پلوامہ اور مودی سرکار کی جارحیت

بدھ 27 فروری 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

صبح صبح اسلام آباد میں تیز بارش ہورہی تھی، دنیا کے سب سے خوبصورت دارلخلافہ کا رومانس دیدنی تھا، گاڑی لے کر ہسپتال کے لیے نکلا تو میرے بہترین دوست جو بھارت میں جگر کی پیوندکاری کے ماہر مانے جاتے ہیں، ان کی وٹس ایپ پر مس کال دیکھی اور انہیں فون ملا لیا۔ وہ وزیر اعظم عمران خان کی بھارت کی دھمکیوں پر ردِ عمل کی تعریف کررہے تھے،ان کے خیال میں یہ ایک انتہائی صابر اور دانش مند جواب تھا۔

ہم حالات کو تفصیل سے دیکھیں تو بات ایسٹ انڈیا کمپنی تک جانکلتی ہے ،جب انگریز یہاں کئی ہزار سالہ حکمرانی کا منصوبہ لے کر آیا تھا۔ اڈولف ہٹلر نے دنیا کا نقشہ بدلا تو ساتھ ہی گوروں کے حکمرانی کے طریقے بھی بدل گئے اور وہ یہاں ایک بہت بڑی لڑائی مسئلہ کشمیر کی صورت میں مسلط کرکے نکل گئے۔

(جاری ہے)

ہم دنیا میں غربت، پسماندگی ،جہالت اور غلامی کے دلدل میں پھنسے تھے، حکمرانی کے طریقے بھی نہیں آتے تھے ،چنانچہ دونوں ملک اس مسئلے کو اٹوٹ انگ اور شاہ رگ بنا کر ایک ایسی پراکسی وار کا حصہ بن گئے جو پچھلی سات دہائیوں میں ہماری کئی نسلیں براہ راست کھا گئی اوروٴ ہم آج بھی اس جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔

دونوں ملک پوری دنیا میں صحت، خوراک، تعلیم ،لوگوں کے طرز زندگی، آبادی اور بیماریوں کی ہر تعریف میں بدترین مانے جاتے ہیں۔ دونوں کے پاسپورٹ پوری دنیا میں یاں مشرقی وسطی کے کفیلوں کے پاس ہیں یا پھر اس تڑپ میں ہیں کہ کسی طرح انہیں برطانوی یا امریکی شہریت مل جائے ۔ ہم نے سب برباد کرلیا ،مگر ایک دوسرے کے خلاف کشمیر کے مسئلے پر جنگی جنون نہ چھوڑا۔

تین براہ راست اور کئی جنگیں پراکسی کی صورت میں لڑ لیں اور اب بھی ہمہ وقت حالت ِ جنگ میں ہیں۔ اس جنون کا زہر نسلوں کے خون میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ بھارت میں بی جے پی کی مودی سرکار کو پچھلا ووٹ ہی اس بیان پر پڑا کے من موہن کی جگہ اگر چائے والا صاحب ہوتے تو اب تک بھارت پاکستان کو ممبئی حملوں پر مزہ چکھا چکا ہوتا ۔ آپ تاریخ کو قریب سے دیکھیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ آج اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو یقینا بھارت اپنے ان عزائم کو پایہ تکمیل پہنچا چکا ہوتا اور اس میں بین الاقوامی طاقتوں بالخصوص پاکستان سے کبھی خوش نہ ہونے والے امریکہ کی بھارت کو مکمل حمایت حاصل ہوتی۔

1989ء میں پاکستان میں جہاں ایک آمر امریکی کہ بھرپور مدد کے بعد جا چکا تھا،وہیں روس کے بھی ٹکڑے ہوچکے تھے اور امریکہ سرد جنگ جیت چکا تھا۔ ایسے میں 1990ء میں دنیاآ کی بہترین انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کو امریکہ چند پابندیوں کی زد میں لے آیا۔ پوری دنیا میں ایجنسیوں کے لیے اپنے ملک کے دفاع کے لیے ایک اصطلاح ’ لانگ آرم ‘ استعمال کی جاتی ہے۔

امریکی سی آئی اے اس میں ہمیشہ سے ماہر مانی جاتی تھی۔ لانگ آرم میں دنیا بھر میں ایجنسیوں دیگر ملکوں میں ایسی کاروائیاں کرتی ہیں کہ جس سے ملک کا دفاع مضبوط ہوتا ہے اور ان کے ملک کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ادھر ہمارا لانگ آرم باندھ کر، اسرائیلی موساد اور بھارتی راء کو گرین سگنل چھٹی دے دی گئی اور انہوں نے بلوچستان میں سورش کو ہوا دینی شروع کردی۔

مکتی باہنی طرز پر علیحدگی پسند تنظیمیں بنائی گئیں اور یوں پاکستان کو کمزور کیا جانے لگا۔ ادھر وہ کشمیر جہاد جو خالصتا بھارت تسلط سے آزدی کے لیے کشمیرکے جوانوں کا حق تھا، بھارت کو اب جواز چاہیے تھا کہ کسی بھی طرح اس جہاد کوپوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کے ساتھ ملا کر اس پر بین الاقوامی حمایت حاصل کر لی جائے۔ 9/11 اور اسامہ بن لادن اور امریکہ کی لڑائی میں پاکستان نے جب تورا بوار کی دھمکی پر امریکہ کا ساتھ دیا،تو وہ افغان جہادی جو کبھی امریکی کی حمایت میں لڑرہے تھے،امریکہ کے خلاف لڑنے کے جنون میں پاکستان میں گوریلا جنگ کرنے لگے۔

یہاں بھارت اور اسرائیل کی تمام ایجنسیوں کو یہ نادر موقع مل گیا کہ وہ پاکستان میں سورش کو ہوا دیں اور ساتھ ساتھ اتنی قربانیاں دینے والے ملک کو دہشت گرد ملک قرار دے دیں اور ساتھ ہی کشمیر کے جہاد کو بھی اسی دہشت گردی میں ضم کردیں۔ بھارت کی تمام فوج، خارجہ پالیسی، بالی وڈ اسی کام پر لگ گیا اور کافی حد تک اس میں کامیاب ہوگیا۔2001 ء میں دسمبر میں جب انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو بھارت میں Cold Start Doctrine نامی ایک پراکسی وار اٹیک کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔

یہ منصوبہ پاکستان پر محدود حملے کا تھا۔ اس کی تفصیل یہ تھی کہ بھارتی فوج ایسی تیاری کرے کہ وہ جب چاہے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرے اور پاکستان کو اس طرح نقصان پہنچائے کہ اسے دفاعی طور پر مفلوج کردے اور بدلے میں پاکستان نہ بھارت پر فوری حملہ کر سکے اور نہ ہی یہ سٹرائیک اس قدر شدید ہو کہ یہ پاکستان کو یہ جواز فراہم کردے کہ پاکستان بھارت پر ایٹمی حملہ کردے۔

یوں جنگ بھی بھارت شروع کرے،نقصان بھی شدید پہنچائے اور پاکستان کچھ بھی نہ کرسکے۔ یہ وہ منصوبہ تھا جس کی باز گشت آپ 2008 ء ممبئی حملوں کے بعد بھی سنتے رہے اور آج مودی سرکار پلوامہ میں ہوئے حملے کو جواز بنا کر Cold Start Doctrine کو عملی طور پر کرکے کے دکھانا چاہتی ہے، اور اس خوفناک منصوبے میں پاکستان پر پندرہ اہم ترین اہداف پر سرجیکل سٹرائیک کا پلان کیا گیا ہے۔

پاکستان کیBallistic missile ٹیکنالوجی چند سالوں میں Cold Start Doctrine منصوبے کے جواب میں مزید جدیدت پر استوار کی گئی ہے اور پاکستان مکمل جوابی کاروائی کی صلاحیت رکھے ہوئے ہے۔ عمران خان صاحب کی تقریر میں پاکستان کسی بھی جارحیت کی صورت میں Retaliate کرنے کا سوچے گا نہیں بلکہ Retaliate کرے گا ، کا مفہوم بھی اسی جارحیت کا جواب تھا۔ مودی سرکار الیکشن جیتنے کے لیے بہت سنجیدگی سے ایسی خطرناک غلطی کرنے پر سوچ رہی ہے اور خوف اس بات کا ہے کہ کہیں یہ چنگاری ،پوری دنیا میں کسی ایٹمی جنگ کو دعوت نہ دے دے۔

یہ یقینا تیسری عالمی جنگ ہوگی اور اس کے نتیجے میں سب تباہ ہوجائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر کا مسئلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کئی سال تک وہ پیسہ جو اس عوام کی صحت،تعلیم، روزگار، پاس پورٹ کی قدر اور عوام کی فلاح پر لگایا جاتا وہ آپسی جنگی جنون پر خرچ کرنے کے باوجود،ہم سب مرنے مارنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ پڑوسی ملک کا میڈیا جہالت کی ہر تاریخ رقم کیے، پتہ نہیں کیسی کیسی animations بنا کر پاکستان کو تباہ کر رہا ہے اور چیخ چیخ کر عوام کو پاکستان کے خلاف اکسا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر پاکستان اور بھارت کے عوام ایک دوسرے کے لیے نازیبا الفاظ اور ٹک ٹاک پر عجیب و غریب وڈیوز بنانے میں لگے ہیں۔ بھارت پاکستانی فنکاروں پر پابندی لگا چکا ہے اور پاکستان بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگانے کی سوچ رہا ہے۔ سعودی ولی عہد پاکستان کا دورہ کرکے بھارت جاتے ہیں اور بھارت وہاں اپنی کوئی بات کرنے کی بجائے پلوامہ کی رٹ لگا لیتا اور بدلے میں یہ جواب بھی سن لیتا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیاں پوری دنیا کے سامنے ہیں اور ہمیں ملک کر دہشت گردی سے لڑنا ہے۔

گونج کی سنیں تو اس عوام کی مزید بربادی کا سوچنے والوں کو اب کشمیر کو لے کر بس کردینی چاہیے۔ کسی قسم کی سرجیکل سٹرائیک ،ایٹمی جنگ میں بد ل کر کیا کر گزرے گی، یہ بات نہ بھارتی میڈیا جانتا ہے اور نہ ہی یہ ٹک ٹاک والے ۔ ہمیں اپنی نسلوں کی بقا کی خاطر اس جنون سے باہر آنا ہے اور اس میں پہل ہندو انتہا پسند سوچ اور ان کی سرکار کو کرنا ہوگی ۔

ایٹمی ہتھیار سے لے کر کولڈ ڈاکرائن تک ہر زیادتی کی پہل بھارت نے کی ہے اور اس جنگی جنون میں وہ اپنے ملک میں فٹ پاتھوں پر سوتے،بھوک سے مرتے عوام مکمل طور پر بھول چکا ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان کو بھارت کی ان تمام دھمکیوں اور راء اور موساد کی فاٹا اور بلوچستان میں لانگ آرم کاروائیوں کے جواب میں دوبارہ اپنا لانگ آرم ایکشن میں لانا ہوگا۔

ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کی طرح ہمیں پوری دنیا کو چیخ چیخ کر یہ بات بتانا ہوگی کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ سب بھارتی فوج کے ان گنت ناحق ریپ ، معصوم عوام کے منہ پر چلائی گولیاں اور ٹارچر سیل کی چیخوں کا جواب ہے۔ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جہاد کو ، طالبانائیزیشن میں ضم کرکے اصل حقائق کو مسخ نہ کیا جائے اور بھارت کو پوری دنیا اس بات پر قائل کرکے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق رائے دے دے اور اگر وہ ایک آزاد ریاست کے طور پر بھی جینا چاہتے ہیں تو ان کی جان چھوڑ دے۔

اس سے نہ صرف پاکستان، بھارت اور کشمیر میں خوشحالی آئے گی ، بلکہ خطے سے جنگی جنون بھی ختم ہوگا۔ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی سے بھی مکمل آزاد ہوں گے اور نفرتوں کے ناختم ہونے والے سلسلے بھی ختم ہوجائیں گے۔ کشمیر میں پاکستان کی کل فوج سے زیادہ فوج بھی بھارتی خزانے پر بوجھ کم کرے گی اور وہی پیسہ بھارت میں فٹ پاتھوں پر سوتی عوام پر لگے گا تو مودی کی انتہا پسند سوچ بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی ۔

مودی سرکار کی وہ سوچ کہ جس کی مسلم کش تاریخ کو گجرات فسادات کے آئینے میں دیکھا جائے تو آ پ کو انسانیت سے گرا ہر وہ بھیانک روپ نظر آئے گا،جو سیاست کی آڑ میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دھمکیوں کے نتیجے میں ہمیں اللہ پاک نے وہ مدد ،صلاحیت اور دنیا کی بہترین فوج عطا کر رکھی ہے کہ جس سے ہم ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ ہمیں پڑوسی ملک کی طرف سے کشمیر مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک ناختم ہونے والی جنگ کا سامنا ہے اور جب تک بھارت ہوش کے ناخن نہیں لے لیتا ہمیں کسی بھی طرح اس جنگی جنون میں بھارت کو مات دینے کے لیے جہد کرنا ہے اور یہی ہمارا بطور قوم ہنود سے جہاد ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :