دنیا کی کوئی سپر پاور پاکستان کو بائی پاس نہیں کرسکتی

بدھ 6 اکتوبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کالعدم تحریک طالبان کو معافی کی مشروط پیش کش پر ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سرا پا احتجاج ہے ۔ کہتے ہیںعمران خان اپوزیشن لیڈر کے ساتھ نہیں مگر مولوی فقیر کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، اپوزیشن پر مقدمے بناتے ہیں مگر کالعدم ٹی ٹی پی سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں ،
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ، اس لئے کہ اختلافات کا حل تو ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن حسد اور بغض کا نہیں، اگر اپوزیشن اپنے گریبان میں دیکھے تو ان کو قومی سیاست میں اپنا منفی کردار نظر آجائے گا لیکن دیکھنے کے لئے بد قسمتی سے ان کا اپنا گریبان نہیں، وہ اپنی ذات میں فرشتے ہیں ، اپوزیشن کوئی ایک دن ایسا بتا دے کہ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالا ہو ، وہ تو اسمبلیوں میں دنیا کو تماشہ دکھانے آتے ہیں کہ ہم پاکستان کی اپوزیشن والے کس قبیل کے لوگ ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ تو اپنی تنخواہیں اورمراعات کے لئے آتے ہیں انہوں نے پاکستان کو سوچا اورنہ ہی پاکستان کے قومی اور مذہبی اقدار کو سوچا اور نہ ہی عوام کو سوچا۔ انہیں عمران خان سے خدا واسطے کی دشمنی ہے ، وہ عمران خان کے قومی مفاد کے ہر اقدام پر تنقید کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے ! قومی استحکام اور
 د ہشت گردی سے نجات کے لئے اگر عمران خان تحریک ِ طالبان سے معاملات، مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں تو اپوزیشن کو تکلیف کیا ہے ۔

جہاں تک ہاتھ ملانے کی بات ہے تو انسانیت کے احترام میں ہاتھ انسان دشمن انسان سے تو ملایا جا سکتا ہے لیکن انسان دشمن شیطان سے کو ئی باشعور ہاتھ نہیں ملاتا!
    وطن دوست تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان افغانستان اور امریکی حکومت کے باہمی معاہدے کے تحت 20سال طویل جنگ کے خاتمے، حملہ آ ور امریکی فوج کی واپسی، دارالحکومت کابل سمیت پورے ملک پر طالبان کے مکمل کنڑول، امارت اسلامی کی حکومت کے قیام اور پاکستان کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات کے نتیجے میں رونما ہونے والی مثبت صورت حال کا منطقی تقاضا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی آ ئے، اس کی جانب سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں بند کی جائیں اور تعمیری کردار اپنایا جائے۔

اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بات چیت افغانستان میں جاری ہے ”ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ان سے بات کریں گے انہیں معاف کردیں گے اس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے“۔ فی الحقیقت امن و استحکام پاکستان اور افغانستان سمیت پورے خطے کی بقا و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان اور چین سے بہتر تعلقات کا قیام امارت اسلامی افغانستان کی ترجیحات میں سرفہرست نظر آ تا ہے، لہٰذا یہ بہترین وقت ہے کہ ٹی ٹی پی کو بات چیت کے ذریعے ملک میں منفی سرگرمیوں سے روکا جائے اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار کی جائے۔

وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں،مسائل کا واحد حل ڈائیلاگ،بات چیت کے خواہشمندگروپس سے مفاہمت کی کوشش کر رہے ہیں
افغانستان میں شاندار کامیابیوں کے بعد ہندوستان کا افغانستان میں جس طرح سے صفایا ہوا اسکے بعد ضروری ہے کہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں جو لوگ پاکستان سے ناراض ہیں اور وہ واپس آ نا چاہتے ہیں تو ان کو قومی دھارے میں واپس لانا چاہیے ۔

اس لئے کہ پاک فوج رینجرز اور پولیس کے جوان آئے روز شہید ہو رہے ہیں، دہشت گرددھماکوں میںمعصوم لوگ نشانہ بن رہے ہیں ،اس لئے ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ قومی اور علاقائی امن و استحکام کے لئے عمران خان کی سو چ قابل تحسین اور قابل ِ تقلید ہے اگر وہ پاکستان میں امن واستحکام کے لئے قدم اٹھا رہا ہے تو ہم پاکستان کے عوام کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا
ہم پاکستانی قوم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عالمی سطح پر منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے، اور پاکستان کا اس میں تاریخی کردار ہے اور رہے گا، ہم بفضلِ خدا اس وقت قومی کامیاب حکمت عملی میں ایسی پوزیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ دنیا ہم سے بات کر رہی ہے،دنیا کی کوئی سپر پاور ہمیں بائی پاس نہیں کرسکتی۔

پاکستان کو سلامی ان کی مجبوری ہے اس لئے کہ پاکستان کے حکمران اور عوام ، علاقائی امن واستحکام کے علم بردار ہیں !!!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :