بلاول کی وفاق کو سخت للکار

منگل 28 مئی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

”سیاسی افطار “ کا سلسلہ جاری ہے، ایم کیو ایم کی جانب سے خالد مقبول صدیقی وفاقی وزیر کی طرف سے دعوت افطار زیربحث رہی ہے، جس میں دانستہ طور پر فاروق ستار اور مصطفی کمال کو سائیڈ لائن کیا گیا جبکہ ایم کیو ایم حقیقی سے اختلافات کے 29 برس بعد رشتہ بحال کرلیا گیا۔ آفاق احمد کی آمد کو اہم ترین پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم صوبہ سندھ کی تقسیم پر بات کررہی ہے، پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال اپنی دعوت افطار میں سندھ کی تقسیم کے حق میں دکھائی نہیں دیئے ، جبکہ ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کا مذاق اڑاتے دکھائی دیئے کہ ایک بے اختیار میئرشپ رکھنے والے صوبے کو کیسے تقسیم کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار سندھ میں انتظامی یونٹس کے حامی ہیں، لیکن ان کی آواز سیاسی لحاظ سے کمزور ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

مصطفی کمال نے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کی گذشتہ طرز سیاست کی وجہ سے کراچی کے تیس ہزار نوجوان موت کے منہ میں چلے گئے، وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بانی ایم کیو ایم کی وجہ سے کراچی کے قبرستان آباد ہوئے۔
ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ متحدہ لندن کا وجود کہاں پایا جاتا ہے۔

گرفتار ہونے والے کئی ٹارگٹ کلرز کو ان کا رکن بتایا جاتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انتظامیہ نے متحدہ لندن کے نام سے ایک اصطلاح ایجاد کی ہے، جس سے جرائم پیشہ افراد کا ناطہ جوڑا جاتا ہے۔ عام اطلاعات کے مطابق لندن سیکریٹریٹ کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اگر وہ کسی ملک سے یا لندن سے کام کررہے ہیں تو وفاقی حکومت ان ممالک سے براہ راست بات کیوں نہیں کرتی ؟ اسی سیاسی افطار میں میئر کراچی وسیم اختر سے ڈاکٹر فاروق ستار کے حوالے سے سوال کیا گیا تو موصوف نے جواباً کہا کہ کون فاروق ستار؟ حالانکہ انہیں میئر کراچی کیلئے نامزد ڈاکٹر فاروق ستار نے ہی کیا تھا، بقول ڈاکٹر صاحب کے مقتدر حلقوں میں یہ میرا جرم تصور کیا گیا تھا کہ میں نے وسیم اختر کو نامزد کیوں کیا۔


وزیراعظم عمران خان نجی کم سرکاری دورہ پر کراچی آئے، اس میں شوکت خانم ہسپتال کیلئے فنڈریزنگ بھی کی گئی جبکہ ان سے ایم کیو ایم کے وفد اور بزنس کمیونٹی کے سرکردہ افراد نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کا صوبہ سندھ کی تقسیم کی تجویز کو رد کردیا جبکہ بزنس کمیونٹی کے افراد کو دوماہ مزید مشکل وقت گزارنے اور بعد میں اچھے دنوں کی نوید سنائی، ایک بزنس مین کے مطابق وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں آئندہ کیلئے کوئی اقتصادی روڈ میپ نہیں دیا اور نہ ہی وہ اس حوالے سے مطمئن کرسکے۔

یہ توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعظم عمران خان وفاقی وزیر سردار علی محمد مہر کی اچانک وفات پر تعزیت کیلئے گھوٹکی جائیں گے، لیکن وزیراعظم واپس اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ سردار علی محمد مہر ، صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2002 میں وزیراعلیٰ سندھ بنائے گئے تھے، اس وقت ایم کیو ایم ان کی اتحادی پارٹی تھی، لیکن ایم کیو ایم کو اکثر ان سے شکایات رہتی تھیں، وزارت اعلیٰ سے تبدیل کرنے کا واقعہ بھی حیران کن تھا، کراچی میں اوپر تلے بم دھماکے ہوئے خاص طور پر ایم اے جناح روڈ پر امام بارگاہ علی رضا پر شدید بم دھماکہ ہوا، اس کے بعد ان کو استعفیٰ دینا پڑا اور ارباب غلام رحیم وزیراعلیٰ سندھ بن گئے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں کئی اور بم دھماکے ہوئے لیکن دھماکوں کی وجہ سے کسی وزیراعلیٰ یا وفاقی وزیر کو تبدیل نہیں کیا گیا، خود ان پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے ، انہوں نے کسی وزیر داخلہ کو اس وجہ سے تبدیل نہیں کیا تھا، یہ فیصلہ صرف اور صرف سردار علی محمد مہر کی وزارت اعلیٰ کو ختم کرنے تک ہی رہا۔
وفاقی وزیر شیخ رشید نے دورہ کراچی میں اعلان کیا کہ کراچی سرکلر ریلوے وفاقی حکومت نہیں چلائے گی، صوبائی حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ بھی نہیں چلائیں گے گویا دونوں سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کو ختم کرنے کا کام کردہے ہیں، گاڑی چلانے میں مخلص نہیں۔

دنیا بھر میں شہری ضروریات زندگی، تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ وغیرہ بلدیاتی ادارے فراہم کرتے ہیں، سپریم کورٹ کو چاہیے کہ گرین لائن منصوبہ اور کراچی سرکلر ریلوے کو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے حوالے کردے اور صوبائی اور وفاقی حکومت کو پابند کرے کہ وہ شہری حکومت کی معاونت اور مدد کرے تاکہ عوام ٹرانسپورٹ کے مسائل سے نجات پاسکیں۔


بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ میں وفاقی حکومت کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم سے جو تین ہسپتال وفاق نے اپنے کنٹرول میں لیے ہیں وہ سندھ حکومت کو واپس کریں ، ایک طرف ان کی حکومت ٹرانسپورٹ کے منصوبے کو چلانے سے بھاگ رہی ہے، دوسری جانب وہ وفاق کو فیصلہ تبدیل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ سندھ میں ایڈز کا مرض بچوں میں پھیلنے پر تشویش بڑھ رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے عالمی ادارہ صحت سے اس سلسلے میں مدد مانگ لی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو ٹیلی ویژن چینلز کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ جنہوں نے لاڑکانہ جس پر 90 ارب کی خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے، اس کی اصل حالت عوام کو نہیں دکھائی ۔ ایک صحافی نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے جب استفسار کیا کہ لاڑکانہ میں چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کیوں نہیں تو وہ جواب دیئے بغیر ہی پریس کانفرنس چھوڑ گئے۔


بلاول بھٹو زرداری نے اپنی افطار پارٹی میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو مدعو کیا تھا، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق جو واقعہ رونما ہوا ہے، اس میں وہ دونوں ممبران قومی اسمبلی ملوث ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کا ایک انداز سے ان کی حمایت میں بات کرنا حیرت کی بات دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح مریم نواز شریف کا ٹویٹ بھی اس بات کا غماز ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ایک ہی بیانیہ اختیار کرلیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے بزنس فورم کے سربراہ اشتیاق بیگ کی سیاسی افطار میں بھی یہ بیانیہ موضوع بحث رہا، مسلم لیگ ن کے ایک اہم راہنما کے مطابق عید سے پہلے بھی ایک سرپرائز ہوگا، بہرحال اب بیانیہ بھی اگر مقتدر حلقوں کو ناگوار گزرے لیکن اسی کو لے کر چلا جائے گا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے واضح ہدایت دیدی ہے کہ حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا جائے۔


باخبر ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف نے تین ماہ پہلے مفاہمتی انداز اپنایا تھا، لیکن ان کے خاندان کے ہر فرد کے خلاف کاروائی کے بعد وہ اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی جانب سے مقتدر حلقوں کے ساتھ بات چیت کی کوشش بھی جاری تھی لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست ترک کرکے ٹکراؤ کی جانب جایا جائے گا۔
بعض اطلاعات کے مطابق کسی بھی ایشو پر ٹویٹ یا بیان جاری کرنے کے لیے مریم نواز پارٹی کے چند اہم رہنماؤں سے واٹس ایپ پر مشاورت کرتی ہیں، جس کی جانب سے مفاہمتی مشورہ آئے اُسے رد کردیتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی بزدل شخص سے مشاورت کرنا بے سود ہے۔

گویا وہ ٹکراؤ پر آمادہ ہوچکی ہیں، انہیں یہ ہی دکھائی دیتا ہے کہ اس طرح مقتدر حلقے ان سے مفاہمت کی بات کریں گے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ون یونٹ کو ایک مرتبہ پھر ہدف تنقید بنایا ہے۔ اگر چہ وزیراعظم تردید کرچکے ہیں کہ صدارتی نظام نہیں آرہا لیکن حالات پاکستان کو نئے انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا خیال ہے کہ پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام سے نئے صوبوں کی ضرورت نہیں پڑے گی، شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ انتظامی طور پر اختیارات کا نچلی سطح ڈویژن اور ضلع تک آنا کس قدر اہم ہے۔

صوبائی حکومتیں اختیارات صوبائی دارالحکومت میں ارتکاز کا فارمولا اپنا چکی ہیں، لیکن عوام کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ڈالر کی اڑان قدرے تھم چکی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے واپسی کا سفر شروع کردیا ہے۔ چند افراد نے جو مصنوعی بحران پیدا کیا تھا، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے، ابھی تک ریاست کی کمزوری ہی دکھائی دے رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :