اوآئی سی کواوہ آئی سی سے نکلناہوگا

پیر 20 دسمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے جارہاہے،دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان او آئی سی اجلاس کی میزبانی کے فرائض انجام دیگا۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ کاکہناتھاکہ اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں انسانی بحران آنے سے قبل ضروری اقدامات کرنا ہے۔

ہم نے کانفرنس میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔نیوز کانفرنس کے دوران ترجمان دفترخارجہ کامزید کہناتھاکہ پاکستان نے کانفرنس میں شرکت کیلئے ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کیلئے عالمی برادری سے تعاون کا خواہاں ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان نے ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)کے غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی تھی۔

(جاری ہے)

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج افغان بھائیوں کو ہماری پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
تنظیم تعاون اسلامی OIC(Organisation of Islamic Cooperation)ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقہ، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی تھی۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا۔یہ 21 اگست 1969 کی بات ہے جب ایک بدبخت آسٹریلوی مسیحی ڈینس مائیکل روہان نے یروشلم میں مسجد اقصی کے اندر خطبے کے لیے رکھے گئے صلاح الدین ایوبی کے دور کے آٹھ سو سال پرانے منبر کو آگ لگا دی۔

اس کے نتیجے میں مسجداقصیٰ کی قدیم عمارت جس کی چھت لکڑی کی بنی ہوئی تھی وہ بھی جل گئی تھی۔مسلمانوں نے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے اسے جیوئش کرائم قرار دیا اور اسلامی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ ایک سربراہ اجلاس منعقد کریں اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائیں۔فلسطین کے مفتی اعظم کی اپیل کے جواب میں مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم اکثریتی ملکوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے ۔

۔25 ستمبر 1969 کو اس اجتماع نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں قریبی تعاون اور مدد کی راہ اختیار کرنے کے لیے مسلم حکومتیں آپس میں صلاح مشورہ کریں گی۔یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم یا اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کا نقطہء آغاز تھی۔اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں او آئی سی کا ایک باقاعدہ تنظیم کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا جس کا ہر سال وزرائے خارجہ کا اجلاس اور ہر تین سال بعد سربراہ اجلاس منعقد ہونا طے پایا۔

او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کو فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیاجائے گا۔یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور سوویت یونین(روس) کے درمیان سرد جنگ جاری تھی لیکن مسلمان ملکوں کا کوئی بلاک نہیں تھا۔

اس وقت مسلمان ملک بالعموم امریکہ کے زیر اثر تھے چنانچہ جب اسلامی کانفرنس کی تنظیم بنی تو وہ مسلمان ملک جو سوویت بلاک کے زیر اثر تھے وہ اس کے بارے میں سرد مہری کاشکار تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ امریکہ کے زیراثربلاک ہے اورامریکی مفادات کیلئے بنایاگیاہے (وقت گذرنے کیساتھ یہ خدشات سچ ثابت ہوئے او آئی سی کی وجہ مسلم دنیاکوئی فائدہ نہیں پہنچاجتناامریکی مفادات کوفائدہ پہنچایاگیا)1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقادکے وقت ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر دو کام کیے جو سعودی عرب نے پہلی کانفرنس میں نہیں کیے تھے۔

وہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوویت اورامریکی بلاک دونوں ملکوں کے سربراہوں کو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ذاتی طور پر آمادہ کیا اور دنیانے دیکھا کہ اس سربراہی کانفرنس میں لیبیاکے کرنل قذافی بھی ، بنگلہ دیش (جو پاکستان سے ٹوٹ کر تازہ تازہ نیا ملک بنا تھا)کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان ،سعودی عرب کے شاہ فیصل،شاہ ایران اورمصرکے انور سادات بھی پاکستان میں آئے تھے اس طرح وزیراعظم پاکستان ذولفقارعلی بھٹوبلاکوں میں بٹی پوری مسلم امہ کواکٹھاکرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اس سربراہ کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا کا لیڈر بن کر ابھرا۔اکتوبر 1980 میں اسلامی کانفرنس تنظیم کی متفقہ نمائندے کے طور پر صدر پاکستان جنرل ضیا الحق نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، ان کی تقریر کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا ، یہ او آئی سی کے عروج کادور تھا اس کے بعد زوال نے او آئی سی کا گھر دیکھ لیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے کئی سربراہ اجلاس بعد میں منعقد ہوئے لیکن مسلم امہ کے مسائل کم نہ کیاجاسکے، اور 1974میں قائم ہونے والاتنظیم کا دم خم ختم ہوگیا۔

اس کانفرنس کے سارے متحرک کرداروں کو اگلے چند برسوں کے اندر پراسرار طریقے منظرسے غائب کرادیاگیا۔ شاہ فیصل، شیخ مجیب اورذولفقارعلی بھٹوکوقتل کرادیاگیایاسرعرفات کیمپ ڈیوڈکا شکاربنے اور کرنل قذافی تو بہت بعد تک رہے لیکن وہ بھی ختم کر دیے گئے۔ او آئی سی بطور ادارہ امریکہ کے ہاتھوں میں ایک ٹول بن گیا اور او آئی سی کا ایک دبنگ اور مزاحمتی اور قائدانہ کردار معدوم ہوتا چلا گیا۔

اب یہ ایک کاغذی سی تنظیم ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ رہی تب تک اسلامی کانفرنس تنظیم ایک مزاحمتی ادارے کے طور پر موجود رہی لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب یہ ایک رسمی ادارہ ہے جو سفارتی سطح پر تو ہے لیکن اس کا وجود متحرک نہیں۔کیااوآئی سی نے قبلہ اول یعنی فلسطین کامسئلہ حل کرایا ،اوآئی سی کے عرب ملک امریکہ بہادرکے کہنے پرایک ایک کرکیاسرائیل کوتسلیم نہیں کررہے،او آئی سی نے اپنی تنظیم کے قیام سے قبل کے مسئلہ کشمیرجہاں کی مسلم آبادی آج بھی دنیاکی سب سے بڑی جیل میں بند ہے کیلئے کچھ کیا؟انتہائی افسوس کے کہناپڑتاہے کہ سعودی عرب نے بھارت کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بات کرنے کیلئے پوراایک سال اوآئی سی کااجلاس نہ ہونے دیا،متحدہ عرب امارات نے تواس دوران مودی کواپنے سب سے بڑے سرکاری اعزاز سے نوازا۔


مسلم ملکوں کی قومیت پرستی کے عفریت نے اسلام کے تصور وحدت و اخوت کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے، آپس کی باہمی لڑائیوں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں نے مسلمانوں کو بربادی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔ مسلمانوں کی ان کمزوریوں نے بھارت اور اسرائیل جیسے ملکوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہر قسم کے ظلم و ستم کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔

اسی طرح گزشتہ چند دہائیوں سے برما (میانمار)میں روہنگیا مسلمانوں پر بھی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ 2012 سے برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت اور ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے برما کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دئیے تھے۔ ترکی کے طیب اردگان نے ہمیشہ کی طرح ایک مسلمان کا کردار ادا کرتے ہوئے برما کی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

لیکن اپنے ان مظلوم بھائیوں کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے اوآئی سی خاص طورپرسعودی عرب کا کوئی قابل قدر کردار سامنے نہ آسکا، اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے تاریخ کا بد ترین ظلم و ستم بپا کیا ہوا ہے۔ حقوق انسانی کی سخت خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ تاریخ کا طویل ترین اور ظالمانہ کرفیو نافذ ہے اوربھارت کے اندرمسلمانوں پر کبھی شہریت ایکٹ تو کبھی لوجہاد( LOVE)اورلینڈ جہادکے نام پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیاہے مجال ہے کہ اوآئی سی کے ماتھے پر کوئی شکن آئی ہواوراس وقت مسلم حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔


امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی مسائل حل کرانے اور دنیا کو جنگ و جدل سے بچانے کے بجائے اسلام دشمنی، اسلامی تہذیب سے ٹکراؤ یعنی کروسیڈی نظر یے کے تحت مسلم ممالک پر ننگی جارحیت کی۔ افغانستان، عراق، پاکستان، شام، لیبیا، مصر، یمن وغیرہ پر جنگ مسلط کی اور اب تک نصف کروڑ سے زائد بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ان مسلم ممالک کے امن کو تہہ و بالا کر ڈالا جو مسلمان حکمران امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔

امریکہ نے انہیں ایک ایک کرکے قتل کرادیا۔ عراق کے صدام حسین، لیبیا کے کرنل معمر قذافی اور پاکستان میں جنرل ضیا الحق کو امریکہ نے قتل کرایا۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کی بدمعاشی اور بالا دستی قائم ہوگئی۔ اس نے عالم اسلام میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا کر مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے دشمن بنا کر کھڑا کر دیااوراو آئی سی ممالک امریکہ کے مظالم روکنے کی بجائے اس کے ہمنوابن گئے اورامریکہ کو کھلی چھٹی دے دی۔

امریکہ جس کے خلاف چاہتا ہے جارحیت کے لئے چڑھ دوڑتا ہے اور سازشوں کے جال پھیلاتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ 57آزاد و خود مختار اسلامی ممالک سے کچھ کھلے عام امریکہ کے آلہِ کار، جاسوس اور اجرتی قاتل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ نے مسلم ممالک کو عرب اور عجم میں تقسیم کرکے دشمنی کے بیج بوئے اور مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ سعودی عرب عالمِ اسلام کا مرکز اور ہر لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے مگر اس وقت سب سے بڑا امریکہ کا ایجنٹ ہے اور امریکہ کے مکروہ ایجنڈے پر کھلے عام کام کر رہا ہے۔

سعودی حکمران امریکن صدر کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ وہ امریکہ جس نے نصف کروڑ مسلمانوں کا قتلِ عام کرایا وہ سعودی اورعرب حکمرانوں کا دوست ہے۔ مقام افسوس ہے آپ کو یاد ہوگا مئی 2017 میں سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں امریکن صدر ٹرمپ کو بطورمہمان خصوصی نہ صرف مدعو کیا تھا بلکہ شاہ سلمان نے ایک ارب 20کروڑ کے تحائف پیش کئے تھے۔

ان تحفوں میں 25کلوکی ایک سونے کی تلوار بھی شامل تھی۔ سعودی بادشاہ نے 50لاکھ مسلمانوں کے قتل عام پر امریکی صدر کو ان قیمتی انعامات اور تحفوں سے نوازا۔ اس وقت عالمِ اسلام میں تمام تر مسائل مخاصمت اور نا اتفاقی کی بنیادی وجہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کا امریکہ نوازبھیانک کردار ہے۔ اب دیکھتے ہیں افغانستان سے متعلق 19دسمبر کو اسلام آباد میں ہونیوالا او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس کیارنگ لاتا ہے،اس سب کے برعکس تاریخ گواہ ہے کہ او آئی سی نے ہمیشہ مسلمانوں پر دنیابھرمیں ہونے والے مظالم پرتواناآوازاٹھانے یاان کے درینہ مسائل کے حل کی کوشش کرنے کی بجائے ہمیشہ امریکی کٹھ پتلی بن کرمسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کیا ،اب اوآئی سی کواوہ آئی سی کے کردارسے باہرآناچاہئے،اگراب بھی مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لئے مسلم ممالک اکٹھے نہیں ہوسکتے تواوآئی سی سے جان چھڑایئے ا ور اس مردہ اوآئی سی کاجنازہ پڑھئے کسی ایسی تنظیم کی بنیادرکھئے جوامریکہ کے زیراثرنہ ہوجوصرف مسلم امہ کے اتحادویگانگت اورامہ کودرپیش مسائل کے حل اورخطرات سے مقابلہ کرنے کی جرات رکھتی ہو۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :