اے پی سی اور سیاست کا المیہ!

پیر 21 ستمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بانو قدسیہ کا مشہور ناول "راجہ گدھ" بڑا یاد آرہا ہے، سوال یہ اٹھایا گیا کہ آخر گدھ نے حرام کھانا کیوں شروع کیا، تمام تفتیش، مشاہداے اور بحث و دلائل کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ یہ ایک دن بھولے سے انسان کی بستی چلی گئی، اس نے دیکھا کہ انسان حرام کھاتا ہے، دوسروں کی کمائی پر انحصار کرتا ہے، قوم کی دولت کھا جاتا ہے،  تب سے گدھ تمام پرندوں کی عزت پامال کر کے مردار کھانے پر لگ گئی، اگلے دن مظہر عباس صاحب نے ھائیبرڈ وار پر صحافت پر چند سوال اٹھائے، مظہر عباس صاحب کو میں مواصلاتی رابطے کے ذریعے بیس سال سے جانتا ہوں، اس وقت بھی وہ بے لاگ تجزیہ کرتے ہیں، وہ صحافت اور حکومت کے تعلق پر بھی بات کر رہے تھے ایک دم مجھے مشہور تجزیہ نگار ارشاد احمد حقانی یاد آگئے، وہ وفاقی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے کچھ عرصہ حکومت کا حصہ رہے، پھر ساری زندگی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گئے، معافی بھی چاہی، دانشور اور صحافی جب حکومت کا براہ راست حصہ بن جائیں تو عوام کی رہنمائی کرنے والا کون رہ جاتا ھے، اسی طرح  عرفان صدیقی صاحب کو پڑھنے اور  ان سے رہنمائی لینے والے لاکھوں تھے، سوئے حرم کے تو الفاظ سونے میں تولنے والے تھے، لیکن جب وہ سوئے حرم چھوڑ کر سوئے رائیونڈ چلے گئے تو شک کی نظریں اور گہری ھو گئیں، میں سوچتا ہوں، صحافی حکمرانوں کی بستی جا کر راندہ درگاہ ھوئے یا حکمران صحافیوں کی وجہ سے کراہت زدہ ہوگئے، یہ بات تو طے ہے کہ رائیونڈ میں جج، صحافی، وکیل، بیوروکریٹ، چند عساکر، دانشور اور علماء ومشائخ جاکر واپس کسی کام کے نہیں رہے، یہی وہ بڑا دکھ ھے جسے شریف خاندان نے انجام دیے کر قومی زوال کی بنیاد رکھی اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ  اب بھی اسی کی تلاش میں رہتے ہیں، مرحوم  جج ملک صاحب سے  زندہ جسم اور مردہ دل ارشد ملک تک کہیں کہانیاں دفن ہیں، آج  اے پی سی ھوئی، جس کے میزبان بلاول بھٹو زرداری تھے مگر میاں نواز شریف نے متنازع تقریر کرکے اے پی سی ھائی جیک کر لی ہے، پہلے ہی دونوں جماعتوں کے اندر یہ گہرا خوف موجود ہے کہ کہیں اپوزیشن کو استعمال کرکے کوئی بیک ڈور چینل مضبوط نہ کر لے، 2006 میں ھونے والا چارٹر آف ڈیموکریسی باری باری کے لئے اسی وقت دفن ھو گیا تھا جب پیپلز پارٹی نے مشرف سے این آر او کر لیا تھا، وہ بے نظیر بھٹو کی قربانی دے کر اقتدار میں آئی، ھمدردی، باری، این آر او، سب تو چلتا ہے نا، پھر وکلاء تحریک کو میاں صاحب نے خوب استعمال کیا اور افتخار محمد چوہدری کو لا کر خود گجرانوالہ سے واپس دوڑ گئے، ایک نیا این آر او وجود میں آیا، نیا جوائنٹ وینچر بنا جسے سوہاوہ سے، افتخار چودھری تک سب کی حمایت مل گئی، الیکشن کی رات نتائج سے پہلے فتح کا اعلان ھو گیا، کیا وہ سلیکشن نہیں تھی، آج میاں نواز شریف صاحب کشمیر کی بات کر رہے تھے، لیکن مودی کو گھر بلا کر ، اس کے گھر جا کر کس کو خوش، اور کس کو ناراض کیا، کیا باہر بیٹھ کر اداروں کے خلاف اس طرح بات کی جاتی ہے، پھر آپ نے چٹوں کا خوب استعمال کیا، زرداری صاحب نواز شریف کو سی او ڈی پر سخت جواب دیتے تھے، شہباز شریف  زرداری صاحب کو علی بابا چالیس چور سے مخاطب کرتے تھے، نواز شریف جس جمہوریت کی بات کرتے ھیں وہ پارٹی میں، کابینہ میں، گھر میں، اور پارلیمنٹ میں کبھی نظر نہیں آئی صرف اپنی ضرورت کے لئے ھر ادارے، ہر شخص اور ہر حربہ استعمال کیا جاتا رہا، جناب ممنون حسین کی کیا خدمات تھیں، جو غوث علی شاہ کو نظر انداز کیا، سعید الزماں صدیقی صاحب کو سرکاری علاج کے لیے گورنر بنا دیا، فخرو بھائی بے چارے عظیم آدمی تھے، انہیں اس عمر میں یہاں لانے کی کیا ضرورت پیش آئی، جاوید ہاشمی صاحب کتنا عرصہ آپ سے ملاقات کے لیے ترستے رہے، آپ ان سے کیوں خوف زدہ تھے، آپ نے نیب کے چیئرمین کو بنایا، پہلے آپ من پسند احتساب کمیشن چلا رہے تھے، بین البراعظمی کمپنیاں کس لئے بنائی گئیں، کون سی منی ٹریل ھے جو آپ پیش کر سکتے ہیں، پھر کہاں کی جمہوریت اور کس بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کو لعن طعن کر کے دشمن کو خوش کر رہے ہیں؟کیا آپ پوری طرح بے نقاب نہیں ھو گئے، کیا آپ جھگڑا اور فساد لے کر شہباز اور حمزہ شہباز کے لیے راستہ بند نہیں کر چکے پہلے ھی بے چارے راستہ اور ٹی ٹیاں ڈھونڈ رہے ہیں، ھم آپ کے مخالف نہیں ، یہ کچھ آنکھوں سے دیکھا ھے، آپ وہ نہیں جو کہتے ہیں، یہ تضاد بیانی اور اپنے لئے اور دوسروں کے لیے اور  رویہ ھی ھماری سیاست کا المیہ ہے، مجھے یہ کہنے میں مشکل پیش نہیں آرہی کہ اے پی سی نے عمران خان کو اور مضبوط کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

اس نے بھی آپ کی بیماری پر ترس کھایا تھا مگر آج تو آپ چالاک بیمار نکلے، باقی اے پی سی تو اتحاد بنائے گی، مولانا کے شکوے سنے گی؟ یا سیلاب میں گھرے لوگوں کو بلاول بھٹو زرداری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی، دیکھتے ہیں باسٹھ فیصد نوجوانوں کا رہنما عمران خان ھے یا بلاول بھٹو کہ مریم بی بی بنتی ہے، وقت بہترین استاد ھے۔ وہ فیصلہ سنا چکا تھا، وہ فیصلہ سنا دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :