پارلیمنٹ میں غنڈہ گردی قوم اور قومیت کی توہین

منگل 4 جنوری 2022

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک ِ انصاف کی حکمرانی میں تخت اسلام آباد کے لئے پی ڈی ایم کے نام پر قائم اتحا د سے پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہیں لیکن وطن عزیز میں افرا تفری کے لئے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ میں شانہ بشانہ ہیں اپوزیشن جماعتوں نے گذشتہ تین سال میں نہ تو خود سکون کا سانس لیا نہ عوام کو سکوں کا سانس لینے دیا ،اور نہ ہی حکومت کو قومی تعمیر وترقی کا موقع دیا اسمبلیوں کو مچھلی منڈی بنائے رکھاہے اسمبلی میں ہلڑ بازی کے لئے آتے ہیں تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان کا غریب بھوک سے مر گیا ۔

اگر یہ لوگ پاکستان کے عوام کے اتنے ہیں ہمدرد ہیں تو بیرون ممالک بنکوں میں پڑے اپنے اربوں کھربوں روپے پاکستان کیوں نہیںلاتے ۔لیکن یہ لوگ ایسا نہیں کریں گے اس لئے کہ یہ تخت ِ اسلام آباد کے سوا اور کچھ سوچتے ہی نہیں ، یہ حریص لوگ ہیں ان کی آنکھیں قبر کی مٹی ہی پر کر سکتی ہے یہ لوگ ہوس ِ اقتدار میں اندھے اور گمراہ ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ایسوں کو ا پنے حال پ چھوڑ دیتا ہے ایسوں کو ہدایت نہیں دیتا ، پی ڈی ایم کا اتحاد کوئی نئی بات نہیں عوام یہ تماشہ 1977 سے دیکھ رہی ہے ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمان کو شر پسند وں کی قیادت ور ثے میں ملی ہے1977کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف 10 جنوری 1977 کو رفیق باجوہ کے مکان پرحزب مخالف کی نو سیاسی جماعتوں ’پاکستان نیشنل الائنس‘ (پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ اس نو جماعتی اتحاد میں پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام ، خاکسار تحریک، پاکستان مسلم لیگ (قاسم گروپ)، نیشنل عوامی پارٹی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ،مسلم لیگ (قیوم گروپ) پر مشتمل تھا۔

حکومت مخالف نو جماعتی اتحاد کا سربراہ مولانامفتی محمود کو چنا گیا۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان نیشنل الائنس کا انتخابی نشان ہل تھا۔ مولانا مفتی محمود کے اس ا تحاد کو 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی۔اپوزیشن کے اس اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور دوبارہ انتخابات کا مطا لبے پر جو شیطانی رقص شروع ہوا اس کے اثرات آج بھی قوم بھگت رہی ہے ، خود پرستوں نے پاکستان میں پہلی جمہوری حکومت کا تختہ کر کے مار شل لاءکے لئے راہ ہموار کی اورجنرل ضیاءالحق نے ایک بار پھر مارشل لاءنافذ کر دیا۔

اور جمہوری حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والی اپوزیشن ضیاءالحق کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کی کابینہ میں شامل ہو کر مارشل لاءکا حصہ بن گئیں۔ اس لئے کہ ان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے نہیں تخت ِ اسلام آباد سے پیار تھا
1988کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی مخالف اسلامی جمہوری اتحاد (آ ئی جے آ ئی) کے نام سے نو جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔

جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی او نیشنل پیپلز پارٹی شامل تھیں۔ آج 2021 میں پی این اے کے قائد مولانا مفتی محمودکے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کے قائد ہیں اس لئے کہ جمہوری حکومتوں کوگرانے کے لئے قائم ہونے والے اتحاد کی قیادت انہیں ورثے میں ملی ہے ،
پیپلز پارٹی کے شہیدوں کے نام پر ووٹ کی خیرات مانگتے والے آصف علی زرداری جو شہیدوں کی بر سی اورسالگرہ کے جشن میںپنجابی فلمی ادا کاروں کی طرح بھڑکیں مارتے ہیں ۔

زرداری کہتے ہیں میں لاہور میں ڈھرے لگانے آرہا ہوں ،بلاول بھڑک مارتے ہیں پانچ جنوری کو لاہور میدان جنگ ہوگا مولانا کہتے ہیں ۳۲ مارچ کو اسلام آباد فتح کروں گا اور مسلم لیگ ن کا کہنا ہے نواز شریف پاکستان آیا نہیں صرف آنے کا نام لیا ہے اور تحریک ِ انصاف حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہے ، احسن اقبال کہتے ہیں میں حکومت کے اتحادیوںکے پاس جاﺅں گا ان سے پوچھوں گا کہ تم نے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے یا عمران خان کی نا اہلی اور ناکامی سے وفاداری کا ، لیکن وہ اپنے گریبان میں کیوں نہیں دیکھتے کیا اس نے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے یا اس نوازشریف سے جسے سپریم کو رٹ نے کہا تم صادق اور امین نہیں ہو ،
مولانا فضل الرحمان کی سوچ تو جمہوری حکو متیں گرانے وا لی ہے لیکن حیرانی ہے تو زرداری پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کی سوچ پر جو لاہور فتح کرنے آرہے ہیں کہہ رہا ہے پانچ جنوری کو لاہور میدان جنگ ہوگا ایسی سوچ پر ما تم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ، بدقسمتی سے بلاول ان کے کھڑے ہیں جنہوں نے ان کے نانا ، ان کی ماں اور خاندان کے ساتھ نظریاتی جیالوں کو خاک کا کفن پہنا کر دفن کیا ہے، یہ ہی وہ لوگ ہیں جو ذ والفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے خلاف تحریکوں کے اتحادی تھے ۔

پہلے بلاول کے باپ آصف علی زرداری نے جیالوں کے ارمانوں کا خون کیا اور اب بلاول طاقت کے سر چشمہ عوام کو نظر انداز کر کے شہید بھٹو خاندان کی قومی اور جمہوری نظریات کی توہی کر تے ہوئے جمہوریت پسندوں کے قومی جذبات کو مجروح کر رہے ہیں جس کا منظرنامہ گذ شتہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت دنیانے د یکھا جب پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما نے تحریک ِ انصاف کی خاتون رہنما کو تھپڑ ماریا دیا ،
اپوزیشن جمہوریت کا حسن ہے لیکن جو حسن دنیا دیکھ رہی ہے وہ پارلیمنٹ کی تو ہین ہے ، جانے قومی اسمبلی میں جمہوری روایات کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے ، اگر حکومت کسی بھی نوعیت کا کوئی بل پیش کرتی ہے تو بل پر بحث میں حکو مت اور اپوزیشن کو اظہار خیال کا حق ہے ایک دوسرے کے موقف کو پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے خاموشی سے سنا جائے اگر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا توسپیکر کو رائے شماری کے لئے کہا جائے لیکن اسمبلی کو مچھلی منڈی بنا دینا جمہوری روایات کی توہین ہے ۔

کاش حکومت اور اپوزیشن کے منتخب اراکین ِ اسمبلی پارلیمنٹ اور اپنے خاندانی وقار کا احترام کریں اپنے دیس کی اس عوام پر ترس کھائیں جن کے وہ نمائندے ہیں ، پارلیمنٹ میں ہلڑ بازی شور شرابا ، پارلیمنٹیرین کے خطاب کے دوران بازاری زبان میں نعرے ، ڈیسک بجانا سپیکر اسمبلی کے سامنے بے شرمی کا رقص ایک دوسرے پر آوازے کسنا،ایک دوسرے کا گریبان پکڑنا تھپڑ مارنا کہاں کی جمہوریت پرستی ہے پارلیمنٹ میں غنڈہ گردی قوم اور قومیت کی توہین ہے
گل دیس میں اپنے ہے برپا، ایوانوں میں اک ہنگامہ
 جو راہبر خود کو کہتے ہیں وہ بیٹھے ہیں میخانوں میں
سب چور اچکے لگتے ہیں، یہ لوٹ کے دولت دھرتی کی
 بیرون وطن لے جاتے ہیں،یہ راہبر سب درندے ہیں
یہ خون ہمارا پیتے ہیں
یہ میڈیا کے جو داتا ہیں، سب اینکر وینکر میڈیا کے
جو بریکنگ نیوز سناتے ہیں، سب گیت ان ہی کے گاتے ہیں
جو ان کو مال لگاتے ہیں جو ڈالر سور کھلاتے ہیں
 سب چور لفافے والے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :