متوازی معیشت اور منی لانڈرنگ کا گھن

ایک اندازے کے مطابق کراچی سالانہ 100 ارب ڈالر کی دولت پیدا کرتا ہے‘ اس دولت میں سیاستدان‘سرمایہ کار‘صنعتکار‘ جاگیردار‘ وڈیرے‘تاجر‘ بیورو کریسی اورانڈر ورلڈ سب مستفید ہوتے ہیں۔

منگل 25 ستمبر 2018

matawazi maeeshat aur money laundering ka ghinn
شہزاد چغتائی
ایک اندازے کے مطابق کراچی سالانہ 100 ارب ڈالر کی دولت پیدا کرتا ہے‘ اس دولت میں سیاستدان‘سرمایہ کار‘صنعتکار‘ جاگیردار‘ وڈیرے‘تاجر‘ بیورو کریسی اورانڈر ورلڈ سب مستفید ہوتے ہیں۔ڈالروں اور دیگر غیر ملکی کرنسی کا لین دین بھی کراچی میں ہوتاہے۔ ڈالروں‘ پونڈ اور یورو کی سب سے زیادہ خرید وفروخت میگا سٹی میں ہوتی ہے۔

لڑکھڑاتی اورگرتی پڑتی اسٹاک مارکیٹ کی مالیت اب بھی 86 ارب روپے ہے‘ جہاں روز دولت کا تماشہ ہوتاہے‘ بڑے بڑے بروکر اسٹاک مارکیٹ گراتے ہیںاوپر لے جاتے ہیں۔ اوپن سٹہ اور جوا ہوتاہے‘ جس میں غیرملکی سرمایہ کار اور مقامی کھلاڑی کردار ادا کرتے ہیں۔ کراچی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی مالیت بھی کئی ہزار ارب ڈالر ہے‘ صرف کے ڈی اے میں یومیہ جائیداد کی 5 ہزار فائلوںکا لین دین ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

واٹر مافیا سالانہ ایک ارب ڈالرکا پانی کی غیر قانونی خرید وفروخت کرتی ہے۔ ڈرگ مافیا‘ لینڈ مافیا‘ انڈر ورلڈ‘ بھتہ مافیا کے اپنے الگ الگ کھیل ہیں۔ کرپشن اور سیاست کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے‘ عروس البلاد سے ماہانہ کئی سو ارب کا بھتہ بھی وصول کیا جاتاہے‘ جعلی ادویات‘ جعلی الیکٹرانک اشیاءکا دھندہ الگ ہے۔ شام کو کراچی سے جو پروازیں دبئی اورلندن جاتی ہیںوہ ڈالروں‘ پونڈ اور غیر ملکی کرنسی سے بھری ہوتی ہیں۔

دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں‘ جہاں پاکستانیوں کی جائیدادیں‘ سپر اسٹور‘ ہوٹل اور ر یسٹورنٹ نہ ہوں۔ بیرون ملک مقیم 10 لاکھ سے زائد پاکستانی اگر 19 ارب ڈالر سالانہ پاکستان بھیجتے ہیں تو پاکستان سے بیرون ملک بھجوائی جانے والی رقوم 19 ارب ڈالر سالانہ سے بہت زیادہ ہے‘جو ملک کوکھوکھلا کررہی ہے۔ اسٹیٹ بنک نے گزشتہ دنوں پاکستان سے ڈالرا ور پونڈ بیرون ملک لے جانے پرپابندی لگا دی تھی‘ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔


منی لانڈرنگ پاکستان کو گھن کی طرح کھارہی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کا یہ کریڈٹ تھا کہ انہوں نے ڈالر کی بلند پرواز اورتیل کے نرخوں کو 5 سال تک لگام دی تھی۔ اسحق ڈار کرنسی ڈیلروں سے بہت نالاں تھے اور ان کی مذموم سرگرمیوں کو روکناچاہتے تھے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس پانچ سالہ دور میں اسٹاک مارکیٹ 29 ہزار پوائنٹس سے 53 ہزارپوائنٹس تک گئی‘ لیکن نوازشریف حکومت جاتے ہی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے گری‘ ڈالر اوپرگیا اور تیل کے نرخ بڑھ گئے۔

اس وقت کسی کی سوئی بیرون ملک سے پاکستانیوں کی دولت لانے پر اٹک گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستانیوں کے 3 سو ارب ڈالر بیرون ملک میں ہیں جن میں سے 200 ارب ڈالر پاکستان واپس لائے جاسکتے ہیں۔ اس دوران پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں اور وزارت خزانہ‘ ایف بی آر‘ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن اورایف آئی اے نے ہاتھ کھڑے کردئیے وہ ممالک جہاں پاکستانیوں کے اثاثے ہیں‘ انہوں نے معلومات دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔

منی لانڈرنگ اسیکنڈل اب پانامہ طرز کا کیس بن گیا ہے‘ لیکن پانامہ کی طرح تحقیقاتی اداروں کو اس کیس میں کچھ ملنے کا امکان نہیں۔ پانامہ میں کچھ ثابت نہیں ہوا‘ محض شریف فیملی کی کردار کشی کی گئی۔ اب عدالت کہتی ہے کسی کی کردارکشی نہ ہو‘ ایک فیملی کا سیاسی کیرئیر داﺅ پرلگانے کے بعد عدالت کو ہوش آیا ہے۔ پیپلزپارٹی کہہ رہی ہے منی لانڈرنگ اسیکنڈل میں آصف علی زرداری فیملی کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ 100 ارب کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے‘ جس کے ثبوت مل گئے۔ اب وفاقی کابینہ نے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے کمیٹی بنادی ہے اور یہ ٹاسک وزارت داخلہ کے سپرد کردیا گیا ہے جبکہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے مربوط قانون نافذ کیا جائے گا۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے انکار کردیا‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس سے پہلے22 بار جا چکا ہے اور 49ءسے کشکول لئے کھڑا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک 68 سال سے قرضوں پر چل رہا ہے اور شاید آئندہ بھی چلے مگر اب معیشت آکسیجن ٹینٹ میں چلی گئی ہے اور لائف سپورٹ پر ہے۔

ا س بار امریکہ پاکستان لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس وقت نواز شریف حکومت پر بلاوجہ تنقید ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جولائی 2017ءسے جون2018ءتک ریکارڈ قرضے لئے گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دو سال کے دوران زیادہ ترقرضے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے حاصل کئے گئے‘ دو سال میں 65 فیصد قرضے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے کئے گئے اس دوران 27 فیصد قرضے ترقیاتی منصوبوں کے لئے حاصل کئے گئے۔

یہ وزیراعظم عمران خان کے سوال کا جواب بھی ہے۔ نواز شریف دور میں ساراقرض غیر ملکی قرضوں ا ور ترقیاتی منصوبوں کے لئے حاصل کئے گئے۔ حکمراں جماعت یہ شور مچا رہی ہے کہ نواز شریف آخری دور میں 8 ارب ڈالر قرض لیا‘ جس کے بعد مجموعی قرض 95 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ 8 ارب ڈالر چینی کمرشل بنکوں‘ سٹی بنک‘ دبئی بنک‘ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک سے حاصل کئے گئے۔

ملک کی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لئے ہر شخص دہائی دے رہا ہے لیکن پاکستان سودی قرضوں کے گورکھ دھندے میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر نے حالانکہ یہ عندیہ دیا کہ پاکستان دو سال میں کرنٹ اکاﺅنٹ کے خسارے سے نکل سکتا ہے لیکن یہ محض ایک خوش فہمی ہے۔ کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آئندہ کئی سالوں تک کرنٹ اکاﺅنٹ کے خسارے سے نجات ممکن نہیں۔ اس وقت حکومت ا یک جانب گیس بم گرانے کی تیاریاں کررہی ہے تو دوسری جانب پٹرول ‘ ڈیزل کی قیمت کم کردی گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

matawazi maeeshat aur money laundering ka ghinn is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.