افغانستان سے فوجی انخلا اور بھارت کا خوف

پیر 19 اپریل 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

طویل سوچ و بچار کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کیا، قبل اس کے وہ افغان پالیسی پر ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلوں پر نظر ثانی کا اعلان کر چکے تھے، پاکستان میں عمران خان وہ واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے مسلسل یہ موقف اپنائے رکھا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ھے اور پاکستان آئیندہ کسی ملک کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا، ماضی میں ڈروان حملوں پر بھی انہوں نے سخت موقف اپنایا، یہاں تک کہ نیٹو سپلائی لائن بھی بند کی، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس طرح کا موقف اپنانے سے ڈرتی تھیں، یہاں تک کہ سیاسی مذہبی جماعتوں نے بھی کبھی کھل کر یہ موقف نہیں اپنایا، 2018 ء میں عمران خان حکومت میں آئے تو اپنی بین الاقوامی شہرت اور مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ، افغان حکومت، اور طالبان کو قیام امن اور ترقی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، جس سے ٹرمپ انتظامیہ اس بات کی قائل ہوئی اور بالآخر فروری 2020ء میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ امن طے پایا، جس پر سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو ، طالبان نمائندوں اور زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے، مذاکرات  جاری رہے اور پاکستان کی کوششوں سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بھی مذاکرات کے دو سیشن ھو چکے، ماسکو، بیجنگ اور ریاض بھی ان مذاکرات میں ان بورڈ تھے کہ امریکہ میں حکومت تبدیل ہوئی جس کے بعد خدشات تھے کہ امن مذاکرات متاثر ھوں گے، حال ہی میں جو بائیڈن اور نیٹو نے فوجی انخلا کا اعلان کر کے، اسی پالیسی کو تسلسل بخشا، اور امریکی وزیر خارجہ بیلکن نے افغانستان کا دورہ کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت جاری رکھی، ستمبر میں نائن الیون کو بیس سال کا عرصہ گزر جائے گا، ان بیس سال میں دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، امریکہ نے القاعدہ کے خلاف جنگ میں افغانستان اور عراق میں 45 ٹریلین ڈالر جھونک دئیے، لاکھوں افراد کو ہلاک کر دیا، افغانستان اور عراق کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا، ھزاروں امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے، یہی نہیں پاکستان 1979ء سے جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر معاشی اور معاشرتی طور پر تباہ ھو چکا، ڈالر کی دوڑ، معاشرے کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر انتہائی پسندی اور بندوق کی زبان عام ھو گئی، مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا، امریکہ ھمارے جیسے ممالک کو کبھی مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا، اس کا ھدف فتح نہیں، انتشار ھے، اس کو کم لوگ سمجھتے ہیں، پاکستان کی مضبوط فوج نہ ھوتی تو آج پاکستان کا نقشہ بالکل مختلف ہوتا! اس وقت سب سے زیادہ خوف بھارت کو لاحق ہے، وہ دنیا کے سامنے یہ موقف رکھ رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد طالبان مقبوضہ کشمیر کا رخ کریں گے حالانکہ  ایسا ہرگز نہیں ہے، طالبان پہلے ہی اعلان کر چکے کہ نہ وہ داعش کو پنپنے دیں گے اور نہ ہی ان کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم ہیں، البتہ بھارت افغانستان میں مضبوط دسترس چاہتا ہے اور وہ باوجوہ اس نہیں مل پا رہی ،جہاں تک معاشی راستوں کا سوال ھے تو وہ پاکستان سے ھو کر گزرتے ہیں، افغان عوام میں بھارت اپنا مقام نہیں بنا سکا اس کی وجوہات ہیں ، دراصل بھارت افغان گروپوں کی عسکری مدد کر کے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اور کرے گا بھی، دنیا اس سے واقف بھی ھو چکی کہ وہ داعش اور تحریک طالبان پاکستان کے چھپے گروہوں کی مدد کر رہا ہے، یہ پراکسی وار افغانستان کی سرزمین پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مضبوط سیاسی حکومت اور انتظامیہ کام شروع نہیں کرتی، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغان حکومت اور طالبان۔

(جاری ہے)

اس کو ممکن بنائیں گے، امریکہ کا اگلا ھدف چین اور روس ہیں جن کے درمیان سرد اور گرم جنگ جاری ہے، امریکہ روس پر پابندی لگا رہا ہے جواب میں روس بھی ایسے اقدامات کر رہا ہے، امریکہ ، روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی کے ممکنہ بلاک سے بھی پریشان ھے اس بلاک کو توڑنے کے لیے وہ بھارت کو استعمال کرنا چاہتا ہے مگر بھارت کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے نکل کر جنگ کا تجربہ نہیں رکھتا، اس کی فوجی استعداد جتنی بھی ھو اس درجہ طویل جنگ نہیں لڑ سکتا، ماضی میں آپ دیکھ لیں جب بھی بیرونی حملہ اور آئے بھارت کے باشندوں نے جنگ کی ،مگر اپنے علاقے سے باہر نکل کر نہیں لڑ سکے، حال ہی میں بھارت اور چین کے درمیان جنگ میں بھی بھارت پسپا ھو کر رہ گیا، اب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر  وہ سخت خوف زدہ ھے، بھارتی جرنیل پین روات نے خدشہ ظاہر کیا کہ طالبان مقبوضہ کشمیر کا رُخ کر سکتے ہیں، یہ صرف خوف چھپانے کی کوشش ھے، اگرچہ امریکہ نے افغانستان میں بھارتی رول کو تسلیم کیا ہے مگر اس کے مقاصد سے آگاہ افغان عوام کے بیشتر نمائندے اس کے حق میں نہیں، مستقبل میں سی پیک اور افغانستان، اور وسط ایشیا سے بڑھتے پاکستانی تعلق اس کی بڑی پریشانی ھے، پاکستان نے حال ہی میں افغانستان سے تجارت کو وسعت دی ہے اور مزید ٹرانزٹ ٹریڈ۔

کے معاہدے ھو رہے ہیں، پاک، افغان تجارت کا حجم ڈبل ھو چکا ھے، یہی بھارت کا اصل خوف اور پریشانی ھے، مگر پاک، افغان رشتہ فطری ھے اور فطرت کے راستوں کو زیادہ دیر روکا نہیں جا سکتا۔ امریکہ کا کوئی بھی ھدف ہو بھارت، پاکستان کی طرح مضبوط سپورٹ نہیں دے سکے گا، حال میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے دورہ پاکستان پر بھارت کو سخت تشویش ہے، وہ لاکھ کوشش کے یہ دورہ روک نہیں سکا پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی اور تجارتی تعاون بڑھ رہا ہے، اس کی وجوہات بھارت اور امریکہ کے معاہدے اور خطے میں امریکی ھولڈ کے لیے بھارت کا کردار ھے، روس پاکستان تعلقات سے برطانیہ کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے، وہ پاکستان کو ایف ٹی ایف سے ھٹ کر واچ لسٹ اور ریڈ لسٹ میں ڈالنے کے اقدامات کر رہا ہے، حال ہی میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف خوف ناک جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس سے یہ خدشہ ہے کہ دو نیوکلیئر طاقتیں خطرناک تباہی کا باعث بنیں گی، یہ سب کچھ اسی نئی صف بندی کا حصہ ہے البتہ یہ بھی ایک شطرنج کا کھیل ہے دیکھتے ہیں کون عقلمندی سے چال چلتا ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :