"سوری جناح"۔۔۔ مظلوم بھارتیوں کی پکار۔

جمعہ 29 جنوری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بیس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقعہ پر لال قلعے پر لہرایا جانے والا جھنڈا "لال پیلا" تھا ، کسانوں میں اتنا غصہ تھا کہ وہ خالصتان زندہ باد کے نعرے بھی زبان پر لے آئے، یوم جمہوریہ کی پریڈ راج پنتھ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر جمہوریت تھی، مگر راج پنتھ میں سیکولر بھارت کے مخالف آر ایس ایس کے تیار شدہ کارکن "ہندو ریاست"کا جھنڈا لہرا رہے تھے، برطانوی حکومت کا نافذ کردہ انڈین ایکٹ 1935ء ختم کرکے 1950ء میں سیکولر بھارت کا طویل ترین تحریری آئین منظور ہوا، اس وقت بھی راشٹریہ سیوک سنگھ آر ایس ایس نے سیکولر بھارت کے خلاف تجاویز پیش کر کے آئین کو متنازعہ بنا دیا تھا، آج مودی کے بھارت نے کشمیر کو تقسیم کرکے، مسلمانوں کے خلاف شہریت کے قوانین میں ترامیم لاکر اور اپنے ظلم، فاشزم اور ھندواتا کے نظریات نافذ کر کے ھندوؤں کی نفسیات، تنگ نظری اور تعصب کو نمایاں کر دیا، سب سے بڑی سیکولر جمہوری ریاست کا دعویٰ بے نقاب اور پردہ چاک ہوگیا، سکھوں کے رہنما جگویر سنگھ نے تو یہ بھی ٹویٹ کیا کہ"سوری جناح"آپ ٹھیک کہتے تھے، یہ بات اس سے قبل  کشمیری رہنما فاروق عبداللہ، سابق وزیر اعلی مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی، اور  پارلیمنٹرین ششی تھرور بھی کر چکے ہیں، کل شاہ ولی، سرسید، علامہ اقبال اور محمد علی جناح بھی کہتے رہے، یوم جمہوریہ پر جہاں کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا وہاں سب سے زیادہ کسان تحریک نے عالمی سطح پر حمایت حاصل کر لی اور وہ کسی صورت اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنا نہیں چا رہے، دہلی میں لاکھوں کسانوں کا مارچ، جس میں  ٹریکٹر ز پر، گھوڑوں پر سوار کسان اور پیدل سفر کرتے لوگ ہوئے،  سرحدوں سے بھارتی دارالحکومت کے وسط میں پہنچ گئے، یہ اس کڑاکے کی سردی  سب سے مضبوط تحریک بن چکی ہے، جہاں مذاکرات کے کئی دور ہوچکے، مودی وعدے کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دے دیا، مگر کسان متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے پر مصر ہیں، گولی چلے یا لاٹھی، مرد اور خواتین لاکھوں کی تعداد میں۔

(جاری ہے)

بڑھتے جارہے ہیں، دوسری ریاستوں میں بھی کسانوں کے حق میں مظاہرے ہوئے، ایک طرف یوم جمہوریہ کی پریڈ، ثقافتی، عسکری اور علاقائی فلوٹ کے ساتھ مودی کا گھمنڈ اور رافیل طیاروں کی پروازوں کا سلسلہ جاری تھا دنیا کی نظر کسانوں کے مارچ پر مرکوز تھی، یوم جمہوریہ کی پریڈ میں رام مندر کا ماڈل تھا تو یہاں کسان کا جنازہ،  لاٹھی، گولی، آنسو گیس اور رکاوٹیں،  مارچ میں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش سے  ہزاروں افراد شریک ہوئے، کسان مارچ کی حمایت میں دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے، بھارت میں سکھوں، مسلمانوں، عیسائیوں،اور دیگر اقلیتوں کی کثیر تعداد ھے جو مودی کے دور حکومت میں بے انتہا ظلم کا شکار ہے جو کسی جناح کو پکار رہی ہے، دوسری طرف بھارتی معیشت، کاروبار اور کورونا کی صورتحال بری طرح بگڑ رہی ہے، ریاست کرناٹک اور دہلی میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والوں پر بھی اندھا ظلم کیا جارہا ہے، کسان تحریک کی بنیاد متنازع قوانین بنے تھے جس کے تحت فصلوں کی قیمت نجی شعبوں کو دی جا رہی تھی، کسان خوف زدہ تھے کہ اس سے ھم غیر محفوظ اور برابری کی بنیاد پر پیداوار فروخت کرنے کے قابل نہیں رہیں گے، قرضوں کا سالہ سال سے بڑھتا ہوا بوجھ خاندان کے خاندان نگل رہا تھا، کسانوں کے مختلف رہنماؤں نے بتایا کہ 2004 ء سے 2016ء تک لاکھوں کسان خو د کشیاں کر چکے ھیں آج 70 سال بعد مودی نے ھندوتوا کا پھر اعلان کر کے سیکولر بھارت کا چہرہ مسخ کر دیا 1950ء میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیم کی تجویز پھر ابھر کر سامنے آ گئی لال قلعے پر جھنڈا لہرانے والے خواہشمند بہت تھے حیدرآباد دکن کے اتحاد بین المسلمین سے لے کر جماعت اسلامی پاکستان نے جذبات اور مکے دکھائے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا، آج کسانوں نے اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔

اس جھنڈے نے کسان تحریک اور خالصتان تحریک کی مردہ عروق میں پھر گرم خون دوڑا دیا۔1998ء میں جب بی جے پی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تو آئین میں ترامیم کے لیے اٹل بہاری واجپائی نے جسٹس نارائن کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا، جس نے 249 سفارشات مرتب کیں مگر واجپائی کی اتحادی حکومت ترامیم پر عملی کام زیادہ نہ کر سکی، جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، خود حکومت کے اندر سے آئین میں ترامیم کی آوازیں بلند ہوئیں، اس کی بڑی وجہ آر ایس ایس کا وہی ایجنڈا اور نظریہ ہے، جہاں بھارتی باشندہ پہلے ہندو ھے، پھر کچھ اور اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز سے ہی مودی کشمیر، مسلمانوں اور اقلیتوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، چھبیس جنوری 1949ء کو منظور والا سیکولر بھارت کا آئین "سب سے پہلے ھندو" کے نظریے میں تبدیل ہو گیا، مسلمان، سکھ، عیسائی اور اقلیتوں کے تمام گروہ دوسرے درجے کے شہری اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، آج جہاں بھارت دنیا کے لئے صرف وسیع ابادی اور تجارت کی وجہ سے اہم تھا، مودی نے ھندوتوا کو فروغ دے کر اقوام عالم کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا، حال ہی میں اقوام متحدہ کی کمیٹیوں، بھارت کے جعلی نیٹ ورک اور افغانستان میں داعش کی مدد کرنے کے انکشافات پر اسے شدید سبکی کا سامنا ھے، دوسری طرف کسان تحریک عروج پر ھے، یوم جمہوریہ پر دولاکھ سے زائد ٹریکٹر ریلی کی صورت میں دہلی میں داخل ہوئے، مودی یوم جمہوریہ کی پریڈ سے کھل کر خطاب نہ کر سکے، کیا بھارت میں کسانوں کی تحریک یا آئین میں ترامیم اور نئے قوانین اس کی تقسیم کا باعث بنیں گے؟دیکھا جائے تو یہ تاریخ کا ایک سبق ہے کہ جب انتہا پسندی، اور ظلم حد سے بڑھ جائے تو اس سے کوئی سخت نتیجہ ضرور نکلتا ہے، اب یہ کسان ہوں،مسلم اقلیتوں کی قیادت ہو یا کسی محکوم طبقے کی اجتماعی سوچ وہ کسی اچھی تبدیلی کی طرف لا سکتی ہے۔

انقلاب روس کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو بھی آپ کو محروم طبقات کا یکجا ھو کر جدوجہد کرنا، کسانوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی جدوجہد ملے گی، یہاں بھی اناج اور زمین کسانوں کو خطرے میں لگتا ہے، وہاں بھی ایسے ہی خطرات انقلاب کی طرف بڑھے تھے، امریکہ کی نئی انتظامیہ بھارت کی اس صورتحال میں کیا کردار ادا کرتی ہے، اس سے بہت چیزیں سامنے آجائیں گی، کسانوں کو دو ماہ سے زیادہ ہو چکے جس طرح ان کے قدم بڑھ رہے ہیں، باقی ریاستوں سے جو حمایت مل رہی ہے، لال قلعے پر لہراتا کسان پرچم اس کا گواہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :