سیاستدانوں کے علاوہ بھی احتساب کا مطالبہ

وفاقی حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کی مصالحت کی پیشکش مسترد کئے جانے اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے عدم تعاون کے بعد پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں

جمعرات 15 نومبر 2018

sayasatdano ke ilawa bhi ehatasab ka mutalba

شہزاد چغتائی

وفاقی حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کی مصالحت کی پیشکش مسترد کئے جانے اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے عدم تعاون کے بعد پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں ، اس دوران جب سندھ میں گورنر راج کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے وفاق کی جانب سے کسی غیر جمہوری اقدام کے خلاف یہ جنگ تنہا لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس کے ساتھ خوابوں کے معمر شہزادے منظوروسان نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ اورپیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کی نوید بھی سنادی ہے ۔ منظوروسان کسی بڑی تبدیلی کے جواب میں پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کی خبر ایک ایسے موقع پر سنارہے ہیں جب پیپلز پارٹی سیاسی تنہائی کاشکار ہے۔ اب مسلم لیگ، اے این پی، مولانا فضل الرحمن سمیت کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ نے خود پیپلز پارٹی سے فاصلے بڑھا لئے لیکن ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی نے دھتکارا اورتکبر سے کہا کہ سند ھ اسمبلی میںہماری اکثریت ہے، ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔

اب آصف علی زرداری سندھ میں نیا اتحاد بنانے کیلئے کوشاں ہیں اورایم کیو ایم پر ڈورے ڈال رہے ہیں۔سابق صدر کو یہ فکر بھی دامن گیر ہے کہ سندھ کی پارلیمانی پارٹی میں نقب لگ سکتی ہے اورفارورڈ بلاک آسانی سے بن سکتا ہے۔ اس لئے وہ ناراض جیالوں کو منانے کے مشن پر نکلے ہیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی کی منی لانڈرنگ کیس سے جان نہیںچھوٹ رہی۔ منگل کو بھی سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور عدالت میںپیش ہوئے جہاں بنکنگ کورٹ سے ان کی ضمانت ہوگئی اور مفرور ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے۔ آصف علی زرداری فریال تالپور کی ضمانت میں 10 دسمبر تک توسیع کی گئی۔ عدالت آمد کے موقع پرآصف علی زرداری ہشاش بشاش تھے۔ آصف زرداری فریال تالپور کے بعد تاخیر سے الگ پہنچے اورحاضری رجسٹر پر دستخط کئے بغیر چلے گئے۔ جس پرجج نے کہا کہ ان کی حاضری نہیں لگی جج کے ریمارکس کے بعد آصف علی زرداری کو واپس بلایا گیا اورانہوں نے باقاعدہ حاضری لگائی ۔ آصف زرداری آخری بار 25 ستمبر کوبینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے تھے ۔ سابق صدر کی صاحبزادی بختاور والد کی منی لانڈرنگ کیس میں پیشی پربرہم ہوگئیں اور انہوں نے سوال داغا کہ کیا احتساب سیاستدانوں کا ہوناچاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آصف علی زرداری عدالت جاتے ہیں بختاور یہ سوال ضرور دریافت کرتی ہیں اوربار باریہ کہتی ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوتے۔ سندھ کی دونوں جماعتوں پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیاجارہا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم کے 726افراد کو نوٹس جا ری کئے گئے جبکہ حکومت سندھ سے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات کی گئی ہیں جن میں 5سال کے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کا حساب شامل ہے ۔ وفاقی وزیراطلاعات ونشریات نے حکومت سندھ سے 24 ہزار ارب روپے کے اخراجات کا حساب مانگا ہے اس دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر نسیم فروغ بھی منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوگئے اوران پر 2لاکھ 68ہزار روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ فروغ نسیم کے ساتھ ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول بھی پیش ہوئے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بارے میں وفاقی وزیر شیخ رشید حسب عادت پیش گوئی کرتے رہتے ہیں ، ہفتہ کو کراچی میں بعض چینلوں نے سابق صدر کی گرفتاری کی افواہ اڑا بھی دی کہ ایف آئی اے نے انہیںتحویل میں لے لیا ہے۔ مگر بعد میں اس کی تصدیق نہ ہوئی،اور آصف علی زرداری کو گرفتارکرنا گویا مذاق بن گیا ہے۔ اب شیخ رشید کے بعد سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق میدان میں آگئے انہوں نے کہا کہ میں نے بھیانک خواب دیکھ لیا ہے جس کے بارے میں خوابوں کے معمر شہزادے اورآصف علی زرداری کے دست راست منظور وسان کو بتاﺅں گا۔ اس دوران جب سندھ میں گورنر راج جیسی باتیں دہرائی جا رہی ہیں،باخبر حلقے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی بہانے سندھ کی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کرنے کی تاک میں ہے جس کے باعث سندھ کا سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے۔ یہ حلقے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی حالیہ لڑائی کو جمہوریت کےلئے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ فواد چودھری نے کہاکہ سندھ میں غنڈہ راج ہے اور یہ طرز حکمرانی نہیں چلے گی۔ ان کا خیال تھا کہ سندھ کی حکومت آکسیجن ٹینٹ میں ہے اور وفاق تعاون ختم کر دے تو یہ مشکلات سے دوچار ہو جائے گی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کےلئے تحریک انصاف کی پالیسی کا اعلان بھی کر دیا اور کہاکہ دونوں جماعتوں کے کرپٹ افراد کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔

سیاسی حلقوں میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ وزیر اطلاعات نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کیوں کھولا۔ حقیقت یہ ہے کہ فواد چودھری نے سابق صدر کو سخت پیغام دیا اور ان کی مفاہمت کی پیشکش ٹھکرا دی۔ فواد چودھری کے دھواں دھار خطاب کے بعد یہ سوال بھی سامنے آیا کہ سندھ میں کون سا راج چل رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ میں تمام جمہوری اور آئینی اصولوں کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے‘ گڈ گورننس سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ سندھ دیہی کے حکمرانوں نے سندھ شہری پر روزگار کے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ نئی بھرتی صرف اندرون سندھ سے ہو رہی ہے‘ پبلک سروس کمیشن کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سندھ کے شہروں کو کوٹہ سسٹم کے تحت 40 فیصد نوکریاں نہیں دی جا رہیں۔ سندھ کا بجٹ 1400 ارب روپے ہے‘ 10 سال سے صوبہ اضلاع کو ان کے حصے کے فنڈز نہیں دے رہا ،سارے فنڈز ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ کراچی میں باخبر حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان کس بات پر اختلافات ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سابق صدر آصف علی زرداری کے بیانات کے بعد تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت کو فارغ کرنے کا اعلان کیا اور پھر سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر مصالحت کی پیشکش کر دی۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ حکومت آصف علی زرداری کی پسپائی پر شیر ہو گئی اور فواد چودھری نے پیپلز پارٹی کو روند کر رکھ دیا۔ فواد چودھری کی مہم جوئی کے بعد حکومت سندھ اور وفاق میں بھی تلخیاں بڑھ گئیں‘ 1400 ارب روپے سالانہ کے وسائل خرچ کرنے والے اور ایک پائی کا حساب نہ دینے والے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ایک بار پھر وفاق پر برس پڑے اور سندھ کا حصہ نہ دینے پر غم و غصے کا اظہار کرنے لگے۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعظم کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں عمران خان نے وزیراعلیٰ سندھ کو کئی مراعات دےدی تھیں جس پر وزیراعلیٰ بہت خوش تھے اور عمران خان کے گن گاتے تھے لیکن اب عمران خان کی حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کے دورہ چین کو بھی ناکام قرار دیدیا اور کہا ہے کہ وزیراعظم وہی تقاریر کر رہے ہیں جو دھرنے میں کرتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان افہام و تفہیم ختم ہو گئی۔ خورشید شاہ نے کہاکہ ہم جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں لیکن ایک شخص نظام کو ڈسٹرب کر رہا ہے۔ ان کا اشارہ فواد چودھری کی جانب تھا۔ فواد چودھری کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماءڈاکٹر فاروق ستار بھی حکومت پر برس پڑے اور انہوں نے بھی 1200 ارب روپے کا حساب مانگ لیا۔ دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری بھی ڈٹ گئے اور انہوں نے اپنی گرفتاری کو سیاستدانوں کا حسن قرار دےدیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خواہش بھی ظاہر کر دی کہ وہ پنجاب سے گرفتار ہو کر مقبول ہونا چاہتے ہیں۔ فالودے والے کے اکاﺅنٹ کا ذکر کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہاکہ میں نے تو 40‘ 50 سال سے فالودہ نہیں کھایا ہے‘ پکڑا تو وہی جائے گا جس کے اکاﺅنٹ سے پیسے نکل رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sayasatdano ke ilawa bhi ehatasab ka mutalba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.