عمران خان کے دو درد اور دورہ ازبکستان

پیر 19 جولائی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

عمران خان پر کوئی جتنی بھی تنقید کرے، ان کی غلطیوں کو اچھالے، لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ  ایک انہیں پاکستان کا اور دوسرا پاکستانیوں کا درد ہے، وہ پاکستان سے باہر جاتے ہیں، پاکستان کے لیے لڑتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو ان سے لڑتے ہیں جو پاکستانیوں کو بے حال اور کنگال کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں سیاسی اشرافیہ ہو کہ مافیاز اور قبضہ گیر اس چومکھی لڑائی کے اثرات دیر بعد اور دیر پا ھوں گے، جن سے پاکستان کے نوجوان بہتر پاکستان کا نقشہ دیکھ پائیں گے کوئی کام کرے گا تو غلطیاں بھی ھوں گی، کیا باقی لیڈر کام نہیں کرتے تھے، جی کرتے تو تھے اپنا زیادہ اور پاکستانیوں کا کم جس کی وجہ سے انہیں پریشانی  نہیں ہوتی تھی، وہ عوام  کے خون کی سرخی چھین کر کاروبار بھی کرتے تھے میں وزیراعظم عمران خان کا کوئی تعریفی کالم نہیں لکھ رہا، دنیا دیکھ رہی ہے، اب تو کشمیر ایشو پر انڈین اخبارات بھی عمران خان کی آر ایس ایس مخالف تحریک کو سراہتے اور مقبول قرار دیتے ہیں، آپ ھندوستان ٹائم اٹھائیں، یا نیورک ٹائم، مودی کی فاشسٹ پالیساں اور آر ایس ایس کی بحث عام ہے، میں لکھوں نہ لکھوں فرق نہیں پڑے گا ،عمران خان کا افغانستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک ہی پیغام تھا کہ  میدان جنگ نہیں، "مذاکرات کی میز" مودی ھندو ازم میں جکڑے گئے اور اشرف غنی سر عام پکڑے گئے، جب انہوں نے پاکستان پر وہی الزام تراشی کی، جو افغانستان کے حکمران 1947ء سے کرتے آرہے ہیں، انہوں نے ھندو ازم کو خوش آمدید کہا، کمیونزم اور سوشلزم کے لیے دروازے کھولے مگر پاکستان کو کبھی راکٹ باری، میزائل کی بارش اور بندوق تان کر ہی دیکھا، یہی وجہ تھی کہ افغان عوام اور افغان حکومت میں ھمیشہ فاصلے رہے، بیرونی حملہ اور ھوں یا جنگجو گروپ یہ اسی پالیسی کا ردعمل ھے، وہ سکون اسلام آباد میں اور سازش دہلی میں ڈھونڈتے ہیں، سینٹرل ساؤتھ ایشیا کانفرنس ازبکستان میں عمران خان نے اشرف غنی اور بھارتی مندوب کو سامنے رکھ کر حقیقت بتائی ، آئینہ دکھایا، 2002ء سے پہلے افغانستان نے پاکستان کو بہت زخم دیئے، ھم اپنے بچپن میں روز خبریں سنتے تھے آج نجیب اللہ حکومت نے کتنے راکٹ اور میزائل پاکستان کے علاقوں میں پھینکے، پھر مزاحمت کار آئے تو 2002ء سے لیکر اب تک پاکستانی معاشرت، معیشت اور امن مکمل تباہ ھوا، اسلحے کے انبار لگ گیا، 160 ارب ڈالر سے زائد مالی اور ستر ہزار کا جانی نقصان ھوا، کیا ھم نے چالیس لاکھ افغان بھائیوں کی مہمان نوازی نہیں کی،؟ پاکستان کے کسی حکمران نے اتنا کھل کر نہ دنیا کے سامنے بات کی اور نہ ہی افغانستان سے کچھ کہا، ساؤتھ ایشیا کانفرنس میں عمران خان نے یہ سب کر دکھایا، اس دلیری، جرات اور سچائی کے ساتھ بھارت اور افغانستان دونوں کو حقائق دکھائے، کیا کسی رہنما نے ایسا کیا یے؟ سوچیں عمران خان کو کتنا درد ھوگا، امریکہ ہو، برطانیہ ہو یا یورپ اور مسلم ورلڈ عمران خان نے کسی دوغلی پالیسی کا اظہار نہیں کیا، صاف اور واضح بات کی، امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور طالبان و افغان حکومت آمنے سامنے ہیں، درمیان میں بھارت ایک مکمل سازشی پالیسی کے ساتھ موجود ہے، کبھی داعش، اور کبھی متحرب گروپس کیا یہ پالیسی دنیا کو نظر آئے گی؟ اس مرتبہ امریکہ یہاں سے دوسری مرتبہ گیا ہے،" ںلاوجہ آنا اور بے وجہ جانا" اب اسے مہنگا پڑے گا کیونکہ اس خطے میں روس، چین، ایران ، پاکستان اور ترکی کی ایک واضح ھم آہنگی ہے،اب امریکہ کو ان رکاوٹوں سے گزر کر آنا ہوگا، اس کے پیچھے اسی لیڈر شپ کی سوچ ہے، ازبکستان میں اس کا اظہار آپ نے دیکھا ہے، بھارت اسی خوف میں اپنے تھکے ہوئے گھوڑے دوڑا رہا ہے، جو کبھی افغانستان میں اور کبھی کشمیر میں ہانپتے ہیں، خطے میں افغانستان اس وقت اہم موضوع ہے، عمران خان آج بھی اسی موقف  کے ساتھ کھڑے ہیں ، ازبکستان میں باہمی معاہدے بھی ہوئے، گوادر تک ریلوے لائن، مستقبل کی بڑی بندر گاہ کی تعمیر پر کئی معاہدے ہوئے،گوادر کی اہمیت اتنی بڑھ چکی کہ چین نے دبئی سے سارا آپریشن گوادر منتقل کر دیا ہے،
اسی خوف کی وجہ سے امریکہ اور خصوصاً انڈیا تلملا رہا ہے امریکہ اس کو روکنے کے لیے یہاں انڈیا سے کام لے رہا ہے اور دوسری طرف وہ تائیوان کے ذریعے چین پر اور یوکرائن کے ذریعے روس کے پر نظریں گاڑے ہوئے ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ مستقبل میں دنیا دیکھے گی، البتہ لیڈر شپ کی مضبوطی ضروری ہے، عمران خان نے ازبکستان میں اسی تاریخ کو دہرایا ہے، وہ انڈین میڈیا سے بات ہو یا دنیا سے مخاطب ہو، پاکستان کا درد نمایاں تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :