مقامی حکومتی نظام پر ایک نظر ! جمہوری تقاضے ۔قسط نمبر4

پیر 16 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستان ایک جمہوری وفاقی ریاست ہے ۔وفاقیت کی اصل روح ،تقسیم اختیارات اور خود مختاری کے احترام سے مشروط ہوتی ہے مگر پاکستان میں اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے نچلی سطح پر اختیارات کی موثر منتقلی ممکن نہیں ہوسکی جو وفاقیت کی روح کی منافی ہے ۔ کسی بھی جمہوری ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں مگر پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کا برُی طرح سے استحصال ہوا ہے ۔

بدقسمتی سے یہ استحصال سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دور حکومت میں زیادہ ہوا ہے ۔مرکز ،صوبوں اور اضلاع کی سطح پر اختیارات کی جنگ ہمیشہ سے بنیادی مسئلہ رہی ہے یہ محض سیاسی نہیں انتظامی معاملات میں بھی اختیارات کی تقسیم نے کئی سطح پر پیچیدگیاں پیدا کی ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمارا آئین واضح طور پر لوکل گورنمنٹ کی نوعیت ،نمائندگی کا فریم ورک اور بنیادی خدوکال بیان کرتاہے ۔

آئین پاکستان1973 کے آرٹیکل 32 ”ریاست مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی جن میں اپنے علاقہ کے منتخب نمائندے ہوں گے اور ان میں کسانوں ،مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی ۔ اسی طرح آرٹیکل 140 اے ”ہر صوبہ قانون کے مطابق ایک لوکل گورنمنٹ سسٹم بنائے گا اور مقامی حکومتوں کو سیاسی ،انتظامی اور مالیاتی اختیارات منتقل کرے گا “۔

دستور پاکستان کے مطابق مقامی حکومتوں کوسیاسی ،انتظامی اور مالی خود مختاری دینا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن مجموعی طور پر چاروں صوبائی حکومتوں نے اس شق کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ مقامی اداروں کو مضبوط بنا کر اصل اختیارات ان کودے دیں ۔یہی وجہ ہے کہ اصل مقامی اختیارات سلب کرکے صوبائی حکومتیں اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے ۔

اگر ہم اب تک قوانین کا جائزہ لیں تو 1947 میں ڈسٹرکٹ بورڈ ز،میونسپل ایڈمنسٹریشن ایکٹ ،پنچایت ایکٹ اورریگولیشن ایکٹ موجود تھا مگر انتخابات نہیں ہوئے ۔جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کاقانون مجریہ 1959 متعارف کروایا اور د و دفعہ انتخابات بھی ہوئے ۔جب ایوب خان نے یہ قانون متعارف کروایا اس وقت سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں ،مارشل لا نظام تھا اور پھر اسے سیاسی جماعتوں کے مقابل نئی سیاسی قیادت کو لانا تھا اس لئے غیر سیاسی بنیادوں پر بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات کروائے گئے اور بعدازاں ان منتخب BD کونسلرز کو کنونشن مسلم لیگ کا رکن بنا لیا تو ایوب خان کا مقصد بھی اپنے اقتدار کو طول دینا تھا نہ کہ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنا اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ۔

1960 میں الیکٹرول کالج آرڈیننس بھی نافذ کیا گیا ۔1972 میں پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1972 اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہی دور حکومت میں پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ1975 بنا مگر جمہوریت کے دعویداروں کے دور میں الیکشن نہیں ہوا ۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے تحت انتخابات ہوئے ۔ضیاء الحق کے مارشل لا میں بھی سیاسی جماعتوں کومقامی حکومتوں سے باہر رکھنا تھا اس لئے غیر سیاسی بنیادوں پر انتخابات کروائے گے ۔

ضیاء الحق کے بعد جمہوری سول حکومتیں آتی گئیں مگر نہ تو انہوں نے تسلسل سے انتخابات کرائے اور نہ ہی سیاسی وابستگی کا ایشو ابھرنے دیا ،کیونکہ انہیں خوف تھا کہ جسے پارٹی ٹکٹ نہ دیا وہ پارٹی سے ناراض ہوجائے گا،لہذا ان کا زور غیر پارٹی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد تھا ۔لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کے تحت ہی نوازشریف نے 1990-93 میں انتخابات کروائے ۔

1995 میں منظور احمد وٹو کے دورحکومت میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ ،سردار عارف نکئی کے دور میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1996 ، شہازشریف کی وزارات اعلی کے دور میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ1998 نافذکیا گیامگر اس دوران مقامی حکومتوں کے اتخابات نہیں ہوئے ۔جنرل(ر) پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کے تحت ملک میں ضلعی حکومتوں کا نظام نافذ کیا اور مرحلہ وار ملک گیر انتخابات کروائے ۔

اس نظام میں پہلی دفعہ مقامی حکومتوں کو کافی اختیارات دئیے گے تھے ۔2005 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ ترمیم 2005 کے تحت دوبارہ انتخابات ہوئے ۔جب جنرل مشرف نے بطور صدر اقتدار سنبھالا تو آئینی تحفظ کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کو اگست2009 تک تحفظ فراہم کردیا ۔2009 میں آئینی پابندی ختم ہوتے ہی بلوچستان حکومت نے2010 میں نیا قانون متعارف کروایاجو1979 اور 2001 کے نظاموں کے باہم ادغام سے بنایا گیا تھا ۔

2010 میں نافذ ہوا مگر انتخابات 2015 میں جاکر ہوئے ۔2008 میں جمہور ی حکومتیں برسر اقتدار آچکی تھیں مگر عملا ان کے اپنے صوبوں میں مقامی حکومتیں غیر منتخب ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے ہی چلائی جاتی رہیں ۔18 ویں ترمیم کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ ملک میں صوبائی حکومتیں اپنی اپنی سطح پر مقامی حکومتوں کا موثر نظام لائیں گی اور اختیارات کو گراس روٹ لیول تک تقسیم کریں گیں مگر بدقسمتی سے یہ ممکن نہیں ہوسکا ۔

ایک اور مسئلہ عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی یا انتظامی اداروں کو سیاسی نمائندوں یا اداروں کے مقابلے میں زیادہ بااختیار بنانا ہے ۔بیوروکریسی کو مضبوط بنا کر جمہوری عمل کوکمزور کیا جاتا رہا ہے ۔ پھر مختلف اتھارٹیزو کمپنیاں بنا کر بہت سے مقامی حکومتوں کے اختیارات اتھارٹیز کو منتقل کردئیے گے مثلا
گذشتہ دور حکومت میں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں 14 سے زائد اتھارٹیز بنائی گئیں جن میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی،پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی،پنجاب ریونیو اتھارٹی، پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی،پنجاب ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی،پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی،پنجاب میٹرو اتھارٹی،پنجاب دانش سکول اتھارٹی،لاہور رنگ روڈ اتھارٹی،لاہور والڈ سٹی اتھارٹی،لاہور ٹرانسپورٹ اتھارٹی،پنجاب کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ اتھارٹی،پنجاب فوڈ اتھارٹی،پنجاب پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی،لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر شامل ہیں۔

اسی طرح بہت سی کمپنیاں لاہور ٹرانسپورٹ ،صاف پانی کمپنی ، لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور دیگربنا کر صوبائی حکومت نے اختیارات بلاواسطہ یابلواسطہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ۔بیوروکریسی نے اس نظام میں اپنا تسلط بنایا ہوا ہے جو ہر نظام میں قائم رکھنے میں ابھی تک کامیاب ہے ۔ اگر پاکستان میں اب تک کے مختلف مقامی حکومتوں کے نظاموں کا جائز ہ لیں تو اختیارات کی مرکزیت نظر آئے گی ۔

اسی طرح لوکل گورنمنٹ ایکٹ بلوچستان 2010 میں سردار اسلم رئیسانی کے دور میں نافذہوا مگر الیکشن نہیں ہوا ۔ 2012 میں اے این پی کے دور میں کے پی میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 کے پی کے نافذ ہوا مگر اس کے تحت انتخابات نہیں ہوئے ۔
2013 میں نئی حکومتیں برسر اقتدار آئیں تو انہوں نے عدلیہ وسول سوسائٹی کے دباؤ پر منتخب حکومتوں کو بحال کرنے کے لئے اقدامات کئے ۔

2013 میں پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخواہ میں نئے قوانین بنائے گے ۔قانون سازی کا یہ عمل بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ۔سندھ حکومت نے1979 کا قانون بحال کردیا جس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا تو اسے منسوخ کرکے پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2011 نافذ کیا جومتنازعہ بنا رہا کہ2013 میں پھر قانون بنا مگر اس کی منظوری قائم مقام گورنر سے لی گئی اس عدالت میں چیلنج کیا گیا مگر اسی متنازعہ قانون کے تحت انتخابات منعقد ہوئے ۔

خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت انتخابات کروائے اوربظاہر اس میں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کی ایک حد تک کوشش کی گئی ۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں شہباز شریف نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013 کے تحت انتخابات کروائے ۔سندھ میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013 کے تحت انتخابات ہوئے ۔اسلام آباد کیپٹیل ٹیرٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 کے تحت اسلام آباد میں الیکشن ہوئے ۔

کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن رولز2015 کے تحت کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کا انعقاد ہوا مگر یہ جتنے بھی انتخابات ہوئے یہ سپریم کورٹ کے حکم اور سرزنش کے بعد ممکن ہوسکے ۔چاروں صوبوں کے لوکل گورنمنٹ قوانین میں اب تک کئی ترامیم ہوچکی ہیں سب سے زیادہ ترامیم پنجاب میں ہوئیں ۔تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیانظام بنایا ہے اس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کی طرف سے تنقید بھی ہورہی ہے مگر کچھ حلقے اس نظام کو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی طرف اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں ۔

پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نئے نظام کوشہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 اور پنجاب ویلج پنچائیت اینڈ نیبرہوڈ کونسل ایکٹ 2019 کے نام سے دو قوانین نافذکئے گے ہیں ۔شہری علاقوں کو 2017ء کی مردم شمارے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے میٹروپولیٹین کارپوریشنز، میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں، اور ٹاؤن کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیاہے۔

ایکٹ کے مطابق نئے نظام میں گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ساہیوال، بہاورلپور، ڈیرہ غازی خان اور لاہور کے دو اضلاع میں میٹروپولیٹین کارپوریشنز ہیں۔ یعنی صوبے میں کل نو میٹروپولیٹین کارپوریشنز بنیں گی۔پنجاب میں 138 تحصیل کونسلز بنائی گئی ہیں۔ماضی کے لگ بھگ تمام ماڈلوں میں دیہی آبادی کے لیے ضلع کونسلوں جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے ماڈل میں ضلعی حکومت کا تصور موجود تھا تاہم تحریک انصاف کے نافذکردہ بلدیاتی نظام میں ضلع کونسلز یا ضلعی حکومتیں موجود نہیں ہیں۔

نئے نظام کے تحت دیہی علاقوں کے لیے ریونیو حلقہ بندیاں استعمال کرتے ہوئے ویلج کونسلز اور تحصیل کونسلز متعارف کروائی گئی ہیں تاہم اچھمبے کی بات یہ ہے کہ ویلج کونسلز کا تحصیل کونسلز کے ساتھ کوئی انتظامی یا قانونی تعلق نہیں ہوگا۔نیبر ہوڈ کونسل ایک آزاد و خود مختار ادارہ ہوگا جس کے ارکان کی تعداد پانچ سے آٹھ ہوگی جبکہ ویلج کونسل کے ممبران کی تعداد تین سے پانچ ہوگی۔

پنچائیت اور نیبرہوڈ کونسل کے الیکشن غیر جماعتی ہونگیں ۔اس نظام پر اپوزیشن کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کو بھی شدید تحفظات ہیں کیونکہ3281 یونین کونسلوں اور 35 ضلع کونسلوں کو ختم کرکے ان کی جگہ 22 ہزار سے زائد نیبرہڈ اور ویلج کونسلز کے انتخابات کرانے سے بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی دشمنیاں بڑھیں گی اور معاشرتی بیگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔

مقامی حکومتوں کی نگرانی کے لیے افسر شاہی پر مشتمل انسپکٹریٹ آف لوکل گورنمنٹ بنایا جائے گا جس کا سربراہ انسپکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ ہو گا۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹ کمیشن بھی قائم ہو گا جس میں افسر شاہی اور ماہرین کی اکثریت ہو گی۔ ماہرین کے لیے 20 سال کے انتظامی تجربے اور بلدیات کے متعلق وسیع علم رکھنے کی شرائط رکھی گئی ہیں جس کے تحت زیادہ تر ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہی مقرر ہوں گے۔

ہر ضلع میں کم از کم 15 افراد پر مشتمل ایک پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کمیشن قائم ہو گا جس کا سربراہ مقامی حکومت کا چیف آفیسر ہو گا۔ جبکہ ایک ماہر سول انجنئیر بھی اس کا ممبر ہو گا جبکہ باقی ارکان کے بارے میں نیا قانون خاموش ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مقامی سطح پر تمام تعمیراتی کام کی منصوبہ بندی اور نگرانی اس کمیشن کے پاس ہو گی۔ جس کی سر براہی ایک بیورو کریٹ کے پاس ہو گی۔

اس نئے نظام میں نگرانی، پلاننگ اور دیگر اہم امور میں افسر شاہی اور ٹیکنو کریٹس کا کردار بڑھایا گیا ہے۔اسی طرح مقامی منتخب نمائندوں کے جمہوری حقوق کو محدود کیا گیا ہے اور چیف آفیسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ممبر کو غیر مناسب خیال کرتے ہوئے اس کی شکایت صوبائی حکومت سے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ فیصلہ چیف آفیسر نے کرنا ہے۔

کہ کیا مناسب ہے اور کیاغیر مناسب ہے۔ مقامی حکومتوں کو معطل کرنے اور انہیں برخاست کرنے کے حوالے سے پنجاب کی صوبائی حکومت کو فیصلہ کن اختیارات سونپے گئے ہیں۔ جس کے بعد یہ آسان ہو جائے گا کہ حزب مخالف سے تعلق رکھنے والی کونسلوں سے بہتر طریقے سے نبٹا جا سکے۔نئے نظام میں منتخب میئرز کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوں گے جتنے کہ جنرل (ر) مشرف کی طرف سے متعارف کروائے ضلع حکومتوں کے نظام میں ضلعی ناظم کے پاس تھے۔

نئے نظام کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انتظامی بنیادوں پر تو ضلعی نظام موجود رہے گا۔ مگر ضلعی حکومت موجود نہیں ہو گی یعنی ضلع کونسل کے تمام اختیارات اب ضلعی افسر شاہی استعمال کرے گی۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر مقامی حکومتوں کے اثر سے مکمل طور پر آزاد ہوں گے اور ضلعی سطح پر مکمل حکمرانی افسر شاہی کی ہو گی۔ اس نظام کے تحت DMG گروپ (ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ) کی اجارہ داری میں اضافہ ہو گا۔

افسر شاہی نے کمال خوبصورتی سے ضلعی انتظامیہ کو مقامی حکومتوں کے نظام سے الگ کر دیا ہے۔ اگر اس اقدام کا بنیادی مقصد تحصیلوں کو مضبوط کرنا ہے تو پھر ضلعی ڈھانچے کو ختم کر کے تحصیل کو بنیادی انتظامی یونٹ بنایا جائے۔اسی طرح یہی علاقوں میں پنچایت کے نظام کو تحصیل کونسل سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے جس سے انتظامی معاملات میں ابہام پیدا ہو گا۔

یہ درست ہے کہ مقامی حکومتوں کے نئے نظام میں نچلی سطح پر پہلے سے زائد مالیاتی وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے پاس پہلے سے زیادہ مالی وسائل موجود ہوں گے جس سے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ مگر نئے نظام میں اب بھی بہت سارے ابہام اور خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔اسی طرح بلوچستان بلدیاتی ایکٹ 2019 ترامیم کے بعد نافذ العمل ہے ۔

نئے قانون میں ویلج کونسل کو شامل کیا گیا ہے اور حلقہ بندیوں کے بعد ویلج کونسل کی کم ازکم آبادی 8ہزار سے لے کر زیادہ سے زیادہ 20ہزار تک ہو گی۔ ویلج کونسل کے ممبران کی تعداد 4یا 5ہوگی اور جن میں2 جنرل جبکہ خاتون، یوتھ، کسان اور اقلیتی(جہاں ہو) ممبر ہو گا جبکہ جنرل کونسلرز میں زیادہ ووٹ لینے والا ویلج ناظم بھی ہو گا اورتحصیل کونسل کا ممبر بھی تناسب کے حساب سے ویلج کونسل سے زیادہ ووٹ لینے والی خواتین مخصوص نشست پر تحصیل ممبر منتخب ہوں گی۔

تحصیل ناظم تحصیل لوکل گورنمنٹ کے سربراہ جبکہ ویلج ناظم تحصیل کونسل کے ممبر ہوں گے۔نئے نظام کے تحت ویلج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر جبکہ تحصیل اور میونسپل سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔تحصیل لوکل گورنمنٹ کا ناظم پارٹی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے گا جبکہ ویلج کونسل کے الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔

نئے بلدیاتی بل کے مطابق مقامی حکومتوں کی مدت چار سال ہو گی۔ شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل اور دیہات میں تحصیل اور ویلیج کونسل ہوگی۔ویلج کونسل اور محلہ کونسل میں زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین ہوگا۔ بلدیاتی اداروں میں ایک سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو صوبوں کے بنائے ہوئے مقامی حکومتوں کے نظام آئین کے آرٹیکل 140 کی روح کے مطابق نہیں ہے۔

اس میں افسر شاہی اور صوبائی حکومت کی مداخلت بہت زیادہ ہے اور یہ جمہوری اقدار کے بھی منافی ہے ۔مقامی حکومتوں کا نظام بنیادی طور پر عوام کی ”حکومت خود اختیاری “ کی ابتدائی شکل ہوتا ہے مگر اب تک ان اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور نظام میں عوام کو شراکت داری کا صحیح معنوں میں موقع نہیں دیا گیا ۔مقامی حکومتوں کے نظام کو جمہوریت کی نرسری بھی کہاجاتا ہے مقامی سطح کی لیڈرشپ پیدا کرنے اور قیادتی حوالہ سے ان کی سیاسی تربیت کیلئے مقامی حکومتیں بنیادی حثیت رکھتی ہیں مگر پاکستان میں منتخب نمائندوں کی کپیسٹی بلڈنگ کے لئے تربیت کا فقدان بھی ایک اہم ایشو ہے جس پرآج تک ہمارے پالیسی سازوں نے توجہ نہیں دی ۔

اگر ہم ملک میں عوامی قیادت چاہتے ہیں تو وہ مقامی حکومتوں کے نظام سے ہی نکلے گی ۔بدقسمتی سے پاکستان میں متحرک سیاسی جماعتوں کے منشور میں مقامی حکومتوں کے نظام پر فوکس نہیں کیا گیا یا ان کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے ؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ آمریت کے دور میں بلدیاتی انتخابات کیوں کروائے جاتے ہیں ؟ اور کیا مقامی حکومتوں کا نظام اقتدار کو طول دینے کے لئے قائم کیا جاتا ہے یا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہی اصل مقصد ہوتا ہے ؟ جمہوری حکومتوں کی ترجیح میں مقامی حکومتوں یا اداروں کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح ہونی چاہئے ۔

مختلف حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں میں طاقتور لوگ اختیارات و فنڈز اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ۔ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ،قومی وصوبائی وزرا ،مشیران بھی اختیارات نیچے منتقل نہیں ہونے دیتے ۔اگر مقامی حکومتوں کے لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور فنڈز ان کو مل جاتے ہیں تو ممبران کو ترقیاتی فنڈ ز نہیں ملے گیں ۔اصولی طور پر فنڈز ملنے ہی مقامی حکومتوں کے منتخب عہدیدران کو چاہئے کیونکہ ممبران قومی اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے اسی طرح ممبران صوبائی اسمبلی کے اپنے طے شدہ کام ہیں مگر پاکستان میں مقامی حکومتیں یا ادارے سیاسی مقاصد ومصلحتوں کے بھینٹ چڑھتے رہے ہیں اور چڑھ رہے ہیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

جس طرح آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ نظم ونسق اور معاشرے کے نت نئی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں جب تک روزمرہ کے مسائل کو ابتدائی سطح پر ایڈریس نہیں کیا جائے گا ملک میں گڈ گورننس نہیں آسکتی ۔ضرورت سے زائد مرکز پسندی نے لوکل گورنمنٹ کا سارا مفہوم ہی گنوادیا ہے جب تک عوام کو ریلیف ان کے گھر کی دہلیز تک نہیں ملے گا تب تک عوام کا اعتماد نظام پر بڑھے گا نہیں ۔

صحیح مقامی جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرنا اشد ضروری ہے مقامی جمہوریت کے لئے آئینی و قانونی تحفظ ہو،شہریوں کو اپنے مقامی نمائندے منتخب کرنے کی سیاسی آزادی ہونی چاہئے ۔مقامی ،صوبائی اور قومی حکومتوں کے درمیان ایک تعاون و شراکت داری ہونی چاہئے ۔مقامی حکومتوں کو طے شدہ فریم ورک کے تحت مکمل سیاسی ،انتظامی و مالی اختیارات ملنے چاہئے ۔

تمام شہریوں کو اس قابل بنایا جانا چاہئے کہ وہ مقامی جمہوری عمل میں متحرک حصہ لے سکیں ۔جس آبادی کی مقامی حکومت خدمت کرتی ہے اسی آبادی کے سامنے مقامی حکومت کا احتساب بھی بہت ضروری ہے ۔مقامی فیصلہ سازی کا سارا عمل شفاف ہونا چاہئے اور چھان بین ہونی چاہئے تاکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم رہے ۔مقامی فیصلہ سازی کے عمل کو تمام آبادی کی سماجی ،مقامی ،ماحولیاتی اور تہذیبی ضرورتوں کا عکاس ہوناچاہئے ۔قومی معیار اور مقامی ترجیحات کے درمیان توازن کے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت و گڈ گورننس نہیں آسکتی ۔مقامی جمہوریت اور اچھی حکومت یقینی بنانے کے لئے مضبوط اور موثر جمہوری مقامی حکومت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :