء میں پہلی بار دوقومی نظریہ نمایاں کیا، جس کی روشنی میں مملکت خداداد پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔ 
تحریکِ آزادی کی کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کل نوے سال مغل حکمرانوں کی خطاوٴں کے بدلے چکانے میں کام آئے ۔ اس دوران میں جو مسلمانوں پر گزری وہ ایک دل سوز کہانی ہے ،جس طرح ہندو وٴں نے انگریزوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور اپنے مفادات حاصل کیے ،یہ ان کی عیارانہ فطرت کا منہ بولتا’ کرتوت‘ ہے۔

القصہ خدا خدا کر کے آزادی کا کارواں چل پڑا مگر ہندو قوم نے اپنے مفادات اور علاقائی تقسیم کو مدِّنگاہ رکھ کر اپنے پتے کھیلنے شروع کر دیے ۔ ۱۸۸۵ء میں کانگریس ہندوستان کی تمام قوموں کی ترجمان جماعت کے طور پر تشکیل پائی ۔ابتدا میں کئی مسلمان راہ نماوٴں نے بھی مخلص جان کر اس میں شمولیت اختیار کی ، مگرجوں جوں اس جماعت کا ضمیر واشگاف ہوتا چلا گیا،اس میں ضم ہونے والے کنارہ کش ہوتے گئے ۔

کانگریس کے مکروہ، مضموم ا ور مخصوص عزائم کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں نے اپنی الگ جماعت کی ضرورت محسوس کی، لہٰذا۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کی حقیقی ترجمان جماعت وجود میں آئی ۔ ۱۹۱۳ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے اس جماعت کو اپنی شمولیت سے سرفراز کیا ۔
مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ مسلمان قوم پر کسی احسان سے کم نہ تھا ،کیوں کہ یہی وہ پلیٹ فارم تھا ،جس سے مسلمانوں نے اپنا تشخص اجاگر کیا ،اسی سے دو قومی نظریہ پروان چڑھا ۔

۱۹۳۰ء میں اقبال  نے خطبہ الٰہ آباد کے دوران میں الگ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا ۔چودھری رحمت علی نے اس تصورکا نام’ پاکستان‘ تجویز کیا،جو امر ہوگیا ۔ جستجو کے اس سفر میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء قرار دادِ لاہور کا انعقاد ہوا ،جسے ہندووٴں نے ازراہِ مذاق ’قرار دادِ پاکستان ‘ کہ دیا۔ یہ نام ایسا مقبول ہوا کہ آج تک اسی نام سے اس قرارداد کا تہوار منایا جاتا ہے ،جو ہندو قوم کے حسد کی چتا جلاتا رہتا ہے ۔

تحریکِ آزادی کے ہر موڑ پرہندووٴں نے اپنی ناپاک فطرت کے جال بچھائے مگر مسلمانوں کو بارگاہِ ایزدی سے قا ئد اور اقبال جیسے وہ عظیم لیڈر میسر آئے، جن کا پاک و ہند میں آج تک کوئی ثانی پیدا ہی نہیں ہوا۔ ہندووٴں نے کتنے پیچ و تاب کھائے ، کتنی ہی چالیں چلیں ، کتنے مکر کمائے ،مگر کوئی ایک دفعہ ،ہزار دفعہ منھ کی کھائی ،رسوائی اور بے عزتی کے سوا کوئی خوراک انھیں شاید پسند ہی نہ تھی ۔

پرلے درجے کے ڈھیٹ اورہٹ دھر م ،ان کو کیا معلوم کہ حاکمِ کائنات ، جب کسی کو عزت اور ملک عطا کرتا ہے تواس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔
قصہ مختصر ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء پاکستان کا قیام عمل میں آگیا ۔ہزاروں دکھ ، محرومیاں اور ہجرت کے مارے زخمی قافلے نئی سلطنت کے لیے بہت بڑا چیلنج تھے۔ سارے دکھوں سے بڑا دکھ کشمیر کی آزادی کا تھا ۔وہ کشمیر ،جسے بابائے قوم محمد علی جناح نے شہ رگِ پاکستان کا نام دیا تھا ۔

اس کی آزادی ابھی باقی تھی ، جب شہ رگ ہی آزادانہ ہو تو بدن کو کب قرار آتا ہے ۔یہی وجہ ہے آج تک آزادی کے متوالوں کو کروٹ کروٹ ایک بے قراری محسوس ہوتی ہے ۔ سانسوں ، دھڑکنوں اور لہو کی روانی میں کشمیر کی آزادی کاجذبہ اضطراب سے لبریز ہے۔ ’ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہٴ مستانہ شام و سحر فضاوٴں میں بلند ہوتا اور ڈوبتا رہتاہے مگربدقسمتی سے ہر نئے دن ایک نئی لہو کہانی رقم ہوجاتی ہے ۔

کشمیر کی لہو رنگ کہانی کا پس منظر ۲۶ اکتوبر۱۹۴۷ء کے دن سے شروع ہوتا ہے ۔جب پاکستان کی آزادی کے ابتدائی ایام ہی میں ہری سنگھ نے کشمیرکا انڈیا سے غیر فطری الحاق کر دیا ۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین پہلی جنگ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۹ء تک جاری رہی ، جب کشمیری اور پاکستانی آزادی کے متوالوں نے موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ چھین لیا اور پیش قدمی ریاست جموں کشمیر( موجودہ مقبوضہ کشمیر) کی طرف واضح دکھائی دینے لگی تو جواہر لال نہر و کی عیارانہ رگ پھڑکی۔

 
سیدھا اقوام متحدہ بھاگا اوراسے فریب دینے میں کامیاب ہوگیا ۔ استصواب رائے اور کشمیری مسلمانوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا جھوٹاوعدہ کرکے متوقع پیش قدمی رکوانے میں کامیاب ہوگیا مگربعد میں ٹال مٹول کی گیند اچھالنے لگا ۔ اقوامِ متحدہ کے عرضی نویس ہر سال ایک نئی قرار داد کا مسودہ چھاپتے اور ردی کی ٹوکری میں پھینکتے رہے ۔ اقوام متحدہ کی روایتی ٹھنڈک سے کشمیر سلگتا رہا ۔

ستم بالائے ستم کہ عالمی امن وسلامتی کے تمام ادارے گنگ زبان اور ہمہ تن گوش ہندوقوم کی کارستانیاں دیکھتے رہے ۔ یوں دنیا کے منصفوں کی بے جا چپ سے پچانوے فیصد مسلمانوں کی آبادی پر ہندو مت کے پجاریوں کا غاصبانہ قبضہ پختہ ہوتا چلاگیا۔
ہزاروں ماوٴں کے لعل ذبح ہوتے رہے ، ہزاروں معصوم بیٹیوں کی ناقابلِ اظہار عصمت دری ہوتی رہی ۔ شفاف آبشاروں کے پانیوں میں ہر نئی صبح لہوکی آمیزش ہوتی رہی ۔

زمزمے نوحہ گر بنتے رہے ۔زندگی نے لاشوں کے کفن پہن لیے ۔ہندووٴں کی بربریت اور بے حیائی میں بے دریغ اضافہ ہوتا چلاگیا۔ مظلوم انسانیت پر خو ف مسلط ہوگیا ۔ آہوں اورسسکیوں نے پوری وادی کو سراسیمگی بھری حیرانی میں ڈال دیا ۔کشمیر کے بے بس باسی گھروں میں محصور ہوکر سسک سسک کر ’ ہم تو مجبور سہی تُو تو مجبور نہیں ‘ کے مصداق سوچنے لگے کہ پوری مسلم امہ اتنی خوف زدہ کیوں ؟ او آئی سی کی خاموشی کی وجہ کیا ہے ؟اقوامِ متحدہ ، سلامتی کونسل ، عالمی عدالت انصاف ،سیکیورٹی کونسل ، عالمی امن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کس قیامت خیز دستک کی منتظر ہیں ؟کیا پوری دنیا کے کان اٹے پڑے ہیں ؟کیا کسی کو مظلوم انسانوں کی آہیں اپیل نہیں کرتیں ؟کیا ان اداروں کو جگانے کے لیے مظلوم انسانیت کا مزیدخون درکار ہے ؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی امن کے ادارے کمیشن بٹھانے اور مذمتی اجلاسوں سے فقط ظلم کے مٹ جانے کی تصدیق کرتے رہیں گے ؟بقول غالب
یوں ہی اگر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں 
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویران ہو گئیں
 لمحہ فکر یہ ہے، دو ماہ ہونے کو ہیں، ۵ اگست ۲۰۱۹ء سے تاحال انڈیا حکومت نے آرٹیکل ۳۷۰ اور۳۵ اے کے تحت کشمیر ی مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے لیے دھونس اور بے شرمی سے کشمیر کو یرغمال بنا رکھا ہے، حرام ہے بااستثنائے چند ممالک کے کسی اسلامی و غیر اسلامی ملک کو کشمیر کی حالتِ زار پر ترس آیا ہو ۔

کسی نے یہ سوچنے کی کوشش کی ہو کہ کسی گھر کا دروازہ ایک دن کے لیے بند ہوجائے تو وحشت کا سماں ہوجاتا ہے ۔ مگر حیرت ہے ان بے بس انسانوں پر جو قریب دو ماہ کے یہ ستم سہنے پر مجبور ہیں۔عالمی سطح پر بد ترین بے حسی کی اس سے قبیح مثال شاید صدیوں بعد ملے ۔اپنی دھرتی اپنا دیس اور غیر کا راج ، اتنا طویل اور سرکش کرفیو کہ پوری دنیا نے دُم دبالی۔

ہر طرف ہو کا عالم ، ہرطرف ویرانی ہی ویرانی، ہر طرف آہیں اور سسکیاں ، انسانوں کی بستی میں جانوروں سے بھی بدترین سلوک ، الحذر! الاماں !
اقوام عالم کے تاج داروں سے اتنا تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی زخمی سرزمین پر سسکتی، تڑپتی، بے گناہ اورمظلوم ماوٴں، بہنوں ،بیٹیوں کی عصمت دری پر بے حسی کیا دنیا کے کسی آئین میں جائزہے ۔ کیا یہ عالمی سطح کی دہشت گرد اور نولاکھ باوردی انڈین’ آتنک وادی ‘ کسی کو دکھائی نہیں دے رہے ۔

کیا یہ بدترین کرفیو کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔کیاجدید ٹیکنالوجی اورکیمروں کی آنکھیں اپنی بینائی کھو چکی ہیں ۔کیا اس بین الاقوامی بے حسی سے دنیا کے منصفوں کو دلی تسکین مل سکے گی؟ کیاانسانی حقوق کے علمبردار کرفیو کے بعد انڈیا کی شرمناک بربریت سے مظلوم جسموں پر ہونے والے مناظر دیکھ سکیں گے ؟ کیا ایسے اقدامات کے مرتکب انسانیت کے دشمن مودی کا منھ ماتھا چاٹنا اسلامی غیرت اور بین الاقوامی عقیدت کے مطابق درست ہے ؟ کیا انسانیت کے کسی قاتل کے گلے میں ایوارڈز کی مالاڈالنا،قہقہے لگا نا ، ہاتھ سے ہاتھ ملا کر جھومنا اور تمسخر اڑانا بطور انسان مرجانے کا مقام نہیں ہے ۔

ٹرمپ اور بل گیٹس سے شکوہ کیا ،جب اپنے ہی دشمن کے گلے میں سونے کے کنٹھے ڈالنا شروع کردیں تو غیروں کو کیا کُوسنا ۔
 کاش ہم اپنی بے حس کھوپڑیوں سے ڈھکن اٹھا کر سوچیں کہ کشمیر کے بزرگ اور بے بس رہنما سید علی گیلانی کی صدا کیا ہے ؟ مظلوم انسانیت تڑپ تڑپ کر پوچھتی ہے :’اے قومِ رسولِ ہاشمی !آخر تجھے ہوا کیا ہے ؟اے ایک خدا کے ماننے والو ! اتنا تو بتا دو کہ کل روزِ قیامت خدا کے سامنے کس منہ سے جاوٴ گے ؟کیا جواب دوگے؟ طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی ، محمود غزنوی ،محمد بن قاسم کی روحوں کو آج کشمیر، فلسطین اور شام کی مظلوم بیٹیوں کی آہوں اور سسکیوں پر کتنا رنج ہورہا ہوگا ؟کیا پھر سے اسلام کے دامن میں سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے بجائے میر جعفر اور صادق ایسے غدار طفیلیے نمو پا جائیں گے ؟ آخر کب تک ہم اپنے ہی وجود کے ساتھ منافقت کرتے رہیں گے ؟
بروقت سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ کشمیر کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ عالمی دکھ ہے ، مسلمان قوم کو چھوڑیے انسانیت کے رشتے سے سوچیے ۔

ایک ملالہ یوسف زئی کے لیے انسانیت کا ڈھول پیٹنے اور انسانی ہمدردی کا آسمان سر پر اٹھا لینے والوں کو کیا کشمیر کی ہزاروں بیٹیوں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتی مگر دکھ اور افسوس ایسے نکوکاروں پر ہے جو نیکی بھی کاروباری نیت سے کیاکرتے ہیں ۔ بھارتی منڈی کے پلے داروں اور سوداگروں سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا ان کے لیے انسانی لہو کی کچھ بھی قیمت نہیں ہے؟
بہتر سال پرانی، کشمیر کی کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور حالیہ دنوں چوتھے ماہ کو چھونے والا کرفیو کسی جہنم سے کم نہیں ۔

اتنے سب کچھ کے بعد تشویش ، تشویش، تشویش کے کھوکھلے اظہاراتِ ہمدردی مکروہ ہو چکے ۔ خدا کے لیے کچھ سوچیے !کہ مظلوم انسانیت کو آزمانا ابھی کتنا باقی ہے؟ انصاف اور ثالثی کا مذاق کب تلک، بلا تاخیر بطور انسان مسند ِ انصاف پر بیٹھے طاقتور عادلوں کو مظلوم ترین انسانیت کا قتل عام روکنا ہوگا۔انصاف کے دعوے داروں کو تعصب اور تنگ نظری کی آلودہ چادر اتارنا ہوگی۔

اہلِ کشمیر سے کسی کا خون اور مذہب کا رشتہ نہ سہی،کم سے کم انسانیت کے ناطے سے توکچھ کرنا ہوگا ۔ ہندوستان کی سرِعام دہشت گردی کے سامنے دنیا کے عادلوں کا گھٹنے ٹیک دینا اور بے حس ہوجانا سمجھ سے بالاترہے ۔
خوشحال اسلامی و مغربی ممالک کی خدمت میں عرض ہے کہ اپنی پر تعیش اور سکون کی دنیا میں کسی سہانی شام بیٹھ کر اتنا ضرور سوچ لیں کہ خدا کاکوئی عذاب یا دنیا کا کوئی امتحان آپ کی خوشیوں کا تعاقب بھی کر سکتا ہے ، ظلم کا کوئی پہاڑ کبھی آپ پر بھی گر سکتا ہے، تباہی کا کوئی سمندر اچھل سکتا ہے ، کوئی بپھرا ہوا طوفان آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔

دکھ اس امر کا ہے کہ انسانیت کے دامن پر کوئی ایک زخم لگا ہے ۔انسانی تاریخ میں ہزاروں کہانیاں ، ہزاروں دردناک سوالیہ نشان ہیں۔آخر خون آشام درندوں کو بوسنیا ، چیچینیا ، عراق ، شام ،فلسطین ، افغانستان، برمااور کشمیر کے بعد کس رنگ کا لہو درکار ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا پر ظلم کی آبیاری کرنے والوں ، ڈرون حملوں سے بے گناہ آبادیوں کو تباہ کرنے والوں اور مظلوم ملکوں پر نوآبادیاتی نظام رائج کرنے والوں ہی نے جب عدل و انصاف کی دکانیں سجا رکھی ہوں، جن مگر مچھوں کی اپنی ہی باچھیں مظلوموں کے لہو سے لبریز ہوں ، جن کے دامن پر لاکھوں کروڑوں بے گناہوں کے خون کے دھبے ثبت ہوں ،جو خون چوسنے کے رسیا اور شوقین ہوں۔

ایسے عناصر سے ہمدردی کی توقع رکھنا فقط کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیاانڈیاکی جارحیت کا توڑ کسی عالمی طاقت کے پاس نہیں ہے ۔ پاکستان سے قطع نظر انسانیت کے ناطے سے سوچیے کیا عالم ِاسلام کا کشمیر سے کوئی رشتہ نہیں ۔ہندوستان کے دندناتے پھرتے نو لاکھ’ آتنک وادی‘ وردیوں کے حجاب میں کیا واقعی دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہیں ۔

کیا یہ عالمی سطح کی سرِ عام دہشت گردی کسی کو نظر نہیں آتی ۔ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ بھارت کو سرکش بنانے والاکون ہیں؟ کیا کچھ عرصہ کے لیے اس سے معاشی بائیکاٹ کر کے یا تیل کی ترسیل روک کر اس کے دماغ کا کیڑا نہیں نکالا جاسکتا ،سب ممکن تو ہے مگر کون جانے کسی کا دردِ نہاں ؟ سچ تو یہ ہے کہ ان کفر ،نفرت اور انتہا پسندی سے آلودہ پتھر دل ہندووٴں کا ٹھکانہ ہی کیا ہے ۔

غیر توپھر غیر ہے اپنوں کی بے حسی کا کیا کیجیے ؟ کیا خوب کہا تھا کسی جواں سال شاعر نے :
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 
یاد رکھیے!جب سبھی حرص وہوا کی ڈگڈگی پر اپنا اپنا بندر نچا ررہے ہوں ، اپنے کھیسے اور آٹے کی خیر منا رہے ہوں ،جب دنیاوی لالچ میں احساس کے رشتے ختم ہورہے ہوں تو صدیوں سے قائم قوموں کا وجودمٹ جایا کرتا ہے ، تاریخیں مسخ ہوجایا کرتی ہیں،جب بڑے بڑے سینگوں والے بھینسے بزدل لگڑ بگڑوں کے آگے دم دبا کر بھاگنا شروع کردیں تو جرمِ ضعیفی کو مرگ مفاجات کی سزا ہوجایا کرتی ہے۔

انسانیت ناپید ہوجایا کرتی ہیں ، خونخوار بھیڑیوں اور درندوں کا راج قائم ہوجایا کرتا ہے ۔
 ان تناظرات میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگردنیا کے نقشے پر انسانیت پروف ملکوں کوان کے ظلموں سے نہ روکا گیا تو یہ ایک دن اپنے آپ کو چیتے اور شیر سمجھنے لگیں گے۔ یہ درندگی کے چیمپین بننے کی کوشش کریں گے۔ بھارت کوگود میں بٹھا کر پالنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ اس برے وقت کا ادراک کریں کہ جب کشمیر ،فلسطین اور شام ہی نہیں ناجانے کس کس لاش پر آپ کو ندامت کے آنسوبہانا پڑیں گے ۔

بابری مسجد کے مسمار ہونے اور بیت المقدس کی حالت زار کے بعد کتنی ہی یادگاروں کے ملبے پر آپ کو سر جھکا نا پڑیں گے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ پر ۷۰ لاکھ ریال کے قیمتی غلاف چڑھانے اور طواف کرنے والے، شیطان کو کنکریاں مارنے والے ، پانچ وقت باجماعت قیام کرنے والے خدا کی رضا کے طالب کیا روزِ قیامت کشمیر کی بیٹی کے سامنے رب کا قرب حاصل کر پائیں گے؟ اتحاد عالم اسلامی کے واعظوں سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ ’ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔

۔!‘
 عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا الرٹ جاری کیا ، انٹر نیشنل میڈیا بے بس ہوا ، بین الاقوامی مبصرین کے راستے بند ہوئے مگر کسی کو کچھ پتا ہی نہ ہو جیسے بقول غالب’ کوئی بتلائے یا ہم بتلائیں کیا‘ اڑھائی ماہ سے کھاناپینا بند ، بچے بوڑھے جوان نظر بند ،فون بند ،رابطے بند ،راستے بند ،مقام حیرت ہے کہ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے کیمرے کچھ بھی نہیں دیکھ رہے ۔

کرفیو کے دوران میں مغلوب انسانوں کے ساتھ ہونے والی ناقابلِ اظہار بے حیائی کسی عالمی ادارے کے ضمیر کو بیدار نہیں کر پا رہی ۔ اوآئی سی، مسلم ممالک ، اقوامِ متحدہ ،سلامتی کونسل ، انسانی حقوق کی تنظیموں سے کوئی پوچھے کہ مظلوموں کی لاشوں سے اچھلتے لہوکا کتناتماشا ابھی مزید درکار ہے ۔ سانپوں کو زندہ چھوڑنے والے جنگلی حیات کے محافظوں، چیونٹی پر پاوٴں نہ رکھنے والے پارساوٴں سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا سب کچھ آپ کی نظروں سے اوجھل ہے۔

کشمیر میں انسانیت تڑپ رہی ہے ، جنسی تشدد ہورہا ہے ، بچے بھوک سے مر رہے ہیں ، پیلٹ گنوں سے آنکھوں کی بینائی چھینی جارہی ہے ۔ مائیں نوحہ کناں ہیں ، بیٹوں کی لاشیں لہو میں لت پت ہیں ۔ آبشاروں میں لہو بہہ رہا ہے ۔ جنت کو جہنم میں بدلا جارہا ہے ۔ آج نہیں تو کل ایٹمی جنگ کے اندیشے یقین میں بدل سکتے ہیں۔ ایسی حالت میں عالمی امن کے دعوے داروں پر واجب ہے کہ احساس کے لیبل اتاردیں یابھارت کو کشمیر سے نکال دیں ۔

اس سے پہلے کہ مودی ایسے عالمی’ آتنک وادی‘ کی ہٹ دھری کے رد عمل میں تابکاری شعائیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں اور کائنات کا حلیہ بگڑ جائے ،وقت کی نزاکت کو محسوس کریں ۔بعد میں محض پچھتاوا رہ جائے گا اورکسی بھی تباہی کے بعد پچھتاوا یا تشویش بھرے لفظوں کی ملمع کاری کام نہیں آیا کرتی۔ ندامت کی ندیا میں غوطے کھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

انسانیت کے قاتل مودی سے عقیدت رکھنے والے ناعاقبت اندیشوں سے باتحریف یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ : 
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے’ اے مودی کے متوالو‘
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
المیہ یہ ہے کہ کاروبارکی چربی ،جب آنکھوں اور دلوں پر چڑھ جاتی ہے تو کسی کو کوئی مرتا دکھائی نہیں دیتا ،کسی کو احتجاجی بینرز او ر سکرینز دکھائی نہیں دیتی ہیں ،جہاں تک پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا تعلق ہے تو جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کے دل پذیر خطاب کے بعد بظاہر کوئی کسر باقی دکھائی نہیں دیتی مگر ان حقائق سے اقوام متحدہ ستر سال سے آشنا ہے ۔

’کاش ترے دل میں اُتر جائے میرا خطاب‘ پرفقط اکتفا نہ کریں۔’ کشمیر کے سفیر‘ کو ہزاروں سلام مگریہ مناسب ترین وقت ہے ، لوہا گرم ہوچکا ہے ۔ایک لمحہ بھی ٹک کر نہ بیٹھیں ۔فون کی بات اور بالمشافہ ملاقات میں کوسوں کا فرق ہوتا ہے ، ہر ملک جائیں،ہراچھے برے کا در کھٹکھٹائیں ۔ پوری دنیا کو باور کرادیں کی ظلم کی کہانی کون لکھ رہا ہے تاکہ کل کلاں جب ’تنگ آمد ، بجنگ آمد‘ کا معاملہ ہو تو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی منصف مودی کی حالت زار پر ترس کھاتے وقت اتنا ضرورجانتے ہوں کہ یہ ہٹلر کا بچہ اس سزا کا حقیقی حقدار تھا،کیوں کہ جب کو ئی مظلوم پر جبر کرتا ہے تو کسی کو آہ و پکار سنائی نہیں دیتی لیکن جب کسی غاصب اور طاقتو ر کا گلا دبایا جاتا ہے تو اس کی’ بھاں بھاں‘ سارے سنتے ہیں ۔

بات لمبی ہورہی ہے ۔مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے تو اس ضمن میں چند سفارشات پیش خدمت ہیں :
 مسئلہ کشمیر کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بھارت کو آج تک وہ جواب نہیں ملا، جس کی اسے سمجھ آتی ہے ۔ ہر جمعہ آدھا گھنٹا یک جہتی کے لیے پوری قوم نکلنا مناسب سہی مگر جو دنیا ستر دہائیوں سے سب دیکھ کر خاموش ہے کیا اس کے کان پر کوئی جوں رینگے گی ۔ اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنا درست ہے مگر کشمیر کے لیے بہت بڑے ’ ڈومور‘ کی ضرورت بھی ہے ۔

واضح رہے کہ اگر تمام اسلامی ممالک خیر طلب ہیں تو دنیاوی نفع نقصان سے قطع نظر ،جتنا جلدی ممکن ہو بھارت سے معاشی بائیکاٹ کردیں ۔اولین فرصت میں اس کے سفیرگھر بھیج دیں ، تمام لین دین ختم کردیں ، فضائی حدو د اور درآمدات وبرآمدات پر پابندی لگادیں۔ عالمی طاقتیں اس کو حق خودارادیت اور انسانی حقوق کی لغت پڑھا دیں۔ چین جوکہ لداخ کے حوالے سے خود بھی متاثرین میں سے ہے، کم سے کم یہی جواز پیدا کر کے انڈیا پر مکمل دباوٴڈالے ۔

ایران کا سخت اور دو ٹوک بیانیہ موثر ثابت ہو سکتا ہے ۔افغانستان پاکستان کے دکھ سے قطع نظر براہِ راست کشمیر ی مسلمانوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا جان دار بیانیہ جاری کر دے۔بنگلہ دیش بھی اسلامی بھائی چارے کا حقیقی حق ادا کرے۔ سعودیہ بھارت سے تجارتی و معاشی مفادات کے بجائے انسانیت اور مسلمانیت کو فوقیت دے ۔ طیب اردگا ن اور مہاتیر محمد بھی اپنی خوش قامتی کشمیر ی مسلمان بھائیوں کے نام کریں۔

ادھر دوسری جانب تاج برطانیہ والے مسٹر مودی کو بتادیں کہ ہم نے بھی نوے سال بعد آخر یہ دھرتی حقیقی وارثوں کو دے دی تھی ۔تمھیں بھی ایک دن منہ کی کھانا پڑے گی ۔ امریکا مودی کے کان میں ہدایت ٹھونس دے کہ مسٹر ہم افغانستان سے نکلنے کی کوشش اور ندامت میں پھنسے ہوئے ہیں ،آپ کا کشمیر میں بھی یہی انجام ہوگا یا کم سے کم مودی کہیں اکیلا بیٹھ کر سوچ لے کہ دنیا کی تاریخ میں کیا آج تک کسی غاصب کو سکون ملا ہے تو یقینا اسے ’ نہیں‘ کی صورت میں جواب مل جائے گا ۔

کاش انڈیا کا میڈیا اور بھولی عوام عالمی اخباروں کا مطالعہ کر لیا کریں یا کم سے کم مودی کا چہرہ ہی غور سے دیکھ لیں تو اس کا ضمیر جان جائیں ۔
 ثالثی کو مذاق کے بجائے حقیقی معنوں میں مطلوم انسانیت کے نام کیا جائے ۔کاش ٹرمپ صاحب کی طبیعت میں سنجیدگی آجائے اوراس کی دوربینیں کشمیر میں ہوتا ظلم دیکھ سکیں اور وہ مودی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے کے بجائے عالمی امن کی شمع جلا دیں تو ممکن ہے رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں۔

دنیا کی اتحادی افواج بھارت کا قبضہ ختم کراکے عالمی مبصرین کی نگرانی میں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق کشمیر کو آزاد ریاست تشکیل دے دیں اور اس انسانی المیے کوسمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کردیں توبھارتی جہنم میں سلگتا کشمیر جنت نظیر وادی بن سکتا ہے ۔ پوری دنیا کے سامنے استصواب رائے سے انڈیا کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کشمیر اس کا نہیں اہلِ کشمیر کا ہے۔

حق دارکو حق مل جانے سے ہندوستان کے غاصبانہ اقدامات کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ پاکستان اور بھارت میں خوشحالی بھی آئے گی ۔باہمی امن کو فروغ ملے گا ۔بھارت کو اپنے بجٹ کا ساٹھ فیصد نہ ہی پاکستان کو اپناآٹھ فیصدہتھیاروں کی خریداری پر صرف کرنا پڑے گا۔
 بات تو سچ ہے مگرآر ایس ایس کی گود میں پلے ہوئے مودی کی کھوپڑی میں تشویش ، رحم ، شرم،شرافت ، انسانیت اور مذمتی الفاظ سرایت نہیں کر سکیں گے۔

یہ کرتار پور راہداری ، ابھی نندن کی فوری آزاد ی ایسے حسنِ سلوک کو نہیں سمجھے گا ۔ یہ سمجھوتہ ایکسپریس پر سمجھوتہ نہیں کرے گا ۔ اس کا انتہا پسند ’بھیجا‘ صرف طاقت کی زبان سمجھے گا ۔ عالمی عدالت میں اسے ’ عالمی امن کا دشمن ‘ قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ پاکستان ہی کا نہیں پوری دنیا کا دشمن ہے ۔ پوری انسانیت کا قاتل ہے ۔یہ دو آنکھوں والا دجال ہے ۔

یہ حسنِ سلوک کا بدلہ خون کی ہولی سے دینے کا قائل ہے ۔ہزار باتوں کی ایک بات ، درندہ صفت مودی کو سوسال تک اپیلیں کرتے رہو ، لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ سے ہلاکتوں پربھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کولگژری گاڑی میں بلاتے اور احتجاجی مراسلے تھماتے رہو۔ احتجاج پر احتجاج کرتے رہو ، عالمی طاقتوں سے مدد کی اپیلیں کرتے رہو ۔ یہ ہٹلر اور بے رحم قصائی کا بچہ کبھی نہیں مانے گا ۔

پاکستان کی طرف سے ، جس جنگ سے بچنے کے جتن جاری ہیں اگر عالمی طاقتیں رسمِ تشویش کے لفافے سے نہیں نکلیں گی توآج نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں آخر موت کی طرح ہر جی کو’ جنگ ‘ کا ذائقہ چکھنا پڑے گا ۔
پاکستان کی طرف سے نہایت خوش آیند رویے کا اظہار کیا گیا ہے ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرکے اقوامِ عالم کو سچائی بتا دی گئی ہے۔

حسنِ زن کا تقاضا ہے شاید اس کے مفید اثرات برآمد ہوں ۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اگربھارتی جارحیت کا جواب دے دیا جائے ، مظلوموں کی دادرسی میں ان بھارتی درندوں پر حملہ کردیا جائے ،بھارت اور مودی کی مکروہ چھاتی اور کھوپڑی کے پرخچے اڑا دیے جائیں توسب کو انسانی حقوق فوراً یاد آجائیں گے ۔ انسانی ہمدردتنظیمیں کھمبیوں کی طرح پھوٹ پڑیں گی ۔

مبصرین کے قافلے حقائق لینے آجائیں گے ۔پاکستان پر دباوٴ ڈالنے میں شاید ذرابھی تاخیر نہ ہو ۔مگرسمجھ نہیں آرہی کہ آج دنیا کے میڈیا اور مبصرین کاکشمیر جا تے ہوئے کیوں دل گھبراتا ہے ؟ بین الاقوامی دہشت گرد ی کسی کیمرے کو کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا، جوآج تک پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ڈومور مگر اسرائیل اور بھارت کو دہشت پھیلانے کی تھپکی دیتا رہا ہے۔

پاکستان کی شفاف مذہبی تنظیموں کو کالعدم کرانے میں پیش پیش امریکا ،بھارت کی بیسیوں ہندو دہشت گرد تنظیموں اور نو لاکھ فوجیوں کی جارحیت پر پرسکون کیوں ہے ۔ دوغلا معیارمگر اعتبار پر اعتبار،ہائے کتنے سادہ ہیں یار لوگ ،کبھی افغانستان سے’ آتنک وادیوں‘کی آمد کا غوغا تو کبھی پلوامہ کا جھوٹ پاکستان سے منسوب ، ایک جانب بالا کوٹ فائرنگ میں ہزاروں دہشت گردمارنے کے دعوے تو دوسری جانب ابی نندن جیسے زیرو کو ہیرو بناکربے شرمی کے اعزازکی سرفراز ی ،وہ ابی نندن، جسے پوری دنیا نے شرمندگی سے واپس ہوتے دیکھا ،مگرافسوس بھارتی میڈیا اور سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی گئی کہ دیوانہ وار بغلیں بجاتے پھرتے ہیں۔

دوسری جانب دنیا بھر کا میڈیا بھارتی دہشت گردی کو سرعام دیکھنے ،جاننے کے باوجود بے حسی کے ملبے تلے دبا پڑا ہے ۔ تھوڑی تحریف کے ساتھ بیانِ غالب: 
’بے حسی ‘بے سبب نہیں ’ ظالم ‘
کچھ تو ہے ،جس کی پردہ داری ہے 
وقت کے منصفوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ کہیں تنہا بیٹھ کر تھوڑا سا غور فرمائیں کہ آزادی کی جنگ لڑنے والے تو ’آتنک وادی‘ ہوئے، مگرستر سال سے خون کی ہولی کھیلنے والابھارت جو کچھ کر رہا ہے ،کیا سب ٹھیک ہے ،کیا دنیا کا سب سے بڑ ا’آتنک وادی‘ عالمی عدالت ِ انصاف کی نظروں سے واقعی اوجھل ہے ؟ حقائق سے منہ موڑنے والوں پر ہزار افسوس ہے۔

یہ کہنا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، ہرگز نہیں ،یہ صرف اور صرف کشمیری مسلمانوں کا ہے ۔محض بھارت ہی نے اسے متنازع علاقہ بنا رکھا ہے۔ پچانوے فیصد مسلمان آبادی پر غیر مذہب لوگوں کا ناجائز قبضہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔ستر برسوں کی مزاحمت اور چھ لاکھ شہادتوں کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ کشمیر کاقومی ، فطری، سیاسی،سماجی ،مذہبی یا روحانی حوالے سے بھارت کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں ہے۔

دنیا کو جاگ جانا چاہیے، اگر تیسری بڑی جنگ شروع ہوگئی اور کشمیر یوں کی طرح پاکستان کے ذہن سے دنیا کے جھوٹے سہاروں اور ناجائز پابندیوں کا ڈر ختم ہو گیا ، تو پھر اس لاوے کو سنبھالنا مشکل ہو جائے ، جب دفاع اور احتجاج کرنے والوں نے کفن پہن لیے تو پھر عالمی دنیا کے کمیشن اور قرادادیں ،ڈراوے اور خوف ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے ۔
واضح رہے مسلمانوں کا روزِ قیامت پر یقین ہے ۔

ان کے لیے قیامت کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی لیکن بھارت کو یہ قیامت بہت مہنگی پڑے گی ۔ اقوامِ عالم کی خدمت میں باربارعرض ہے کہ مفادات اور تجارت کے بجائے انسانیت کو ترجیح دیں۔ یہاں بات تھم گئی تو لاکھ شکر،لیکن اگرستر سال سے ستائے ہوؤں کو موت اور زندگی کا فرق بھول گیا تو ہٹلر بننے کے سارے خواب راکھ ہوجائیں گے۔ مسٹر مودی کو سمجھ لینا چاہیے ، جب تمھاری اپنی ہی لگائی ہوئی آگ حد سے زیادہ بڑھ گئی تو لپکتے شعلوں میں تم اور تمھاری ماچس کی تیلیاں بھی جل کر راکھ ہوجائیں گی ۔

تیرا حاشیہ نشین میڈیا رہے گا نہ تجھ سے ناواقف اور ناعاقبت اندیش عوام اور تو کشمیر لینے کے لالچ میں انڈیا کا وجود بھی مٹا بیٹھے گا ۔ دوسری جانب انڈیا کے بغیر اپنے رزق روٹی کو ناممکن سمجھنے والے اور مودی کے بے حس مجسمے پر ایواڈز کے چڑھاوے چڑھانے والے اسلامی ممالک اس کی نفرت بھری چتا کی راکھ سے تجارتی سکے ٹٹولتے پھریں گے ۔مگر اس’ راجہ گدھ ‘ کی ’اَرتھی‘ سے سوائے باردو کی بوکے کچھ نہیں ملے گا۔

اندھیر نگری کی بھی آخر کوئی حد تو ہوتی ہے ۔ 
 یاد رکھیے ! اگر بھارت سے مفادات کی وجہ سے دنیا نے حق بات کہنے سے گریز کیا تو دنیا کے ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی ،فیصلہ آپ کا آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ تیسری بڑی عالمی جنگ یا صرف کشمیر کی خود مختاری اور آزادی ؟ یہ بات پوری دنیا کوبہرحال ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وقت کی آواز کو نہ سمجھنے والے صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں ۔

آج بھارت سرکار کے حکم سے کشمیر میں پانی بجلی ، خوراک حتیٰ کہ بچوں کا دودھ تک بند کیا جاچکا ہے ۔ ایک امتحان ہے گزر جائے گا مگر برسوں سے ستائے ہوئے انسانوں کے صبرکا پیمانہ اور انتقام کا لاوا اگر اچھل پڑاتو وہ کچھ ہوجائے گا ، جو کسی کے وہم و گماں میں نہیں ہوگا ۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگرخدانخواستہ دو جوہری طاقتوں کا ٹکراوٴ ہوگیا تو بہت بڑا انسانی سانحہ وقوع پذیر ہوجائے گا۔ اس کااصل مجرم کون ہوگا ؟یہ سوال تاحشر دنیا کے منصفوں کے گریبان پھاڑتا رہے گا ،منھ نوچتا رہے گا، مگر شاید کبھی اپنا جواب نہیں لے پائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

masla Kashmir, Bharti jangi junoon, nataij aur sefarshat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.