ترقیاتی رقوم استعمال ہونے کے باوجود سندھ ویران کیوں؟

بدھ 19 جون 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

سندھ اسمبلی میں انتہائی گرما گرم ماحول میں صوبہ سندھ کا مالیاتی سال 2019-20 کا بجٹ پیش کردیا گیا ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس حوالے سے ریکارڈ بنارہے ہیں کہ وہ غالباً سب سے زیادہ صوبے کی بجٹ پیش کرنے والی شخصیت بن جائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 میں صوبائی حکومت سنبھالی تو سید مراد علی شاہ وزیرخزانہ بنے۔

وزیراعلیٰ سندھ بننے کے بعد بھی انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا۔ اگر گذشتہ بجٹ تقاریر کا ریکارڈ دیکھا جائے اور موجودہ بجٹ تقریر کا تجزیہ کیا جائے تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی ترقیاتی رقوم استعمال ہونے کے باوجود سندھ ویران کیوں ہے۔ سندھ کے عوام ترقی کی منازل کیوں طے کرپائے۔ 2008 میں لاڑکانہ ضلع کو ماڈل ڈسٹرکٹ قرار دیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

باخبر ذرائع کے مطابق 90 ارب روپے کی خطیر رقم لاڑکانہ میں خرچ کی گئی ہے، لیکن لاڑکانہ میں حالیہ ایڈز کے مریضوں کی تعداد سینکڑوں میں سامنے آنے سے پوری قوم کے سرشرم سے جھک گئے، گویا وہاں بچوں کو بھی خطرناک بیماریوں سے بچایا جاناممکن نہیں۔ حالیہ بجٹ بھی 1217 ارب روپے کا ہے، جس میں ترقیاتی فنڈ 784 ارب روپے کے ہیں، جس میں 51 ارب روپے کی بیرونی امداد بھی شامل ہے۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں وفاق کو ہدف تنقید بنایا ۔ وفاق کی طرف سے گذشتہ سا ل ملنے والی رقوم میں کمی کو ہی تمام مسائل کی وجہ قرار دیتے رہے۔ اسی طرح میئر کراچی شہر میں ترقیاتی کاموں کے لیے کے ایم سی کے مسائل کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ وفاق کے ریونیوز میں کمی واقع ہوئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وفاق نے فاٹا کا علاقہ خیبرپختونخواہ میں شامل ہونے کے بعد زیادہ توجہ قبائلی علاقوں میں مرکوز کررکھی ہے۔

لیکن سندھ کو بھی نظر انداز کرنا درست نہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ اس میں بھی حق بجانب ہیں کہ 9واں قومی مالیاتی کمیشن ابھی تک منعقد نہیں ہوا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان سے پہلے بھی چند وزراء اعظم نے اس جانب توجہ مبذول کروائی تھی کہ وفاق کی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ اس کے پاس ملک چلانے کیلئے فنڈز کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

اگر وفاقی حکومت صوبوں کا حصہ کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر بھی اس پر بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو صوبائی مالیاتی کمیشن بنانے اور اسے آئین کے مطابق فعال بنانے کا پابند کیا جائے۔ صوبائی مالیاتی کمیشن، صوبہ سندھ میں بنایا گیا تھا اور بہت تاخیر کے بعد لیکن اس کے اجلاس منعقد نہیں ہوئے جس کا شکوہ میئر کراچی بھی کرتے رہتے ہیں۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبائی حکومتیں اپنے اضلاع کو تقریباً ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد حصہ دینے کی پابند ہیں، اضلاع کو آبادی کے لحاظ سے ترقیاتی بجٹ ملنا ان کا حق ہے۔ عجیب بات ہے کہ انتظامی لحاظ سے فیصلے کرنے اس لیے بھی مشکل ہوجاتے ہیں ، کیونکہ ان کو بعض لوگ اپنے مفادات کی خاطر سیاسی رنگ دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ طے نہیں کرپائے کہ زیادہ سے زیادہ کتنی آبادی کا صوبہ ہونا چاہیے۔

گیارہ کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ، پنجاب ہے اور ایک کروڑ گیارہ لاکھ سے زائد آبادی کا ضلع لاہور ہے، اسی طرح کراچی میں ضلع ویسٹ تقریباً40لاکھ نفوش پر مشتمل ہے۔ بہتر منصوبہ بندی کیلئے ضروری ہے کہ ہم انتظامی بنیادوں پر پورے ملک کے حوالے سے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔ ملک کو ڈویژن اور اضلاع کی سطح پر زیادہ بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ عوام کی تقدیربدل دے گی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، ہم صوبائی حصہ کے حوالے سے اور پانی کی تقسیم پر پھر سے اختلافات کا شکار ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ا قتصادیات کے حوالے سے وفاقی حکومت کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق معیشت کے حوالے سے خود اپنی پوزیشن کا تعین نہیں کرسکا۔ کسی صوبے کی جانب سے وفاق کے حوالے سے اس انداز کی گفتگو مناسب نہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت قومی اور صوبائی اگر وفاقی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔

لیکن وزیراعلیٰ سندھ کو اگروفاق سے اختلاف تھے تو اس سے بہترین فورم مشترکہ مفادات کونسل ہے۔ جہاں ایک صوبہ ہی نہیں تمام صوبے وفاق کے ساتھ اپنے معاملات کے حوالے سے اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پیپلز پارٹی وفاق میں حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ بحیثیت وزیراعلی سندھ وہ وفاق کی اپوزیشن نہیں ہیں۔

ملک میں سیاسی کلچر اس نوعیت کا ہوچکا ہے کہ اختلاف برائے اختلاف اور حمایت برائے حمایت کرنا معمول کی بات ہے اور کچھ لوگ اسے بھی جمہوریت ہی کہتے ہیں، حتیٰ کہ جمہوریت کا حسن۔
سندھ اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن جن کی تعداد 65ہے، ایک فعال اور متحرک اپوزیشن ابھی تک نہیں بن سکی۔ موجودہ بجٹ اجلاس کو دودن قبل بلانے پر انہوں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ اس طرح عوام کی ٹیکس رقوم کا غلط استعمال ہورہا ہے۔

پہلے بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد سندھ اسمبلی کے اجلاس کو جنوری سے جاری رکھا ہوا تھا، ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے پر محض ان کی سہولت فراہم کرنے کا جواز تھا۔ اب ان کے چیمبر کو ہی سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کی واحد گرفتاری ہے، جس میں وہ اجلاس کی صدارت بھی کرتے ہیں اور تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔

اس طرح کی صورتحال عام آدمی کیلئے ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جس طرح عمر قید کے دورانیہ کو ہدف تنقید بنایا ہے اور کسی مناسب وقت پر اس کی تشریح کا وعدہ کیا ہے، اسی طرح اراکین اسمبلی کی گرفتاری کی صورت میں پروڈکشن آرڈر پر بھی سیرحاصل بحث ہونی چاہیے اور اس کا تعین ہونا چاہیے کہ اگر یہ سہولت معزز رکن اسمبلی کو میسر ہے تو اس کا استعمال کس طرح ہونا چاہیے۔

محض اسمبلی میں آکر بیٹھ جانا اور اسمبلی اجلاس کو بلاوجہ طول دینے پر کسی طرح بھی جمہوریت کی اخلاقیات میں نہیں آتا۔ بہت سی چیزیں تحریری نہ بھی ہوں لیکن ہر شعبے میں اخلاقی اقدار ہوتی ہیں، انہی کی بنیاد پر وہ شعبہ معاشرے میں اپنا مقام بناتا ہے۔ اگر ہم یہ طے کرلیں کہ اس پر آئین خاموش ہے یا ہم اپنی مرضی سے جو چاہے کرلیں تو یہ بہت ہی غیرمناسب ہے۔


دنیا بھر میں جمہوری معاشرے اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن پر اٹھنے والے سوالات بھی ایسے ہی ہیں، ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم جو معیار زندگی اپناتے ہیں ، اس حوالے سے وضاحت کرنے کے ہم کو بحیثیت شہری پابند ہونا چاہیے۔ ذمہ دار شہری ہونا اور ڈھٹائی کے ساتھ قوانین کو چیلنج کرنا قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

غالباً اسی کیفیت کو چوری اور پھر سینہ زوری کہتے ہیں” میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو“ کے مصداق پاکستان پیپلز پارٹی نے فریال تالپور کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ اجلاس کے بعد انہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ وہ پہلے ہی گھر میں قید ہیں ۔
پیپلز پارٹی کی اہم رہنما فریال تالپور کی گرفتاری اور 9 دن کا ریمانڈ احتساب کے عمل میں بہت بڑی پیشرفت قرار دی جاسکتی ہے۔

اس سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری اور پھر ریمانڈ بھی بہت اہم پیشرفت تھی۔ اگر چہ آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ گرفتاری ان کی مقبولیت میں اضافہ کرے گی ، لیکن آج کا دور جس میں میڈیا ایک منفرد انداز اپنا چکا ہے، ان کو شاید وہ پذیرائی نہ مل سکے جو ماضی میں ہوا۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کی رائے ونڈ آمد اور محترمہ مریم نواز سے وفود اور ون آن ون ملاقات اپوزیشن کو فعال کرنے کی طرف ایک قدم تصور کیا جاسکتا ہے۔

لیکن وہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ میاں شہباز شریف بحیثیت صدر مسلم لیگ ن ،کیا اسی انداز سے آگے بڑھیں گے جس انداز کو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری اپنائے ہوئے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کی متحدہ اپوزیشن پیپلز پارٹی کو بجٹ میں کس قدر مشکل وقت سے دوچار کرپاتی ہے۔ پیرپگاڑا نے بھی پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی ہے۔ جی ڈی اے کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ا نہوں نے سندھ کے عوام کے مسائل کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو قرار دیا ہے۔

سندھ بجٹ میں یہ بات باعث حیرت ہے کہ K4منصوبے پر 8 ارب خرچ ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس کا ڈیزائن اور ماسٹر پلان تیار نہیں ہوا۔ لہذا کراچی کے عوام ابھی کئی برس مزید پانی کے حصول میں ناکام رہیں گے ، اچھی ٹرانسپورٹ بھی ان کو میسر آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ بات وہیں پر ختم ہوگی بقول حبیب جالب کہ
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :