تمہیں یاد ہو کہ نہ ہو

منگل 11 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

قرضے چڑھا گئے، کھا گئے اور ملک کی ساری دولت لوٹ کر باہر لے گئے کی مسلسل رٹ اور گردان لگا کر اپنی نالائقیاں،نا اہلیاں اور ناکامیاں چھپانے والے کٹھ پتلی حکمرانوں کی اندھی تقلید کرنے والے انصافی یا یوتھیئے زرا دھیان سے مذکورہ تحریر پڑھیں یہ کالم ان ہی لیئے بطورِ خاص ہے کہ شائد پڑھ کر انہیں اصل حقائق سے آگاہی یا ادراق ہوسکے اور ان کی عقل تھوڑی سے اپنے ٹھکانے پر آ جائے۔

 
اکتیس اگست دو ہزار اٹھارہ کو وزیرِا عظم عمران خان کی موجودگی میں سینٹ میں وزارت خزانہ نے تحریری جواب میں نے بتایا تھا کہ ''نواز شریف حکومت نے اپنی پانچ سالہ حکومت کے دوران بیالیس ارب ڈالر کے قرضے لیے اور ستر ارب ڈالر کے قرضے عالمی مالیاتی اداروں کو واپس کیئے''۔ 
واضع رہے اس دوران دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے آپریشن ضرب عضب کی مد میں ہر سال سوارب روپے دفاعی اداروں کو علیحدہ دیئے گئے جس باعث آج پاکستان کے عوام آئے روز کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں اور دہشت گردی سے محفوظ ہیں۔

(جاری ہے)

لاہور،پنڈی میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین منصونے اور بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگائے گئے جن سے دس ہزار پانچ سو میگا واٹ سے زائد بجلی واپڈا کے سسٹم میں داخل ہوئی اور اندھیروں میں ڈوبے ملک بھر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ ان میں بھکی پاور پلانٹ،بلوکی پاور پلانٹ،حویلی بہادر شاہ گیس پلانٹ،پنجاب پاور تھرمل سنگل فیز،ساہیوال کول پاور پلانٹ، لال سوہانرا بہاو لپور پاور پلانٹ اور قائدِا عظم سولر پاور پلانٹ قابلِ ذکر ہیں۔

چوبیس ارب کی لاگت سے کراچی حیدر آباد موٹروے کی تعمیر، سیالکوٹ لاہور موٹروے، برھان تا حویلیاں موٹر وے، سکھر ملتان اور دیگر کئی موٹرویز اور ٹنلز کے کام کا آغاز ہوا جن کی فہرست علیحدہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی طور پر سترہ سو کلومیٹر طویل موٹرویز کے کام کا آغاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ صرف سرگودھا میں گیارہ ارب روپے مالیت کے گیس کے منصوبے کا آغاز بھی کیا گیا اور منڈی بہاؤالدین، ملکوال میں بچیس ارب روپے کے ترقیاقی منصوبوں، ملتان میں چلڈرن ہسپتال کے توسیعی منصوبے اور نشتر ہسپتال میں برن یونٹ کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا۔

مسلم لیگ ن کے سابقہ دورِ حکومت کے یہ وہ چند ایک منصوبے ہیں جن کے مکمل ہونے کے بعد اب حکومتِ عمرانیہ ان پر اپنے نام کی تختیاں لگا کر اپنی بدترین ناکامیاں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ 
اس کے علاوہ ملک بھر میں اوور ہیڈ برج اور لا تعدادسڑکوں کے جال بچھائے گئے، اسکول، یونیورسٹیاں اور ہسپتال تعمیر کیے گئے۔ صوبہ پنجاب میں دہی روڈز پرواگرام کے تحت تین ہزار تین سو ساٹھ ملین کی خطیر رقم سے تین سو چالیس کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر اور بحالی کا کام بھی شروع کیا گیا۔

صوبہِ پنجاب کو پنجاب کو اکیس ارب پچاس کروڑ کا ایسا بہترین انفراسٹکچر دیا گیا کہ نواز شریف اور مسلم ن کے بد ترین سیاسی مخالفین بھی تیزی سے ترقی کرتے پاکستان بلخصوص صوبہِ پنجاب کی تعریف کیئے نہ رہ سکے۔ بلکہ ایک وقت میں صوبہِ سندھ اور خیبر پختون خواہ کے عوام نے شہباز شریف کو اپنے اپنے صوبوں کے لیئے ادھار پر مانگنا شروع کر دیا تھا۔

 امتیازی نمبروں سے پاس پونے والے طالب علموں کے لیئے لیپ ٹاپ اسکیم،تمام صوبوں کے طالب علموں کے لیئے ساڑھے تقریباً اٹھارہ ارب روپے کی ساڑھے تین لاکھ سے زائد اسکالر شپس، پوزیشن ہولڈرز طلبہ کو بیرون ممالک تعلیمی دورے کروائے گئے،اڑھائی لاکھ نئے اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے گئے،دانش اسکولوں کے زریعے چھہ لاکھ بچیوں کو ماہانہ وظائف دیئے گئے اور دیگر نوجوانوں کے لیئے آسان اقساط پر کاروباری قرضے دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

لیکن سب سے اہم بات یہ کہ اس سب کے باوجود بجٹ خسارا آٹھ اشاریہ دو سے کم ہو کر پانچ اشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اب جو انصافی یا یوتھیئے یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ تمام منصوبوں کے لیئے پیسے نہیں بلکہ تھوک درکار ہونی چاہیئے تھی وہ پہلے اپنے دماغ کا معائنہ کروا لیں۔ جہاں تک یہ بات کہ سابقہ حکمران سب کچھ لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے یا کھا گئے تو کیا کوئی انصافی یہ بتا کر میری معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے کہ پاکستان کی کون سے عدالت نے نواز شریف یا اس کے کسی بھی وزیر یا اس وقت کے حکومتی عہدیدار کو مالی کرپشن یا مذکورہ میگا منصوبوں میں کسی بھی قسم کا کمیشن کھانے کا جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی ہو، میں اس انصافی کا بے حد ممنون و مشکور رہوں گا۔

 
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس طرح جب پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو چکا تھا تو دوسری جانب عمران خان کی قیادت میں اسپانسرڈ کنٹینر پر ڈرامہ بازی اور اسلام آباد میں دھرنے دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی تھی پاکستان میں تعمیر و ترقی کے اس عمل کو کسی نہ کسی طریقے سے روکا جا سکے اور ترقی کرتے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اس سازش میں عمران خان کے سیاسی کزن طاہر القادری بھی ان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے تھے۔

 
اسی مقصد کے تحت ملک کے مختلف بڑے شہروں کو لاک ڈاون کیا گیا اور انتخابات میں دھاندلی کے نام پر پورے ملک کو یرغمال بنا کر رکھ دیا گیا۔ جو الگ سے ایک افسوسناک داستان ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف حکومت کو بلیک میل اور ناکام بنانے کے لیئے کبھی ڈان لیکس کا سہارا لیا گیا اور کبھی ختمِ نبوت کے حلف نامے میں عبارت کی تبدیلی کے حوالے سے مولوی خادم حسین رضوی کا فیض آباد میں دھرنا کروا کر ملکی پہیہ جام کرنے کی کوشش کروائی گئی۔

جس کے کارکنوں کو بعد میں ہزار ہزار روپیہ نقد انعام سے نوازا گیا اور مولوی خادم حسین رضوی کوکروڑوں روپے دیئے گئے۔ 
یہ ساری سازشیں قومی میڈیا اور حساس اداروں کے ریکارڈ میں موجود ہیں. یوں کبھی اورنج ٹرین رکوانے کے لیئے عدالتوں سے سٹے آرڈر بھی لیا گیا لیکن ان رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود نواز شریف کی قیادت میں ترقی کا سفر جاری رہا۔

ترقی کرتے پاکستان کو پیچھے دھکیلنے کی یہ ساری کہانی انصافیوں اور یوتھیوں کو یاد ہو کہ نہ ہو لیکن پٹواریوں کو یاد ہے زرا زرا۔ 
مذکورہ کتھا بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جو نادان انصافی یا یوتھیئے ابھی تک یہ سمجھتے آئے ہیں کہ پکوڑے محض تھوک سے تلے جا سکتے ہیں،ایسا ممکن نہیں اور ان کو بتائی گئی، کھا گئے،لوٹ کر لیئے گئے اور ن لیگی قرضہ چڑھا گئے، جیسی جھوٹ پر مبنی کہانیوں اور داستانوں کو بے نقاب کیا جا سکے اور ان تک اصل حقائق پہنچ سکیں، جس تک ان کی قیادت نے اپنے ووٹ لینے کے چکر میں انہیں نہیں پہنچنے دیا۔

 
مسلم لیگ ن کے سابقہ دورِ حکومت کے حوالے سے بیان کردہ چند منصوبے اور پراجیکٹ اب مکمل ہونے کے بعد پورے طریقے سے فعال بھی ہیں۔ یہ وہ چند حقائق ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں جو قرضے لیئے گئے وہ کہاں اور کس مَد میں خرچ ہوئے ہیں اورکتنا قرضہ واپس کیا گیا؟۔ پی ٹی آئی کے لیڈران جو ابھی تک خزانہ خالی چھوڑ جانے کی گردان میں محو ہیں اور قوم کو ابھی تک بے وقوف بنا کر اپنا ٹائم پاس کر رہے ہیں ان کے سپورٹران اور چاہنے والوں کی خدمت میں ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ جب نواز شریف کو ”نا اہل“ کیا گیا تھا تو اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے زخائر چوبیس ارب ڈالرز موجود تھے اور اب تبدیلی والے”نیا پاکستان“ میں تاریخی ریکارڈ توڑ قرضے اور غیر ملکی نقد امداد لینے کے باوجود قومی خزانے میں کل سترہ ارب ڈالرز کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے زخائر موجود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :