پاکستان کی جیت

پیر 22 جولائی 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

20 جولائی 2019ء پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن کے طور پریاد رکھا جائے گا ، آزادی کے بعد پہلی بار صوبہ خیبر پختونخواہ کے سات قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے اراکین کیلئے انتخا ب ہوا ۔پاکستان کے اس علاقہ میں پہلے قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوتے رہے ہیں اور یہاں سے منتخب ہونے والے نمائندے علاقہ کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام اور سیاست میں تعمیر ی کردار سے یکسر محروم تھے ۔

آزاد حیثیت میں جیتنے والے عوامی نمائندے اسلام آباد میں نمبر گیمز کا حصہ تو ہمیشہ رہے ، مگر یہ علاقہ بدامنی اور بنیادی حقوق سے محروم ہی رہا ۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین سے امید کی جا سکتی ہے کہ اب پشاو رعلاقائی سیاست کا مرکز بنے گا اسلام آباد نہیں ۔ آئینی ، قانونی ، سیاسی و شہری حقوق ان سات قبائلی اضلاع کی عوام کو میسر آئیں گے ۔

(جاری ہے)


 غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا۔

اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ الیکشن کون جیتا اور کون ہارا ۔ اہم بات یہ ہے حکمران سیاسی جماعت پی ٹی آئی ، پی پی پی ، پی ایم ایل این، جے یو آئی(ف)، اے این پی، جے آئی کے امیدوار میدان میں تھے ۔ پی ٹی آئی کے 16جے یو آئی کے 15اے این پی کے 14، پی پی پی کے 13، نون لیگ کے 5سمیت سیاسی جماعتوں کے 85 امیدوار اور آزاد حیثیت سے 200امیدواروں نے حصہ لیا ۔بیشتر حلقوں میں آزاد امیدواروں کا مقابلہ کسی ایک سیاسی جماعت کے امیدواروں سے رہا۔

ان اضلاع میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر دیکھی گئیں۔ روایتی جوش و خروش بھی نظرآیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی انتخابی مہم میں متحرک رہے ۔
2018 ء کے عام انتخابات میں ان اضلاع میں خوف اور کشیدگی کے ماحول میں الیکشن کا انعقاد ہوا تھا۔ کسی قسم کے دباؤ یا مشکل کا سامنا اب سیاسی قیادت کو نہ تھا ، امن و امان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔

کارنر میٹنگز،دعوت طعام، روایتی سیاسی جوش و خروش، سب کچھ انتخابی مہم کے دوران دیکھنے میں آیا۔
الیکشن کے نتائج آ رہے ہیں، الیکشن کو ن جیتا کون ہارا، قطع نظر انتخابی کامیابی کس کو ہوئی۔ خوش آئین بات یہ ہے کہ امن جیت گیا اور دہشتگردی کو شکست ہوئی۔ قبائلی عوام قومی دھارے میں شامل ہوئے ۔ بلٹ سے بیلٹ کا سفر ہی جمہوریت کی اصل کامیابی ہے ۔

انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت اور اپنے حقوق سے روشناس ہونا اصل فتح ہے ۔قبائلی اضلاع کی کے پی کے کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی علاقے کی ترقی اور حقوق کی ضمانت ہے۔قبائلی علاقوں میں عوام کی تقدیر کے فیصلے جرگوں اور حجروں میں ہوا کرتے تھے آج فیصلہ پولنگ اسٹیشن پر ہوا، ووٹ کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ آئندہ چند سالوں میں بہتر طور پر ہو گا اور اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔

پر امن صاف شفاف انتخابات کروانے میں کامیابی پاکستان کی فتح ہے ۔
قیام پاکستان سے لیکر 1980ء کی دہائی تک ان علاقوں کو فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن کے تحت چلایا گیا، مقامی جرگہ با اثر سرداروں اور حکومت کی عدم دلچسپی نے سیاسی شعور کو پروان چڑھنے کی نہیں دیا۔2004ء کے بعد قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا ْجو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا ۔

ان کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ۔بد امنی اور دہشتگردی کے شکار اس علاقہ سے سیاست کوسوں دورتھی۔افغانستان میں عدم استحکام ، علاقے کی جغرافیائی صورتحال ، بد امنی ایسے میں ان اضلاع کا پیچھے رہ جانا فطری تھا۔پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی بد امنی ، دہشتگردی کی کارروائیوں نے علاقے کے مکینوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔

ایسے حالات میں ترقی ، شعور اور حقوق مانگنا یا اس کے لئے جدو جہد ممکن نہیں۔
 قارئین کرام ! قبائلی اصلاحات کی کوشش پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں کی ، قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے کی تجویز پر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی وجہ سے عملد رآمد نہ ہو سکا۔اسکے بعد سنجیدہ کوشش 2011ء میں صدر آصف علی زرداری کی طرف سے سامنے آئی ۔

انہوں نے سیاسی جماعتو ں کو سرگرمیوں کی اجازت دی۔ لوکل باڈیز ریگولیشن تیارہوا مگر امن امان کی صورتحال کی وجہ سے عملدرآمد نہ ہو سکا۔2003ء سے علاقہ شدت پسندی کی لہر میں تھا اور پاکستان حالت جنگ میں۔عسکری قیادت نے مسلح کارروائیوں کے ساتھ سول اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر اصلاحات کو ممکن بنایا ۔ پاک فوج کے جوانوں نے خون دے کر علاقے میں امن قائم کیا۔

افواج پاکستان سے قبائلی عوام کی محبت الیکشن کے دن پوری دنیا نے دیکھی۔ عا م ووٹر پاکستان کے جھنڈے لیکر پولنگ اسٹیشن آئے ۔ ڈیوٹی پر ما مور جوانوں کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے ۔ ایسے الیکشن کے بارے میں سیاسی ہار جیت کا تجزیہ مناسب نہیں ، 20جولائی کو قبائلی اضلاع میں فتح صرف امن کی ہوئی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ہی علاقے کی ترقی کی ضمانت ہے ۔

1901ء کے ایف سی آر قانون جس کے مطابق کسی ایک شخص کا جرم پورے قبیلے کا جرم بن جاتا تھا ۔ آج کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں ، اجتماعی فیصلہ قانون کا درجہ اختیار کرے گا ۔حکمران وہ ہوگا جسے عوام منتخب کرے۔ 20جولائی کا دن قبائلی عوام کیلئے کسی تاریخی دن سے کم نہیں۔سیاسی جماعتوں کے نام پرووٹ پڑا ، بھلے با اثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدوار جیتے مگر علاقے میں سیاسی شعور اور جوش و خروش تو نظر آیا۔

ایک جمہوری عمل شروع ہوا،یہ جمہوری عمل ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کرے گا اور بہتر مستقبل کی ضمانت ہوگا ۔جمہوری عمل جاری رہا تو امن بھی قائم رہے گا اور ڈویلپمنٹ بھی آئے گی۔ کے پی کے میں ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں امن دشمن ناکام ہو گئے اور عوام سر خرو، افواج پاکستان اور جمہوری طاقتوں کو قبائلی اضلاع میں نئی تاریخ رقم کرنے پر میرا سلام۔قبائلی عوام میں جمہوری سوچ اور امن کیلئے میڈیا کا کردار بھی قابل تحسین ہے ۔ الیکشن کمیشن اور سرکاری عملہ کو یہ سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد،سبز ہلالی پرچم یوں ہی لہراتے رہیں۔ اس دعا کے ساتھ اجازت 
  #خدا کرے اس ارض وطن پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :