
خان صاحب ایک نظر ادھر بھی
پیر 19 اکتوبر 2020

جنید نوازچوہدری (سویڈن)
(جاری ہے)
پھر کیوں اور کس کی اجازت سے شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور آپکی پنجاب کی کابینہ کے علیم خان کو این آر او دیا گیا تھا؟ کیا اس پر آپ کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے۔
کیا این آر او اس بات سے مشروط ہے کہ آپ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی جائے گی کیا حکومت پروڈکشن آرڈر کو ڈنڈے کے زور پر اپنا احترام کرانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے اور کرنا چاہتی ہے کیا یہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنے کا کوئی ہتھیار ہے یا بلیک میلنگ پوائنٹ ہے۔ ویسے پروڈکشن آرڈر کسی گرفتار رکن اسمبلی کا قانونی حق ہے جس سے کوئی انکار ممکن نہیں تو اس کی منسوخی کی بات کرنا ہی غیر قانونی بات ہے اگر پاکستان کے قانون اور آئین میں جہاں ارکان پارلیمنٹ کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے وہاں انہیں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر کی سہولت بھی دی گئی ہے یہ ایک خوبصورت بیلنس ہے کہ ایک طرف ارکان پارلیمنٹ قانون سے بالاتر بھی نہیں ہیں اور دوسری طرف اپنا کام کرنے کے لیے آزاد بھی ہیں۔ خان صاحب کی تقریر کسی وزیرِ اعظم کی تقریر کم اور کسی اپوزیشن لیڈر کی تقریر زیادہ لگ رہی تھی خان صاحب کی سیاست اس نعرہ سے شروع ہوئی تھی کے “عمران خان کرپشن کا دشمن ہے” چلئیے مان لیا اب آتے ہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رواں سال کی مارچ کے مہینے کی رپورٹ پر جس میں کئی حکومتی وزرا اور اتحادیوں کو رواں برس کی ابتدا میں سامنے آنے والے آٹے اور چینی کے بحران میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ واجد ضیا کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں چینی کے بحران سے سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین نے اٹھایا جب کہ دوسرے نمبر پر وزیر خوراک خسرو بختیار اور اْن کے ایک رشتہ دار نکلے جنہیں اس بحران نے مزید خوشحال کر دیا تیسرے نمبر پرآپ کے اتحادی چوہدری کے خاندان کے چشم و چراغ مونس الٰہی صاحب شامل نکلے۔ عمران خان صاحب نے حکومت میں آنے سے پہلے 22 سال جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا وہ کرپشن کا خاتمہ ہی تھا پہلے مرحومہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو، اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت کو، پھر پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دینا جو کہ اب پنجاب حکومت کے اتحادی بھی ہیں اور 2008 سے 2018 تک لگاتار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز پر کرپٹ اور چور ہونے کے الزامات عائد کرتے چلے جانا ہی ان کو دیگر جماعتوں سے ممتاز بناتا تھا۔ میڈیا میں موجود وہ لوگ جو خان صاحب کے حامی ہوا کرتے تھے کہ وہ واحد سیاستدان ہے جو چور نہیں ہے وہ واحد سیاستدان ہے جو کرپشن کی بات کرتا ہے وہ تو ایک خلیفہ ہیں، جو کبھی بھول چوک سے کوئی خان صاحب پر تنقید کرتا تو وہ ساتھ ہی قسم اٹھا کر گواہی دیتے تھے کہ وہ کرپٹ نہیں ہے، اب وہ بھی ایک ایک کر کے قوم سے معافی مانگ رہے ہیں کہ اتنے سال جس شخص کے لئے کالم لکھتے رہے اور پروگراموں میں بیٹھ کر کہتے رہے کہ “ہمارا کپتان صاف گو ہے اور کرپٹ نہیں ہے”اس کپتان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ سب لوگ کرپشن میں لتھڑے ہوئے پائے گئے، اور یہ کوئی اور نہیں وفاقی تحقیقاتی ادارہ کی رپورٹ نے ثابت کیا۔ اس سے پہلے جو بھی کوئی آواز اٹھاتا، اسے کرپٹ لوگوں کا ساتھی قرار دے دیا جاتا تھا کوئی صحافی آواز اٹھاتا تو کہتے تھے کہ کرپٹ سیاستدانوں سے لفافہ ملا ہوگا اور گالیاں الگ دیتے اور پھر ہوا یوں کہ جن کے جہازوں میں گھوما کرتے تھے، وہ چند ماہ میں چینی کی قیمتوں کو اس وقت 53 روپے فی کلو سے 90 اور اب 100 روپے فی کلو پر لے گئے اور آپ کیا کرتے رہے؟ اور تو اور سوال کرنے والے صحافی کو عدالتی نوٹس بھجوا دیا ترین صاحب نے کہ میرے راز کیوں افشا کیے اب سنا ہے کہ کبھی انگلینڈ اور کبھی نیوزی لینڈ میں ہوتے ہیں اور منہ نا کھلوانے کی دھمکیاں بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ اب یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب سے کوئی پوچھے کہ متعلقہ اداروں کے بار بار منع کرنے کے باوجود کس نے گندم برآمد کر دی اور پھر اس پر سبسڈی بھی دی؟ بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ دونوں مرتبہ فیصلہ کابینہ میں ہوا اور اس کی منظوری خود کابینہ کے سربراہ یعنی “وزیر اعظم عمران خان” نے دی، لیکن پھر بھی انہیں پتہ نہیں چل سکا کہ یہاں کرپشن ہو رہی ہے اور کچھ نہیں تو اپنا بتایا ہوا کلیہ تو یاد ہی ہوگا کہ “مہنگائی ہو رہی ہے تو سمجھ جائیں کرپشن ہو رہی ہے” جب چینی کی قیمتیں راتوں رات آسمان پر چڑھیں تو وزیر اعظم صاحب کو شاید خاتونِ اول نے بھی نہیں بتایا کہ چینی مہنگی ہو گئی ہے، اور لوگ آپ کے دوست جہانگیر ترین کا نام لے رہے ہیں؟۔ اور ویسے اگرقوم کو یاد ہو تو خان صاحب کو تو کرپشن کی تمام داستانیں ازبر ہوتی ہیں کون کتنے ارب ڈالر کس سنہ میں ملک سے باہر لے کر گیا، سرے پیلس کی قیمت کیا ہے، شہباز شریف نے میٹرو میں کتنا کک بیک لیا، نواز شریف نے کون سا اپارٹمنٹ کتنے میں خریدا، یہ سب عمران خان صاحب بغیر پرچی کے 126 دن کے دھرنے میں دن میں چار چار مرتبہ تقریریں کر کے بتاتے رہے، جو میڈیا پر لائیو دکھائی جاتی تھیں جو قوم کو بھی ازبر ہو گئیں تو پھر سوال یہ ہے کہ خان صاحب کی ناک کے نیچے یہ سب کیسے ہوتا رہا؟ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ کسی نے ان کی توجہ نہیں دلائی۔ خان صاحب کو بارہا عرض کی گئی کہ “عالی جاہ” آپ کے ارد گرد کرپٹ لوگوں کا ٹولہ جمع ہے لیکن “عالی جاہ” یہی تسلی دیتے رہے کہ اگر کپتان ٹھیک ہو تو ٹیم بھی ٹھیک رہتی ہے بلکہ ایک اچھے کپتان کی طرح میڈیا میں وہ اپنے کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی کا دفاع بھی کرتے رہے مثلاً جب سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو انسائڈر ٹریڈنگ میں ملوث پا کر تاحیات نااہل کیا تو خان صاحب نے متعدد انٹرویوز میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو عدالت کی غلطی سے تعبیر کیا اور اپنے یار غار کے آگے چٹان بن کر کھڑے رہے۔ جہانگیر ترین نے بھی اس مہربانی کا بدلہ 2018 انتخابات کے بعد ایم این اے اور ایم پی اے جہاز میں بھر بھر کے لا کر دے کر اتارا عمران خان صاحب کو کہا جاتا کہ نااہل ہونے کے باوجود جہانگیر ترین ہر میٹنگ میں کیوں موجود ہوتے ہیں تو اس پر بھی سوال کرنے والے پر “عالی جاہ” ناراض ہو جاتے تھے اور عجیب و غریب توجیہات پیش کرنے لگتے تھے۔ ایسا یا تو تنویم میں ممکن ہے یا انتہائے عشق میں کیونکہ تیسری صورت یہی ہے کہ خان صاحب اپنے ارد گرد کرپشن کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں، اس امید میں کہ ان کے ہاتھ کی تسبیح اور ان کی سادگی شاید ان کے اِن کرپٹ ساتھیوں کے دل پھیر دے گی۔ اب حقیقت کیا ہے، یہ تو ہم نہیں جانتے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو یا تو دھوکا دینا بہت آسان ہے یا پھر انہیں کرپشن صرف اپنے سیاسی حریفوں کی ہی بری لگتی ہے دونوں صورتوں میں ہی کیا آپ اپنے عہدے سے انصاف کر رہے ہیں؟ اس سے پہلے کے چوروں کے ساتھی بھی چور کا نعرہ لگنا شروع ہو جائے، خان صاحب ایک نظر اِدھر بھی۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے کالمز
-
تحریک عدم اعتماد،کھیل شروع!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
کنٹینر پہ کھڑا وزیرِاعظم!
جمعرات 27 جنوری 2022
-
غریب عوام کا برانڈ ،وزیراعظم یا کوئی اور!
منگل 4 جنوری 2022
-
سقوطِ ڈھاکہ، زمینی حقائق کیا تھے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
مہنگائی کا طوفان، حقیقت کیا ہے؟
جمعہ 3 دسمبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر کا احسان، ناقابل تسخیرپاکستان!
پیر 11 اکتوبر 2021
-
کیا بحیثیتِ قوم ہم گدا گر ہیں؟
بدھ 15 ستمبر 2021
-
افغانستان کی 20 سالہ جنگ اور طالبان؟
منگل 24 اگست 2021
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.