17 جون , 14 خون !!!

پیر 17 جون 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

 جون 2014 کو وقوع پذیر ہونے والا  سانحہ ماڈل ٹاون پاکستان کی تاریخ کا انوکھا  واقعہ ہے , جس میں  پنجاب پولیس نے اس وقت کے حکمرانوں کی ایماء پر ریاستی دہشتگردی کی ایک بدترین مثال قائم کی ۔ سابقہ     دورِحکومت میں شہدائے ماڈل ٹاون کےلواحقین   کی حصولِ انصاف کی جدوجہد میں رکاوٹیں پیداکرنےکےلیے جو ہرممکن تاخیری حربہ آزمایا گیا , اس کی وجوہات توقابلِ فہم ہیں مگر    پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے    سےشہدائےماڈل ٹاون کےلواحقین کو یہ امید ہوچلی تھی کہ عمران خان وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کےبعد سانحہ ماڈل ٹاون کے لواحقین کو حسبِ وعدہ انصاف دلانےکےلیے راہ ہموارکریں گے۔

اگرچہ ہم جانتےہیں کہ انصاف مہیا کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

مگر کسی بھی مقدمے میں انصاف کے حصول کا دارومداراس بات پرہوتاہے کہ کسی بھی جرم کے اصل ذمہ داران کی نشاندہی کےلیے انتظامیہ نے صاف وشفاف اورغیرجانبدارانہ تحقیقات کےلیےمتاثرین سے کس حدتک تعاون کیا؟؟؟ افسوس کہ اس معاملے میں ہمارا فرسودہ نظام کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا ۔

  سانحہ ماڈل ٹاون کےتناظرمیں ایک سرسری جائزہ ہی یہ سمجھنے کےلیے کافی ہےکہ عمران خان کسں حد نظام میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتےہیں؟؟؟ پاکستان عوامی تحریک کا یہ دیرینہ مطالبہ رہاہےکہ سانحہ ماڈل ٹاون میں    ملوث بیوروکریٹس اور پولیس افسران کوبرطرف کیاجائےتاکہ ان کا شفاف ٹرائل ہوسکے ۔ بطوروزیراعظم عمران خان نےاگرچہ ڈاکٹرطاہرالقادری کوایسا کرنےکا یقین دلایاتھا مگرتاحال صورتحال جوں کی توں ہے ۔

حالات      یہ ہیں کہ ایک دن سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث  سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی وفاقی ٹیکس محتسب  کےعہدے سے برطرفی  کا حکم جاری ہوا تودوسرے دن ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے موصوف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کینسل کردیا ۔ عدالت عالیہ سے شکوہ تو بنتا ہےنا!!! کیا یہ شہدائے ماڈل ٹاون کے زخموں پر نمک پاشی نہیں ہے ؟؟؟ کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں شہید ہونےوالی خاتون تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد جب لاہولاہورہائیکورٹ سےانصاف مانگنےگئ توچارگھنٹےانتظارکےباوجودکوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ روتی ہوئی مایوس گھر واپس لوٹ گئ ۔

توبتائیےخان صاحب کہ آپ اس فرسودہ  نظام میں کتنی تبدیلی لاپائے ہیں ؟؟؟ کیا آپ کا ضمیرمطمئن ہے ؟؟؟ جبکہ سانحہ ماڈل ٹاون کے تین اہم کردار سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا بدستور وفاقی ٹیکس محتسب , میجرراعظم سلمان وفاقی سیکرٹری داخلہ جبکہ  سابق  ڈی سی او کیپٹن ر عثمان زکریا ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی تعینات ہیں۔  خیر چھوڑئیے جنابِ وزیراعظم اب توآپ سےبھی شکوہ کرنےکا دل نہیں کرتا کیونکہ آپ کی توواہ , واہ ہوگئ ہے نا جب سے نیب گرفتاریوں کا موسم آیا ہے , پھرتو کیا ہی کہنےکہ زرداری گرفتار , فریال تالپورگرفتار, بانی ایم کیوایم سے لندن پولیس کی جانب پوچھ گچھ !!! تالیاں , تالیاں بھئ سچی خان صاحب تسی چھا گئے او !!! آپ پرتعریفی کلمات کی برسات جوہورہی  ہے۔

گرفتاریاں نیب کرتی ہےاور واہ , واہ آپ کی ۔ سچ کہوں توگرفتاریوں کا موسم آنے پر میں بھی بہت خوش ہوں مگر بس یہ سوچ کراداس ہوجاتی ہوں کہ ابھی تک ریکوری صفرکیوں ؟؟؟ ماڈل ٹاون کیس کو دبانےکےلیےمتحرک پراسرار قوتوں پرخان صاحب آپ کا وزارتِ عظمیٰ جیسے طاقتورترین منصب پر فائز ہونےکےباوجودبس   کیوں نہیں چلتا ؟؟؟ میں نے توپہلےبھی کہا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کےکھرے بہت دور تک جاتےہیں ۔

اسی لیےتو سپریم کورٹ کی بنوائی ہوئی نئ تحقیقاتی جے آئی ٹی کوماتحت لاہورہائی کورٹ نےکام کرنے سے روک دیا ۔ بھئ یہ یہ عدالتِ عظمیٰ اور عدالت عالیہ بھی واقعی کمال ہیں نا!!! اب میں اس سےزیادہ اورکیا کہوں ؟؟؟ جبکہ تحقیقاتی جے آئی ٹی کی بحالی کےلیے حکومت پنجاب کی سپریم کورٹ میں دائرکردہ درخواست پرابھی صرف تاریخیں ہی مل رہی ہیں۔ ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ نیب گرفتاریوں کے  موسم کاجشن مناناچائیے اور مٹھائی بانٹنی چاہیے  یا ماڈل     ٹاون کیس کودبانےکےلیے پراسرار قوتوں کے   تاخیری حربوں پرماتم کرنا چاہیے ؟؟؟ کوئی تو سمجھادو !!!  دراصل بات یہ ہےکہ  سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز نواز شریف , شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ سے جب جے آئی ٹی نے انوسٹی گیشن کی تو کچھ قوتیں متحرک ہو گئیں کہ ان کو جے آئی ٹی گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشت گردی کورٹ میں چالان پیش نہ کر دے اور انکے ٹرائیل کا آغاز نہ ہوجائے اسطرح جے آئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کرواکر جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا جائے اور یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل تک کامعلوم نہ ہو سکا۔

اسی لیے کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل موجود نہیں تھے۔  جب ایڈووکیٹ جنرل کو معلوم ہوا تو وہ فوری طور پر عدالت میں پہنچ گئے لیکن ایڈووکیٹ جنرل نے جب فل بینچ کے سامنے یہ ساری صورتحال سامنے رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔  22مارچ کوایڈووکیٹ جنرل کوسنے بغیرہی جےآئی ٹی کے نوٹیفکیشن کومعطل کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے  کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ مورخہ 22 مارچ 2019 کے خلاف جس میں فل بنچ نے جےآئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کیا ہے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرہوچکی ہے۔  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :