توانائی اور صنعتی انقلاب

بدھ 4 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

لوگوں کو یاد ھو گا کہ 2013ء کا الیکشن لوڈ شیڈنگ کے بڑے ایشو پر لڑا گیا، میاں نواز شریف نے ملک سے اندھیرے ختم کرنے کے لیے مختلف تاریخیں دیں اور بالآخر 2018ء کو کہا گیا کہ اب ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ھوگی، وہ الگ بات ہے کہ لوڈ شیڈنگ پھر بھی ھوئی تھی تاہم کئی ھزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنے کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو جاتا ہے مگر اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انہی روشنیوں نے پاکستان کا مستقبل اندھیروں میں ڈال دیا، آپ حیران ھوں گے کہ اتنے بڑے کریڈٹ کو ڈس کریڈٹ کیوں کیا جاتا ہے، اس کی وجوہات آہستہ آہستہ سب کے سامنے آجائیں گی، لیکن تھوڑا مشکل کام ہے، جو شاید عام افراد کی سمجھ سے باہر ھو، پیپلز پارٹی نے مہنگے، غیر مناسب اور پاکستان کے مستقبل پر بوجھ ڈالنے کے لیے رینٹل پاور کمپنیوں سے معاہدے کیے، ان میں کارکے کمپنی کا انجام تو آپ نے دیکھ لیا ھو گا کہ کمپنی کو ھمارے تحقیقاتی اداروں نے بے نقاب کیا، اور پاکستان پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد تھا جیسے وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے بیٹھ کر سیٹل کیا، بالکل ایسے ہی مسلم لیگ ن کے دورے حکومت میں انتہائی مہنگے معاہدے کیے گئے، آئی پی پیز کے ھاتھوں پہلے ہی پاکستان کو شدید خساروں، لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کا سامنا تھا، میاں صاحب کی حکومت میں ان کمپنیوں کے ساتھ ڈالرز میں مہنگے معاہدے کیے گئے، آپ سادہ الفاظ میں یہ سمجھیں کہ ایک پاور کمپنی بجلی پیدا کرنے، منصوبے لگانے اور تمام اضافی اخراجات حکومت پاکستان سے وصول کرے، پھر ڈالر میں ریٹ طے کر کے بجلی فروخت کرے تو یہ عوام کے لیے کیسا ھوگا، پھر گورنمنٹ ٹیکس یا سبسڈی دونوں میں عوام کو الجھا کر رکھے، ٹیکس سے فورآ عوام پر بوجھ اور سبسڈی سے بعد میں اچانک بجلی کے بلوں، فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وصولیاں کتنا نقصان ھو گا؟، غیر ملکی کمپنیاں اربوں ڈالر کمائیں، چند لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیے کمیشن دے دیا جائے, یہ بات تحقیق میں کار کے کمپنی نے تسلیم کی، گزشتہ مہینوں موجودہ حکومت سے  ا زسر نو معاہدوں میں آئی پی پیز کے مالکان نے تسلیم کیا کہ کمیشن بھی دیا گیا اور ھم نے بے شمار منافع بھی کمایا،گویا لوڈ شیڈنگ تو ختم ہو  ئی تھی مگر مہنگی بجلی سے انڈسٹری بند، عوام پر بوجھ، روزگار ختم، برآمدات اور پیدوار شدید متاثر اور آج مہنگائی کا جن بوتل سے باہر دندناتا پھر رہا ہے، یہ کہانی کسی کی سمجھ میں شاید نہ آئے لیکن کھوج لگائیں گے تو پتہ چل جائے گا، صرف کے الیکٹرک، کا کراچی میں بجلی کا معاہدہ ، نتائج اور اقدامات پڑھ لیں ھوش ربا کہانی ملے گی، دوسری طرف موجودہ حکومت نے آئی پی پیز سے از سر نو معاہدے کیے جو پاکستانی روپے میں 15 فیصد کم منافع پر کیے جا رہے ہیں، موجودہ حکومت پر الزام ہے کہ وہ صنعت اور توانائی کے  لیےکچھ نہیں کر رہی اس وقت تک موجودہ حکومت نے 1800 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے معاہدے کر رکھے ہیں جن میں گبرال ھائیڈرو پاور پراجیکٹ، مدیان ھائیڈرو پاور پراجیکٹ، داسو ھائیڈرو پاور پراجیکٹ اور آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہیں، اول الذکر کے لیے عالمی بینک سے 1 ارب 15 کروڑ ڈالر کا معاہدہ ھے، جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت آزاد پتن کا نیا معاہدہ شامل کیا گیا جو700.7 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا، یہ منصوبے 2026ء میں مکمل ھوں گے۔

(جاری ہے)

صرف دس دنوں میں چار ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے ھوئے، متبادل توانائی کے ذرائع کے لیے روس سے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ ھے جو 500 ملین کیوبک فٹ گیس سمندر کے راستے پاکستان کو دے گا، جرمنی سے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا 4 ملین یورو کا ھے، کے الیکٹرک ایک ہزار میگاواٹ کا نیا پراجیکٹ لگائے گا، اسی طرح ماحول دوست توانائی کے ذرائع کے لیے ھائیڈرو پاور پراجیکٹ پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور ایک بڑے منصوبے دیا میر بھاشا ڈیم پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔

اج ہی وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزراء کے ساتھ بیٹھ کر بریفننگ دی اور صنعتوں کے لیے سستی بجلی کا اعلان کیا، چھوٹی صنعتوں کے لیے 50 فیصد، اور تین سال کے لیے 25 فیصد کم نرخوں پر بجلی دینے کا اعلان کیا، کیا یہ صنعتی انقلاب لانے کے لیے بڑا قدم نہیں ھے؟ماضی میں کوئی ایسی مثال دیکھ لیں اس وقت پاکستان کا کارٹن سیکٹر 800 سو ارب کے سرپلس میں ھے، سیمنٹ، آئی ٹی اور کاٹن کی برآمدات میں تیس سے چالیس فیصد تک اضافہ ھو چکا ھے، کاٹن انڈسٹری، آٹو موبائل ڈبل شفٹیں لگا کر ڈیمانڈز پوری کر رہی ہیں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی فروخت میں تیس فیصد اضافہ ھوا ھے، صنعتیں تیزی سے "میڈ ان پاکستان " پالیسی پر گامزن ہیں تعمیراتی شعبے میں ایک بڑا انقلاب آیا ھے، رئیل اسٹیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر کھڑی ہے،  آپ نے دیکھا کورونا کے بڑے بحران میں بھی برآمدات، سرمایہ کاری اور اسٹاک ایکسچینج میں اضافہ ھی ریکارڈ کیا گیا، ڈالر تیزی سے اپنی طبعی پوزیشن پر نیچے جا رہا ہے، زرعی تحقیق، اور کورونا کے دوران ونٹیلٹرز اور ماسک کی پیدوار اور نئی تحقیق کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے، پاکستان میں جوہری ٹیکنالوجی کا آغاز 1952ء میں ھوا، امریکی صدر ڈونٹ آئزن ہاور کی تقریر"امن کے لیے ایٹم"کے بعد پاکستان نے بھی کینیڈا اور چین کی مدد سے ایٹمی بجلی گھر بنائے ، کراچی اور چشمہ میں یہ منصوبے مزید اضافے کے ساتھ جاری ہیں، جو کل پیداوار کا 20 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ھوا ھے، اس لئے ھائیڈرو پاور پلانٹ سے سستی بجلی کے واضح مواقع موجود ہیں جس پر موجود حکومت بیرونی سرمایہ کاری سے ماحول کے تحفظ کے ساتھ معاہدے کر رہی ہے، بات مہنگے معاہدوں کی ھو رھی ھے،  مہنگائی میں ان مہنگے معاہدوں کا بڑا ہاتھ ہے، اس لیے حکومت کا ھاتھ تنگ ھے، البتہ موجودہ حکومت کو مہنگائی کم کرنے پر سنجیدگی دکھانا ھو گی ورنہ 2023ء کا الیکشن طوفانی مہنگائی پر لڑا جائے گا یا پھر غداری اور کرپشن کی گونج پھر سنائی دے گی، آج حکومت صنعتوں کو ریلیف دے رہی ہے تو انہیں روزگار اور سستی اشیاء کے لیے پابند بنانا چاہیے ساتھ ھی برآمدات کا ھدف بھی رکھا جائے تو زیادہ بہتر نتائج ھوں گے، پاکستان میں 1960ء چھوٹی صنعتوں کی ترقی کا دور تھا، ھر گھر میں فیکٹری اور روزگار تھا، اسی فلسفے پر چین نے ترقی کی اب خان  صاحب نے چین کو ترقی کا رول ماڈل قرار دیا ہے تو صنعتی انقلاب تو آنا چاہیے۔

جس کے لیے یہ پہلا قدم اچھا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :