28مئی یادگار دن

ہفتہ 29 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

1998کے آغاز میں بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت بنی تو اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔بی جے پی ہمیشہ سے پاکستان مخالف بیانیے پر ووٹ لیتی رہی ہے۔واجپائی حکومت نے اقتدار میںآ نے کے بعد پاؤں جماتے ہی بھارت کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کردیا۔واجپائی حکومت نے پرتھوی مزائل 350کلو میٹر تک مار کرنے والا اور اگنی ٹو جو 200ہزار کلو میٹر تک مار کرتا تھا ان کی تیاری شروع کردی۔

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا دفاع مزید مضبوط ہوتا جا رہا تھا بھارت ہتھیاروں اور فوج کے مقابلے میں پاکستان سے کئی گنا آگے نکلنے کی تیاریوں میں تھا۔دوسری جانب امریکہ جو چند سال قبل تک پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا اب وہ بھارت کے ساتھ جڑ گیا۔

(جاری ہے)

امریکہ کا بھارت کے ساتھ تجارت کا سالانہ حجم دس بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔بھارتی دو مزائلوں کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف ایم الیون مزائل تھا جس کی رینج صرف 300کلو میٹر تک تھی۔

پاکستان نے پھر 6اپریل 1998کو غوری مزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔یہ مزائل بھارت کے اب تک تمام تیار ہونے والے مزائل کا توڑ تھا۔اس کی رینج 1500کلو میٹر تک تھی۔غوری مزائل سات سو گرام تک ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔اس مزائل کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ اس کو کوئی اینٹی مزائل سسٹم روک نہیں سکتا۔اس مزائل سے بھارت کے دارالحکومت دہلی،ممبئی،احمد آباد،ناگپور،چنائے،جیسلمیر ،مدارس اور جالندھر کو مکمل تباہ کیا جا سکتا تھا۔

اس مزائل کے کامیاب تجربے کے بعد واجپائی حکومت اور بھارتی عوام میں بے چینی پھیل گئی۔وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف 11مئی 1998کو قازقستان کے سرکاری دورے پر تھے۔تو اس دوران میاں نوازشریف کو اطلاع دی گئی کہ بھارت نے راجستان کے علاقے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کردیے ہیں۔اسی دن پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے میں ان کے یوم دفاع کی تقریب چل رہی تھی ۔

اسی تقریب میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدر بھی موجود تھے۔جنرل جہانگیر کرامت نے ڈاکٹر قدیرسے پوچھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا جائے؟ڈاکٹر قدیر نے کہا ہم بالکل تیار ہیں۔اب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر عالمی ردعمل کا جائزہ لینا شروع کردیا۔کیونکہ ان دنوں امریکہ کی قیادت نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم شروع کی ہوئی تھی۔

ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت پر امریکہ،برطانیہ،جرمنی،نیوزی لینڈ،جاپان،آسٹریلیانے پابندیاں لگادی۔جبکہ چین اور روس نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔دنیا کی تمام بڑی طاقتوں نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کی مذمت کی جبکہ امریکہ نے بھارت کی 12کروڑ ڈالرکی فوجی امداد بھی روک لی۔کئی ممالک نے بھارت سے اپنے سفیر بھی واپس بلالیے۔ان عالمی حالات میں پاکستان کے لیے جوابی ایٹمی دھماکے کرنے انتہائی مشکل ترین ہو چکا تھا۔

لیکن عالمی برادری کا یہ دباؤ چند دن تک ہی رہا کیونکہ امریکی سرمایہ کاروں نے بھارت میں 7ارب ڈالر کی سرمایہ کاری تھی۔اب امریکی سرمایہ کاروں نے اپنی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ بھارت سے پابندیاں اٹھائی جائیں کیونکہ اس سے امریکی مفاد کو ہی خطرہ ہے۔اسی دوران بھارت نے تین دن بعد مزید دو اور ایٹمی دھماکے کردیے ۔یہ تمام صورتحال پاکستانی عوام کیلئے انتہائی مایوس کن تھی۔

16مئی کو جی ایٹ ممالک کا اجلاس ہوا جس میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں نے بھارتی ایٹمی دھماکوں پر مذمت کرنے کی بجائے ،روس نے اجلاس میں کہا بھارت چاہے تو مزید چار اور دھماکے کرلے۔جبکہ اجلاس میں موجود امریکہ ،اسٹریلیا اور چین نے بھارت میں مزید بجلی کے منصوبوں لگانے کی پیشکش کردی۔اسی دوران جرمنی کے میڈیا نے 18مئی کو ایک جھوٹی خبرپھیلادی کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کردیے ہیں۔

یہ خبر شائع ہوتے ہی پاکستان میں غیر ملکی سفیر اور دیگر عالمی سربراہان کے فون آنا شروع ہو گئے۔اس عالمی ڈرامے بازی اور غیر سنجیدہ رویے نے واجپائی حکومت کو مزید ہوا دی اور پاکستان میں مزید بے چینی بڑھ گئی۔اب واجپائی نے ایٹمی دھماکوں سے آگے بڑھ کر پاکستان پر ایٹمی حملے کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ان تمام عالمی حالات کو اکیلا وزیراعظم پاکستان نوازشریف ہی برداشت کررہا تھا ۔

کیونکہ ایٹمی دھماکے کرنے اور ان کے ردعمل میں عالمی دباؤاور نتائج برداشت کرنے کی تمام ذمہ داری ان کے کندوں پر تھی۔انہی نتائج سے اب امریکی صدر بل کلنٹن بار بار نوازشریف کو آگاہ کررہے تھے۔بل کلنٹن نے نوازشریف کو کہا اگر آپ نے دھماکے کیے تو پاکستان پر سخت ترین پابندیاں لگادی جائیں گئیں۔اس کے ساتھ امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم میاں نوازشریف کو 5ارب ڈالر اور ایف 16طیاروں کی رقم واپس کرنے کا بھی لالچ دیا۔

بل کلنٹن کی بار بار فون کالز پر نوازشریف صرف باتیں سن رہے تھے لیکن ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہے تھے۔اب امریکہ نے پاکستان میں ایک ہائی پروفائل وفد بھیجا جس کا مقصد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو قائل کرنا تھاکہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں۔ امریکی وفد میں جنرل اینتھنی اور نائب وزیر خارجہ ٹال بوٹ بھی شامل تھے۔امریکی وفد نے پہلے ترلے منتیں پھر دھمکیوں سے کوشش کی لیکن پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے امریکی دباؤ برداشت کرنے سے صاف انکار کردیا۔

پھر 19مئی کو بل کلنٹن اور ٹونی بلیئر نے آخری مرتبہ وزیراعظم میاں نوازشریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن دونوں ناکام رہے۔اب امریکہ نے آخری حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان پر عراق جیسی پابندیاں لگائی جائیں ۔اس کیلئے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی جائیگی۔اس قرارداد کے مطابق اگر پاکستان ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو اس پر عراق جیسی پابندیاں لگائی جائیں گی کہ پاکستان دنیا سے صرف ادویات اور خوراک ہی خرید سکتا ہے جبکہ پاکستان کی فضاء پر ہر وقت امریکی طیارے پرواز کرتے رہے گے۔

عملی طور پر پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی کوشش تھی۔لیکن اسی دوران بھارت نے ایک غلطی کردی۔بھارت نے چین کو دھمکی کہ وہ بھارت کے علاقے خالی کردے جن پر اس نے 1962میں قبضہ کیا تھا ۔اب چین نے بھی اقوام متحدہ کو واضع پیغام دے دیا کہ اگر اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف قرارداد آتی ہے وہ اس کو ویٹو کردیے گا۔پھر یہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش نہ ہو سکی۔

اگلے دن مصری اخبارمیں ایک خبر شائع ہو ئی کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے۔کیونکہ اسرائیل اس سے پہلے عراق کی تنصیبات پر حملہ کرچکا تھا اور وہ تباہ بھی ہوچکی گئی تھیں۔اب نوازشریف پر عالمی دباؤ کے ساتھ پاکستان کی عوام اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا بھی دباؤ تھا۔پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے لوہاری گیٹ سے نیلا گنبد تک ریلی نکالی ۔

جس میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو کہاجرات کا مظاہرہ کریں اور ایٹمی دھماکے کریں ۔روکھی سوکھی کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے۔جبکہ اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نوازشریف کو جنرل نیازی ہونے کے طعنے دے رہیں تھی۔بینظیر نے کہا نوازشریف جنرل نیازی بن کر بھارت کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی اے پی سی نے بھی وزیراعظم نوازشریف کو 30مئی تک ایٹمی دھماکوں کا الٹی میٹم دے دیا۔

اب وزیراعظم میاں نوازشریف نے دوست ممالک کو اعتماد میں لینا شروع کردیا۔وزیراعظم نوازشریف نے سب سے پہلے سعودی عرب،چین ،بلجئیم اور کویت کو اعتماد میں لیا۔ان ممالک نے پاکستانی موقف کی مکمل حمایت کا یقین دلادیا۔اب عملا میں میاں نوازشریف نے دنیا کو کہہ دیا کہ ”اب روک سکو تو روک لو“۔28مئی جمعرات کے روز 3:16منٹ پر چاغی کے پہاڑپانچ ایٹمی دھماکوں سے گونج اوٹھے۔

پھر دو دن بعد پاکستان نے ایک اور ایٹمی دھماکہ کردیا۔اب بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے چھ دھماکے کردیے تھے۔وزیراعظم میاں نوازشریف نے تمام عالمی دباؤ اور امریکی لالچ کے باوجود پاکستان کو بھارت پر برتری دلادی۔وزیراعظم میاں نوازشریف نے پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنادیا۔اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں ،اسلامی ممالک کے سربراہان اور ان ملکوں کی عوام نے نوازشریف کو اسلامی دنیا کاہیرو قراردے دیا۔پھر ایک سال بعد وہی اسلامی دنیا کے ہیرو کی حکومت کا آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹادیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :