ہر تجربے کی ایک قیمت ہوتی ہے

جمعرات 16 ستمبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

چین کی معروف کمپنی علی بابا کے چیئر مین جیک ما امریکہ میں ڈی نائن کانفرنس میں شرکت کیلئے پہنچے ۔اس کانفرنس میں دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں کے سربراہان شریک تھے۔اس کانفرنس میں موجود صحافی اور شرکاء ان مالیاتی اداروں کے سربراہان سے مختلف نوعیت کے پچیدہ اور سخت قسم کے سوالات بھی پوچھ رہے تھے اور کچھ سربراہان جواب دینے کی بجائے شرمندہ ہورہے تھے۔

جیک ما اس کانفرنس میں شرکت کرنے والا واحد چینی شہری تھا ۔جب جیک ما سٹیج پر آیا اس نے تمام تلخ اور پچیدہ سوالوں کے جواب بڑے اطمینان اور پرسکون انداز میں دیے۔اسی کانفرنس کے اختتام پر جیک ما کو ایک امریکی سرمایہ کار نے روکا اور جیک ما کو شام کو اپنے گھر چائے کی دعوت دے دی۔جیک ما اپنے اسسٹنٹ شین وائی کے ساتھ شام کو اس امریکی سرمایہ کے گھر پہنچ جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

اس کا گھر ایک پہاڑی پر اکیلا گھر تھا ۔وہ ایک سفید بنگلا تھا جس کے آس پاس سرسبز پہاڑیاں تھی۔جب جیک ما س امریکی سرمایہ کار کے ساتھ چائے پی رہا تھا اسی دوران وہ امریکی سرمایہ کار کہتا ہے کہ میں ایک چینی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے لگا ہوں اس بارے میں آپ کا کیا مشورہ ہے۔جیک ما کہتا ہے کہ اگر آپ فیصلہ کرچکے ہیں تو میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔

ٹھیک ایک سال بعد اسی امریکی سرمایہ کارکا جیک ما کو فون آتا ہے اور کہتا ہے کہ ”آپ نے مجھے اس رات روکا کیوں نہیں ایک سال کے دوران میرا سارا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔تو جیک ما کہتا ہے کہ ہر تجربے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔“
پاکستان میں 2018میں عمران خان کی شکل میں ایک تجربہ کیاگیا ۔یہ تجربہ اب تک پاکستانیوں کو 14ارب ڈالر ز کے غیر ملکی قرضوں ،ملکی بینکوں سے کھربوں روپے کے قرضے الگ،ساڑھے پانچ ارب ڈالرز کورنا ریلیف انٹرنیشنل فنڈز ،400ارب چینی سکینڈل،150ارب سے زائد گندم سکینڈل،8ارب ادویات سکینڈل،100ارب سے زائد پیٹرول سکینڈل ،120ارب ایل این جی سکینڈل ،جبکہ دولہے راجہ بزدار صاحب کے مختلف محکموں میں تین سالوں میں 156ارب کے سکینڈل اور اورنج لائن ٹرین کی تعمیرات میں 38ارب کا سکینڈل سمیت اربوں ڈالرز میں پڑچکا ہے ۔

یہ تمام وہ قرضے اور سکینڈلز کی رقم ہے جو ان تین سالوں میں مختلف ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔یہ تفصیلات کچھ قرضوں اور سکینڈلز کی تھی ۔اگر دوسرے جانب حکومتی ریلیف کی بات کریں تو ان تین سالوں میں پاکستانیوں کو مفت میں کیا ملا ہے ۔لنگر خانے،پناہ گاہیں اورہیلتھ کارڈ شامل ہیں۔چلیں لنگر خانوں اور پناہ گاہوں سے کچھ نشئی اور پردیسی مستفید توہورہے ہیں لیکن ہیلتھ کارڈ سے کتنے لوگ مستفید ہوئے اس حوالے سے پنجاب،وفاق،کے پی کے او ر بلوچستان کے کسی سرکاری ہسپتال کے ایم ایس یا پرنسپل نے ذاتی طور پر یا وزراء صحت نے کبھی میڈیا کے ساتھ ڈیٹا شیئر نہیں کیا کہ کتنے ہسپتالوں سے کتنے مریض اس ہیلتھ کارڈ سے مستفید ہو چکے ہوئے ہیں جن کا اس ہیلتھ کارڈ کے ذریعے مفت علاج معالجہ ہوچکا ہے یا جاری ہے۔

ہر بارعمران خان ایک ہی بات کرتے ہیں ہم نے اتنے لاکھ افراد کو ہیلتھ کارڈ تقسیم کردیے ہیں۔پیچھلے دنوں وزیراعظم نے ملتان میں کاشتکاروں کو کسان کارڈ تقسیم کیے۔اس تقریب کا بہت شاندار انعقاد کیا گیا جس میں عمران خان نے کہاعثمان بزدار کاشہبازشریف سے موازنہ کرنا زیادتی ہے ۔شہبازشریف تو عثمان بزدار کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہے۔اس تقریب کے ختم ہونے کے ایک ہفتے بعد وہی 239کسان جہنوں نے کسان کارڈ لیے تھے وہ جب سکیم کے تحت کھاد کی بوریاں لیتے ہیں ان میں سے خالی کوپن نکلتے ہیں ۔

وہی کسان اس کسان کارڈ کو اٹھاکر ملتان میں احتجاج کرتے ہیں پہلے ہم کھاد لیتے تھے تو اس میں سے کوپن نکلتا تھا تو چار سے پانچ روپے کا کوپن نکلتا تھا اب کسان کارڈ لینے کے بعد وہ کوپن خالی نکل رہے ہیں۔مجھے ابھی یاد ہے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے 9اکتوبر 2016کو پنجاب کے چھوٹے کاشتکاروں میں بلاسود 100ارب کے قرضے تقسیم کیے جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے بارشوں اور آندھیوں کی وجہ سے جن کاشتکاروں کی فصلیں تباہ ہوچکی تھی ۔

”خصوصا ان میں چاول اورکپاس کی فصل کو نقصان پہنچا،عالمی منڈیوں میں کسادبازاری سے کاشتکار بھی متاثر ہو“ا۔وزیراعظم نوازشریف نے کاشتکاروں کو پہنچنے و الے اس نقصان کے پیش نظر 40ارب روپے کا پیکیج دیا۔
اگر عمران خان کے تین سالوں میں مہنگائی کی صورتحال پر غور کریں تو ان تین سالوں میں پاکستان میں چینی کی قیمت میں 52روپے،گھی کی قیمت میں 192روپے،آٹا 450روپے مہنگا ہوا۔

عمران خان کہتے ہیں ہم نے چوروں کو پکڑا عوام کہتے ہیں مہنگائی،عمران خان کہتے ہیں ہم نے کسی کو این آر او نہیں دیا عوام کہتے ہیں مہنگائی۔عمران خان کہتے ہیں ہم نے کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کر دیا عوام کہتے ہیں مہنگائی۔عمران خان کہتے ہیں ہم نے ملک کی سمت درست کردی ہے عوام کہتے ہیں مہنگائی۔عمران خان کہتے ہیں آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے لیکن اب عوام کہتے ہیں خان صاحب اب آپ کے گھبرانے کا وقت شروع ہوا گیا کیونکہ آپ کے پاس ڈلیور کرنے کیلئے ایک سال بچا ہے جو کچھ آپ نے پیچھلے تین سالوں میں کیا اگلے مالی سال میں بھی وہی کچھ کریں گے۔

حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں عمران خان نے عوام کا ردعمل بھی دیکھ لیا چھ ماہ بعد پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہونے جارہے ہیں اگر مہنگائی کی صورتحال یہی رہی تو بلدیاتی الیکشن میں عوام کاردعمل کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :