کیا کھویا،کیا پایا؟

بدھ 31 جولائی 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

وزیراعظم پاکستان عمران کا پہلادور امریکہ کافی اہمیت کاحامل تھا۔ اس دورے کے دورس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ بظاہریہ دورہ عمران خان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے اور یہ دورہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کیلئے بھی استعمال ہوا۔ اورہمارے وزیراعظم نے امریکی سرزمین پرریکارڈ توڑاور کامیاب جلسہ بھی کیا۔ مگرکیا یہ سب کچھ اتنا آسان تھا؟ دراصل اس دورے کی منصوبہ بندی کہیں اورکی گئی تھی۔

امریکہ سے معاملات طے کرنے میں فیصلہ کن کردارکوئی اوراداکرتاہے۔ عمران خان نے وہی کہا،جو ان سے کہلوایا گیا۔ تاہم اس بات سے قطع نظرکہ عمران خان کتنے بااختیار وزیراعظم ہیں؟ اس دورے کی ٹائمنگ بہت قابلِ غورہے۔ 
آج سے چند ماہ قبل ہونیوالے پلوامہ حملے کے بعد جب پاک بھارت کشیدگی اپنے نقط عروج پرتھی تو دنیا نے دیکھ لیاکہ افواجِ پاکستان کی پیشہ وارانہ صلاحتیں کس لیول پر ہیں اورکم وسائل کے باوجود ممکنہ پاک بھارت جنگ کیلئے ہماری تیاری کس حدتک زبردست ہے۔

(جاری ہے)

دنیا نے بھاری دفاعی بجٹ اور جنگی سازوسامان سے لیس بھارتی افواج کی نالائقی بھی دیکھ لی اور ثابت ہوا کہ بھارت خطے میں فوجی برتری حاصل نہیں کرسکا اور ہی پاکستان کے خلاف کسی محدودجنگ کیلئے تیارہے۔
 دوسری جانب امریکہ خودافغانستان میں بری طرح پھنس چکاہے۔ امریکہ کیلئے اس وقت افغان طالبان سے امن مذاکرات کی کامیابی افغانستان سے باعزت واپسی کیلئے اشد ضروری ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں ثالثی کرے۔ امریکہ کوپاکستان کی ضرورت ہے۔ مودی سرکاربھی اس پوزیشن میں نہیں کہ امریکہ پاکستان کو نظراندازکرتے ہوئے اپنی تمام ترتوجہ بھارت پرمرکوزکرلے۔ یہ ہی وجہ ہے امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کردی ہے۔ اب یہ پرمنحصرہے کہ ہمارا دفترِخارجہ صورتحال کا کس حدتک فائدہ اٹھاسکتاہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ دنوں کلبھوشن یادیو کوعالمی عدالت انصاف میں ایک جاسوس اوردہشتگرد ثابت کر کے یمودی سرکارپر اپنی سفارتی برتری بھی ثابت کردی ہے۔ لہذاٰ پاکستان کی سول اورعسکری قیادت کوامریکہ میں جوپروٹوکول ملااس کے پس منظرمیں افغان امن عمل میں پاکستان کی ضرورت کے علاوہ پاکستان کی اپنے پڑوسی ملک بھارت کے خلاف 2019 میں حاصل ہونے والی عسکری اورسفارتی کامیابیاں شامل ہیں۔

 
شاید تاریخ میں یہ چوتھا موقع ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیرکو حل کروانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم مسئلہ کشمیرحل کروانے کے تین نادر مواقع ماضی کھوچکے ہیں۔ ہم نے 1965کی جنگ بندکرتے ہوئے اعلانِ تاشقند،امریکہ کے زیرسرپرستی روس مخالف افغان جہاد اورمعرکہ کارگل میں کامیابیوں کومسئلہ کشمیرحل کروانے کیلئے استعمال نہیں کیا۔

اب 2019 میں اللہ نے ہمیں پھرایک موقع دیاہے اور ہمارا دشمن چاہ کربھی ہمیں عالمی سطح پرہمیں تنہا نہیں کرسکتا ۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کا افغان امن عمل میں کردارمسئلہ کشمیرکے حل سے مشروط ہوناچاہئے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کوڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کیاگیاہے۔ یاد رکھیے اگرآج امریکہ مسئلہ کشمیرحل کروائے بغیرافغانستان سے نکل گیا تویہ بھارت کی سفارتی جیت ہوگی۔

 
امریکہ صرف حسبِ ضرورت ہی پاکستان سے دوستی کرتاہے۔ جب غرض وغایت پوری ہوجائے تو امریکہ ہمیں پھربھول جاتاہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتاہے۔ آج امریکہ کوپاکستان کا تعاون اورمدد درکارہے۔ امریکہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ شکوہ کررہاہے کہ پاکستان نے امریکہ سے تعاون نہیں کیاہے۔ پاکستانی حکومت سے دوستی کا ہاتھ بڑھاکر امریکہ چاہتا ہے کہ اسے بدلے میں افغان امور میں معاونت ملے۔

امریکہ نے پاکستان کی نئی حکومت پرکافی مہربانیاں کی ہیں۔ سب سے پہلے تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نجی دورہ امریکہ دیکھ لیجئے۔ یقیناََ واشنگٹن نے بلاول کو عمران انتظامیہ سے تعاون کی تاکید کی ہے تاکہ عمران انتظامیہ کی داخلی سیاسی مشکلات میں کمی آئے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بلاول نے حکومت کیلئے نرم پالیسی اختیارکرلی ہے۔

دوسرا یہ کہ امریکہ نے پاکستان کی مالی امداد ایک مرتبہ پھربحال کرنے کا عندیہ دیاہے۔ اور یہ امداد '' کولیشن سپورٹ فنڈ '' کی میں دی جائیگی۔ 
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کیساتھ وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک صحافی کے پاکستان کی امداد بحالی پرسوال کے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان کو اعشاریہ 3ارب ڈالرامدادینے کے خواہاں تھے مگرپاکستان امریکہ کی مددنہیں کررہا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ایک مرتبہ کہاتھا کہ '' امریکہ جوچارآنے دے رہاہے،وہ بندکردے توبھی ہم گزارا کرلیں گے''۔ پھرہم نے دیکھا کہ جلد ہی پاکستان کو امریکی امداد ملنا بندہوگئی تھی۔ 
آپ سابق ن لیگی دورِحکومت پر چاہیں جتنی مرضی تنقید کرلیں مگرسابقہ دور کا یہ اقدام بہرحال ملکی مفاد میں تھا۔ کیونکہ اس امریکی امداد کے بدلے پاکستان کوافغانستان میں امریکہ کی جنگ میں تعاون کرناہوتاتھا جوکہ ایک پرائی جنگ تھی۔

اورہم سے ڈومورکاتقاضا بھی ہوتاتھا۔ اب حالات کافی بدل چکے ہیں اورامریکہ ڈومور کی بجائے مدد کا خواہاں ہے۔ اور افغانستان میں جنگ کو مزید طول نہیں دے سکتا ہے۔ وقت اورحالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان کومفتوح علاقہ بنا توبہت آسان ہے مگرتاریخ گواہ ہے کہ افغان عوام کوغلامی کی زنجیرمیں جکڑنا بہت مشکل ہے۔ اسی صورتحال کا عملی طورپرسامنا کرنے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں پولیس مین نہ بننے کی خواہش کا اظہارکیاہے ۔

امریکہ تو خطے میں بالادستی قائم کرنے کا خواب لیکرآیا تھامگرپولیس مین بن کررہ گیا۔ یہ بھی الگ معمہ ہے کہ خوابوں کی تعبیریں اکثرالٹ ہوجایا کرتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اگرچہ یہ کہ رہے کہ وہ پاکستان کیلئے امریکی امداد کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ امریکہ سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ مگرلگتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں امداد کی پیشکش کو وزیراعظم عمران خان خاموشی سے قبول کرلیاہے جوکہ باعثِ حیرت ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :