کشمیرظلم کی تاریخ

جمعہ 5 فروری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ظلم و بربریت کی شکار مظلوم و محکوم عوام سے ہمدردی و اظہار یکجہتی کیلئے پاکستان میں 5فروری کو کشمیر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ،اس دن کی مناسبت سے ملک کے طول و عرض میں پاکستان کی عوام سیاسی و مذہبی جماعتیں احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کرتی ہیں اور سرکاری طور پر بھی کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔

اس دن کو منانے کے حوالے سے ہماری نوجوان نسل بہت کم جانتی ہے کہ اس دن کو منانے کی شروعات کیسے اور کب ہوئی اور اس دن کوسرکاری سطح پر منانے کا مطالبہ کس شخصیت نے کیا تھا ؟
یہ 1990کی بات ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر میں انڈین قابض فوج کے خلاف آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی یہ وہ وقت تھا جب کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب ِ رائے کا حق بھارت نے دینے سے انکار کردیا تو کشمیری نوجوانوں نے قابض فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے بندوق اٹھالی تھی اس وقت یعنی 1990میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے پہلی دفعہ حکومت پاکستان سے کشمیری مجاہدین اور عوام سے اظہار یکجہتی اور ان سے تجدید عہد کیلئے ایک دن مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ،اس وقت نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جبکہ مرکز میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں ،قاضی حسین احمدکے مطالبہ کو نہ صرف وفاق بلکہ چاروں صوبوں نے اہمیت دی اورپہلی مرتبہ یہ دن 5فروری1990کو سرکاری طور پر منایا گیا اس وقت سے لیکر اب تک یہ دن کشمیریوں سے یکجہتی کے طور پر منایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

5فروری کے دن کو اس لیئے بھی منتخب کیا گیا کیونکہ کیلنڈر میں اس دن میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اس لیئے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا ،پاکستان میں سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے بھلے آپس میں کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن کشمیر کے مسئلہ پر سیاست سے بالا ہوکر یکجان اور ایک آواز ہوکر دنیا کو پیغام دیا جاتا ہے اور کشمیر ڈے بھر پور طریقے سے منا یا جاتا ہے۔


وکیپیڈیاکیمطابق کشمیر 1947 پاکستان سے پاکستان کے حصہ میں آیا تھا جس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازعے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تناظر میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہے. پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو کشمیر کے آزادی اور خود مختاری اورمسئلہ کشمیرکو دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔

دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947 کی جنگ، 1965 کی جنگ اور 1999 کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971 کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔
سولہ مارچ 1846 انگریز وں نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کردیاتھاپھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا.پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا جوافیون کا نشئہ کرتا تھا وہ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھااوربے اولاد تھا۔

پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا، حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا۔ یہ قادیانی سازش کی پہلی فتح تھی۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔ہری سنگھ 1925 میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمائت حاصل تھی مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا ،1929میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی،1931میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی ،کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی۔

ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کی بے حرمتی کی جس پرعبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے، جو گرفتار ہوا پھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ 13 جولائی کو شہدائے کشمیر ڈے اسی قتل عام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس طرح تحریک آزادی کشمیر 1931 میں مکمل شروع ہوئی،25 جولائی 1931 میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔

جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی،یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا،یہ پھر قادیانی فتح تھی. اس نے سازش کر دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا،یاد رہے اس کمیٹی میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ سب مسلمان فورا َاس کمیٹی سے دستبردار ہوئے،عطااللہ شاہ بخاری فورا کشمیر بھیجے گئے۔

بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا، علامہ اقبال مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی۔
14 اگست 1931 میں پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔اکتوبر 1931 میں علامہ اقبال کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملے،مذاکرات ناکام ہوئے، سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو تحریک چلی،یوں تحریک آزادی باقاعدہ 1931 میں شروع ہوئی،مسلمانوں کا دوسرا مجاہد دستہ جہلم سے میر پور کی طرف روانہ ہوا،تیسرا دستہ راولپنڈی کے تیس نوجوانوں پر مشتمل تھا جو قرآن پر قسم اٹھا کر نکلے کہ کوہالہ پل بند کر کے رہیں گے،پھر اس جنگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نومبر 1931 میں سر بی جے گلینسی کی صدارت میں کمیشن بنا۔


1933 میں سری نگرکی پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے۔1931 سے بھی 100 سال پہلے جب رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا تو 1831 میں کشمیر کی ذیلی ریاست پونچھ کے سندھن قبیلے نے بغاوت کی اور آزادی کی تحریک شروع کی ۔ منگ میں رانجیت سنگھ کی فوجوں نے ڈوگرہ گلاب سنگھ کی نگرانی میں آپریشن کیا ۔

تحریک کے قائد سردار شمس خان سندھن، سمیت نامور سرداروں اور کمانڈروں کی زندہ کھالیں اتاری گئیں، 8 ہزار مرد و زن گرفتار اور 35 ہزار کو شہید کیا گیا ۔ مسلمانوں کے بچے دو روپے سکہ راج الوقت میں فروخت اور 5 روپے میں سر خریدے گئے۔
1947میں جب آزاد ریاستوں کویہ اختیاردیاگیاکہ کوئی بھی ریاست ہندوستان یاپاکستان کیساتھ اپناالحاق کرسکتی ہے توکشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے سازش کے ذریعے کشمیرکاالحاق بھارت سے کردیاجسے کشمیری مسلمانوں کی اکثریتی آبادی نے قبول نہ کیااورڈوگرہ کیخلاف جہادکااعلان کردیاجس میں پشتون مجاہدین نے بھرپورشرکت کی ،1948میں موجودہ آزادکشمیرمجاہدین نے بھارت کی قابض فوج سے آزاد کرالیا،جنوری 1949میں جنگ بندی عمل میں آئی جس میں اقوام متحدہ نے اپنی قراردادمنظورکی کہ کشمیرکافیصلہ کشمیرعوام کی مرضی یعنی استصواب رائے ہوگا، اس وقت بھارت نے رائے شماری کرانے کاوعدہ کیاتھااور اسی سال جولائی میں ہندوستان اور پاکستان نے جنگ بندی کی جس سے لائن آف کنٹرول معرض وجودمیں آگئی لیکن بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں سے کیاگیاوعدہ پورانہ کیا اورانہیں استصواب رائے کاحق دینے سے انکارکردیااس کے بعد کشمیر کے تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے بہت ساری تجاویز پیش کی گئیں ، لیکن 1962 میں لداخ میں چینی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھ گئی اور ہندوستان اور پاکستان کے مابین 1965 میں کشمیرکے معاملے پر جنگ چھیڑ گئی ،جنگ بندی کے بعدجنوری 1966 میں تاشقند(ازبکستان)میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے تاشقندمعاہدے کانام دیاجاتاہے،جس میں پاکستان اوربھارت نے پر امن طریقے سے کشمیر کے تناز عہ کوختم کرنے کی کوششوں کا عزم کیالیکن1971 میں بھارت نے مکتی باہنی کے روپ مشرقی پاکستان میں جنگ چھیڑدی اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیایعنی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ، 1972 میں پاکستان بھارت کے مابین شملہ معاہدہ ہوا،اس طے پانے والے معاہدے میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کے بعد سے خطے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں گے،اس وقت کہاجاتا جاتا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کنٹرول لائن کو ڈی فیکٹو بارڈر کے طور پر قبول کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اس کی تردید کی۔


انسائیکلوپیڈیابرٹانیکاکے مطابق 1977 میں بھٹو کو گرفتار کیا گیا تھا اور 1979 میں پھانسی کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ بن گیا۔1980 کی دہائی کے آخر میں مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی تحریک زورپکڑچکی تھی مجاہدین کیساتھ بھارتی فوج کی جھڑپیں کئی شہروں تک پھیل چکی تھیں، 1990 کی دہائی کے اوائل تک مجاہدین نے آزادی کی تھریک کوبام عروج تک پہنچادیا اور بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں کرفیولگاکرکریک ڈاؤن شروع کردیا،اس کے بعد1999میں پاکستان بھارت کے درمیان کارگل جنگ ہوئی،اس وقت وزیراعظم نوازشریف نے امریکہ جاکریکطرفہ جنگ بندی کااعلان کردیااورفوج کوواپسی کاحکم دے دیاجس سے بھارت کودوبارہ مقبوضہ کشمیرمیں اپنی کھوئی ہوئی رٹ بحال کرنے کاموقع مل گیا۔

تاہم لائن آف کنٹرول پرجھڑپوں کاسلسلہ جاری رہا۔2004میں پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس میں سری نگر سے مظفرآبادکے درمیان 2005 میں محدود مسافر بس سروس کا آغاز ہوا،2008میں اس خطے میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد ہندوستان اور پاکستان نے امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو لائن آف کنٹرول کے ساتھ متعدد مقامات پر عبور کرنے کی اجازت دے دی۔


2008میں سری نگر کے مشرق میں واقع امرناتھ غار کے زیارت کے موقع پر ہندو یاتریوں کیلئے زمین وقف کرنے پر بڑے پیمانے پرپرتشدد مظاہرے بھڑک اٹھے اور پھر 2010 میں بھارتی فوجیوں نے تین پاکستانی دیہاتیوں کوشہید کرنے کا دعویٰ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملی ٹینٹ کنٹرول لائن کے پارسے گھسنے کی کوشش کر رہے تھے،بعدمیں جن کے بارے میں معلوم ہواکہ بھارتی فوج نے بیگناہ کشمیری نوجوانوں گرفتارکرنے کے بعد شہیدکردئے،کشمیرمیں دہشت گردی کا ایک اوردور2014میں اس وقت شروع ہواجب پورے ہندوستان میں بھارتیہ جنتاپارٹی برسراقتدارآگئی جس نے پورے ملک اپناانتہاپسند ہندوتواکاایجنڈانافذکرناشروع کردیا،اس دوران بی جے پی مقبوضہ کشمیرکی قانون ساز اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی بن چکی تھی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کیساتھ اتحادی حکومت تشکیل دی۔

بی جے پی کی انتہاپسندہندوتواکی پالیسیوں نے کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کردیں۔ جولائی 2016 کو بھارتی فوج کے ہاتھوں برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی تحریک کوایک بارپھربام عروج پرپہنچادیاجس سے مقبوضہ کشمیرمیں حالات بھارت کی لاکھوں کی تعدادمیں موجود فوج کے کنٹرول سے باہرہوگئے اوربی جے پی سرکارنے پورے کشمیرمیں کرفیونافذکرکے کریک ڈاؤن میں معصوم نہتے لوگوں کوگرفتارکرکے ہندوستان کی مختلف جیلوں میں بندکردیا اوربھارتی فوج کوکشمیرکے بیگناہ مسلمانوں شہیدکرنے اوران کے چہرے اورآنکھوں پرپیلٹ گنز چلانے کی کھلی چھٹی دے دی۔


2018کے آخرمیں مودی سرکارنے قانون سازاسمبلی کوتحلیل کردیااورگورنرراج نافذکردیا،مودی کی RSS کے نظریے والی انتہاپسند حکومت نے اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے14فروری 2019میں منصوبہ بندی کرکے (جس کاثبوت ارنب گوسوامی کوٹویٹ کی صورت میں دنیاکے سامنے آچکاہے)سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی بسوں پرحملہ کروایاجس میں40اہلکارہلاک ہوگئے ان ہلاک ہونے والے فوجیوں ایک بھی اعلیٰ ذات کاہندوفوجی شامل نہیں تھا،جس کاالزام مودی سرکارنے پاکستان پرلگاکرسرجیکل سٹرائیک کااعلان کردیااورآزادکشمیرمیں رات کے اندھیرے میں راولاکوٹ میں جہازوں کے پے لوڈگراکردعویٰ کیاکہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ تباہ کردئے ہیں اورکئی سوہلاکتوں کادعویٰ کیاجس پرپاکستان نے انٹرنیشنل میڈیاکے نمائندوں کو اس علاقے کادورا کرایاجہاں انڈین جہازوں کے پے لوڈگرنے سے دودرخت اورایک کواہلاک ہواجس سے بھارت کی خوب جگ ہنسائی ہوئی،اگلے ہی روز27فروری کو پاکستان نے دن کی روشنی میں بھارت کے دوجنگی جہازمارگرائے اوردوپائیلٹ بھی گرفتارکرنے کادعویٰ کیالیکن بعدکہاگیاکہ ایک پائیلٹ پکڑاگیاہے جسے میڈیاکے سامنے لایاگیاجس نے اپنانام ابھینندن بتایاتھاجسے بعدمیں جذبہ خیرسگالی کے تحت چھوڑدیاگیا۔


کچھ ماہ بعد بی جے پی نے ہندوستان کے انتخابات میں زبردست فتح حاصل کی او ر 5 اگست پیر کی صبح مودی کابینہ نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی منظوری دی جس کے بعد صدر رام ناتھ نے آئینی آرڈر 2019 اپنے دستخطوں سے جاری کر دیا جو فوری طور پر نافذ العمل کردیاگیا۔بھارتی آئین کا کشمیر پر اطلاق کردیاگیا۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کیلئے مرکزی حکومت نے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے کوئی مشاورت نہیں کی جو کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریحاََخلاف ورزی ہے ، مودی سرکار نے کشمیریوں کے حقوق کو غصب کرنے کیلئے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا ، جس کی روسے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت اور وادی کا ریاستی درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو یونین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ آرٹیکل 35 ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 کی ذیلی شق ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے سرکاری نوکریوں، وظائف ، ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اسکے مستقل باشندوں کو حاصل ہے۔

آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ دیگر اہم معاملات پر قانون سازی کیلئے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی مرہون منت ہے۔ 5اگست 2019 کے غیرقانونی ا قدام کے بعد اب غیرکشمیری جموں و کشمیر میں آباد ہو سکتے ہیں اور وہاں پر جائیدادیں بھی خرید سکتے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے اور غیر کشمیری کے لیے جائیداد خریدنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سول سروس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس وقت جموں و کشمیر میں تمام اعلیٰ سرکاری عہدوں پر غیرکشمیری ہندوؤں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

۔ ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادت اور نوجوان کشمیری عوام کے نئے جذبے اور لگن نے جدوجہد آزادی کشمیر کو ایک نئی شکل دیدی ہے۔ پہلی بار کشمیریوں کی تحریک آزادی خود ان کی قوت اور سوچ کی بنیاد پر پروان چڑھی ۔ آزادی کا احساس نئے اور پرجوش انداز میں ابھر کرسامنے آیاہے۔
اب حکومت پاکستان اورخاص طورپروزیراعظم عمران خان کوچاہئے کہ وہ 5فروری کادن کشمیریوں سے یکجہتی کے طورپرضرورمنائے مگر اس کیساتھ ساتھ وزارت خارجہ کومزیدمتحرک اورفعال کرنے کی ضرورت ہے، کشمیریوں پرہونے والے مظالم اوربھارتی انتہاپسندحکومت ،بی جے پی اوراس کے دہشت گردعسکری ونگ RSSکے مظالم کو دنیاکے سامنے مزید اجاگرکرے اوراسے دہشت گردگروپوں میں شامل کرائے ،مئوثرخاجہ پالیسی سے کشمیرکامسئلہ بھی جلدحل ہوسکے گادوسری طرف دنیا سے اس وقت کروناکی وباکی وجہ سے کشمیرمیں ہونے والے مظالم اوجھل ہوچکے ہیں۔

مختلف ممالک میں وفودبھیجے جائیں اوربھارتی مظالم دنیاکے سامنے لائے جائیں ان وفود میں کشمیری قیادت لازمی طورپرشامل ہوتاکہ دنیامیں پوری طاقت سے کشمیرکامقدمہ لڑاجاسکے اورکشمیرمیں جاری ظلم کی اندھیری چھٹ سکے جس سے ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے دکھوں کامداواہو گااورکشمیرکی تاریک تاریخ کابھیانک باب ہمیشہ کیلئے جلد بندہوجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :