"پوائنٹ آف نوریٹرن "

پیر 15 مارچ 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

12مارچ کوپاکستان کے ایوانِ بالا کے نئے چیئرمین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ لگاتار دوسری مرتبہ اس عہدے پر منتخب ہوئے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی حکومتی امیدوار کے نام ہوا جس پر مرزا محمد آفریدی 98 میں سے 54 ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔جمعے کو ہونے والے انتخاب میں صادق سنجرانی کے مدمقابل اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے۔

ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپوزیشن کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو 44 ملے۔ایوان میں موجود تمام 98 ارکان نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا جن میں سے آٹھ ووٹ مسترد قرار دیے گئے۔ ان میں سے ایک ووٹر نے دونوں امیدواروں کے نام پر مہر لگائی جبکہ سات نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے سامنے موجود خانے کی بجائے ان کے نام پر مہر لگائی۔

(جاری ہے)

ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔

یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک نے دلیل دی کہ قواعد و ضوابط کے مطابق مہر خانے کے اندر لگانے کو کہا گیا ہے اور تمام مہریں خانے کے اندر لگائی گئی ہیں اس لیے ان ووٹوں کو مسترد نہ کیا جائے تاہم ان کی یہ دلیل پریزائیڈنگ افسر نے قبول نہیں کی۔پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ہارنے والے امیدوار ان کے فیصلے کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں اپیل کر سکتے ہیں۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اسی حوالے سے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اپوزیشن انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ جا سکتی ہے اور حزب اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک کی جانب سے پریزائڈنگ افسر مظفر علی شاہ کو پیش کیے گئے دلائل میں وزن تھا۔اسی حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے بھی موقف اختیار کیا کہ فاروق ایچ نائیک کے ساتھ انھوں نے انتخاب سے قبل سیکرٹری سینیٹ سے مہر لگانے کے بارے میں پوچھا تھا جس پر سیکرٹری سینیٹ نے بتایا کہ نام کے اوپرمہر لگانا ٹھیک ہے۔


اپوزیشن کے رہنماؤں نے انتخاب میں شکست کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کی جس سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھاکہ جس طریقے سے ان کے امیدوار کو اکثریت کے باوجودہرایا گیا وہ قابل مذمت ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ امید ہے عدالت میں یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھاکہ حکومت نے ہر حربہ استعمال کرکے الیکشن چوری کیا۔


مسلم لیگ (ن)کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال کا کہنا تھاکہ آج پی ڈی ایم کامیاب ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کے امیدوار کو 49 ووٹ ملے لیکن یوسف رضا گیلانی کو سات ووٹ مسترد کرکے ہرایا گیا۔احسن اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں ماضی کے عدالتی فیصلے بھی پڑھے اور کہا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں کہ ووٹر کی نیت دیکھنی ہے۔ نام کے خانے میں مہر لگانے کا مطلب ہے کہ ووٹرکی نیت درست ہے، جومہر امیدوار کے خانے میں نام پر لگایاگیا وہ درست ہے،انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے متعدد ایسے فیصلے اور الیکشن کمیشن کی رولنگ ہے کہ خانے کے اندرڈالا گیا ووٹ درست ہے، چاہے وہ نام کے اوپرکیوں نہ ہو۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مسترد کیے جانے والے ساتوں ووٹ میں امیدوار کے نام کے خانے میں مہرلگائی گئی تھی اس لیے وہ اس کو چیلنج کریں گے اور انھیں عدالت سے توقع ہے کہ وہ اس کی درستگی کرے گی۔
حزب اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن چوری کیا گیا اور عوام کی آنکھوں کے سامنے چوری کیا گیا،بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ڈی ایم قیادت سے مشاورت کے بعد انھوں نے عدالت میں جانے کافیصلہ کیاہے۔

ثبوت موجود ہے کہ سیکرٹری سینیٹ ہمارے لوگوں کو بتارہے ہیں کہ آپ ڈبے کے اندر مہر لگا سکتے ہیں، میں نے بھی عام انتخابات میں اپنے نام کے اوپر مہر لگائی تھی،بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ایک کھلا کیس ہے ہمیں امید ہے کہ عدالتوں سے ہمیں انصاف ملے گا۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے انتخاب کے بعد کہا کہ قانون کہتا ہے نام کے اوپر لگائی گئی مہر ٹھیک ہے، ہم یہ ڈاکہ نہیں ہونے دیں گے۔


دوسری طرف ڈپٹی چیئرمین کوپڑنے والے ووٹ نے سب کوحیران کردیاہے کہ کیسے ووٹ لئے گئے اورکتنے لوگ لوٹے بنے،اس میں ایک طرف نوٹوں کی چمک کاکمال ہے یاپھرکچھ اور۔۔؟ سینٹ انتخابات نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے بے جان گھوڑے میں نئی روح پھونک دی ہے جواس سے قبل عملی طورپرٹوٹ چکی تھی جسے اپناسیاسی چورن بیچنے کیلئے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

آج ایسا لگ رہاہے کہ حکومت کی جلدبازی اوربے ترتیبی نے اپوزیشن کوبکھرنے کی بجائے متحدکردیاہے،اس سے قبل 10مارچ کووزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ اپوزیشن خریدو فروخت سمیت تمام غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے، حکومت نے ان ہتھکنڈوں کیخلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے۔

شبلی فراز کا مزید کا کہنا تھا کہ صادق سنجرانی کی جیت کیلئے ہر حربہ استعمال کریں گے اورالیکشن جیت کردکھائیں گے،اب یہی ہواانہوں نے سینٹ الیکشن جیت لیاہے لیکن وہ تبدیلی جس کیلئے پاکستان کی عوام نے واضح اکثریت کیساتھ پاکستان تحریک انصاف کوووٹ دیاتھااورامیدکی تھی کہ دھونس دھاندلی کاخاتمہ ہوگااورہرطرف شفافیت ہوگی ان سینٹ انتخابات سے عوام کی پی ٹی آئی سے وابستہ شفافیت کی امیدیں دفن ہوگئی ہیں،پاکستان کی سیاست میں پوزیشن یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہورہاہے۔


اگرپاکستان تحریک انصاف کی حکومت NA75ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اورچیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینٹ کی سیٹیں ہاربھی جاتی توپی ٹی آئی کے پاس ایک بہت بڑی سند ہوتی کہ ہم نے الیکشن میں دھاندلی نہیں کی اورمخالف امیدوارکوجیتنے دیالیکن موجودہ حالات میں حکومت کوئی بھی کریڈٹ نہیں لے سکتی کہ وہ شفافیت پریقین رکھتی ہے۔اب حکومت کوآنے والے چنددنوں میں انتہائی کٹھن حالات کاسامناکرناپڑے گا،اگلے ہفتے پی ڈی ایم اپنانیالائحہ عمل طے کرنے جارہی ہے،اپوزیشن نے جولانگ مارچ کی کال دی ہوئی ہے اب لانگ مارچ ہوکررہے گاا س وقت اطلاعات کے مطابق سندھ سے پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے منتظمین پنجاب پہنچ چکے ہیں اوران کی کوشش ہوگی کہ سندھ سے 35سے50ہزارلوگ لازمی شامل ہوں اوراسی طرح بلوچستان سے بھی 5ہزارسے زائدلوگ شامل ہوسکتے ہیں اورمولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ وہ 10لاکھ لوگ لائیں گے،اگرمولانافضل الرحمن ایک لاکھ بھی لوگ لے آئے تویہ تعداد بھی بہت بڑی ہے اوراگردوسری طرف پنجاب سے مسلم لیگ ن لانگ مارچ میں بڑی تعداد میں لوگوں کوگھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو حکومت کیلئے اتنی تعداد میں لوگوں سے نمٹناکوئی آسان کام نہ ہوگا،اگرحکومت نے یہاں بھی کوئی غلطی کی تواس افراتفری کے ماحول میں جمہوریت کی بساط بھی لپٹ سکتی ہے اورجس سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،سینٹ انتخابات کے نتائج کو الیکشن ٹربیونل اورپھرسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے گااوراس کے نتیجہ میں سید یوسف رضاگیلانی کی جیت کااعلان ہوتاہے یاپھرصادق سنجرانی چیئرمین سینٹ برقراررہتے ہیں یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے ،ہم اپوزیشن اورحکومت دونوں سے گذارش کریں گے کہ پاکستان میں سیاسی حالات کو"پوائنٹ آف نوریٹرن "کی طرف نہ لیکر جائیں جہاں سے پھرواپسی ممکن نہ ہواورپاکستان کے موجودہ حالات بھی کسی ایڈونچرکے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ اس وقت پاکستان دشمن قوتیں تاک میں بیٹھی ہیں جوپاکستان میں افراتفری اوردہشت گردی کی کارروائیاں کرواناچاہتی ہیں ان بزدل اورچھپے ہوئے دہشت گردوں کاخاتمہ کرنے کیلئے ہماری پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک پاکستان میں امن کا بحال کیا ہے اورامید رکھتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت بالغ نظری کامظاہرہ کرتے ہوئے ہماری پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گی اورملک میں امن کی فضابرقرار رکھیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :