ایک رنگ ہزار ڈھنگ

بدھ 28 اگست 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

لاہور سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا بیان جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلط ترجیحات کے باعث دور دراز کے علاقے ترقی سے محروم رہے اور ملک اپنی منزل سے ہٹ گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی ترقی کی جانب موڑ دیا ہے،حکمرانوں نے عوام کے بنیادی مسائل یکسر نظر انداز کئے اور قومی وسائل نمائشی منصوبوں کی نظر کر کے ملک و قوم سے ظلم کیا۔


قارئین کرام! وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا بیان جزوی طور پر درست ہے کہ کئی دہائیوں سے حکومتی دعوؤں کے باوجود ہمارے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔ ہر صورت فائدہ مند طاقت یافتہ طبقہ ہی رہا،جبکہ ہماری سماجی حالت بد سے بد تر ہوتی گئی۔سابقہ حکمران اس کے ذمہ دار ہیں یہاں تک تو یہ بات درست ہے مگر پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے وسائل پسماندہ علاقوں کی ترقی کی جانب موڑنے والی بات کی حقیقت سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

(جاری ہے)

تبدیلی سرکار کے آنے سے عوام کی تکلیفوں اور مصائب میں کوئی کمی نہیں آئی،ایک سال کے بعد حالات بہتری کی بجائے بد تری کی جانب گامزن ہیں۔ عوام کا سیاسی، شعور موقع پرست سیاستدان اور یہ مروجہ سیاست ہی ہمارے مسائل کی اصل وجہ ہے۔شعور جب حالات کے تابع ہو اور حالات مقامی قیادت پر غالب آجائیں ایسے میں تبدیلی ممکن نہیں۔ وقت بدلنے کے ساتھ، سیاستدانوں کی سیاسی وابستگیاں ضرور بدل جاتی ہیں مگر حکومتی وزراء کا موقف، الفاظ اور بیانات تبدیل نہیں ہوتے۔

پرویز مشرف کی کابینہ کے ارکان، آصف علی زرداری کی حکومت کا حصہ رہے آج عمران خان کے کھلاڑی ہیں۔ یہ ٹولہ حالات نہیں بدلنے دیتا، پارٹی ضرور بدل لیتا ہے۔ معاملہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی کا نہیں مسلم لیگ ن ہو یا ق لیگ ایسے سیاسی چہرے ہر پارٹی کا حصہ رہے۔ ان سے میں اور آپ سب آشنا ہیں۔ان سیاسی شخصیات کی وجہ سے پاکستان میں نظریاتی سیاست کمزور سے کمزور ہوتی
 چلی جا رہی ہے۔

اور یہ شخصیات سیاست میں طاقت سے طاقتور ہوتی چلی گئیں۔عوامی مسائل تاحال حل طلب ہیں تو کچھ نیا نہیں، ہماری سیاست کا یہی چلن ہے۔ مسلم لیگ ن کی عظمیٰ بخاری آج مریم نواز شریف کی گرفتاری پر احتجاج کرتی ہیں اور انہیں بہت رنج ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انکی یہ تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ خدا انہیں صبر دے مگر کیا کروں سیاست کا ادنیٰ طالبعلم ہوں اپنی یادداشت سے عظمیٰ بخاری کا وہ بیان نہیں بھلا سکتا جب پاکستان میں آصف علی زرداری کی حکومت تھی اور وہ اس حکومتی پارٹی کی رکن تھیں اسی درد کے ساتھ مسائل کا شکار عوام کی طرف سے مطالبہ کرتیں تھیں کہ اس وقت کے خادم اعلیٰ جو انکے نزدیک قاتل اعلیٰ تھے، کو پنجاب میں ڈینگی سے ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دے کر قتل کے مقدمہ میں نامزد کیا جائے۔

آج عدالت مریم نواز یا شہباز شریف سے کسی کیس میں قانون کے مطابق سوال کرے تو عظمیٰ بخاری سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔
 بدلہ کیا عظمیٰ بخاری کی ترجیحات۔ پیپلز پارٹی مرکز میں بر سر اقتدار تھی تو محترمہ انکے ساتھ تھی، مسلم لیگ ن بر سر اقتدار آئی تواس کے ساتھ سیاسی تعلق استوار کرنا بنتا تھا، اب ن لیگ سے ترک تعلق قرینہ قیاس نہیں۔ یہ کس طرح کی نظریاتی سیاست ہے۔

قاتل اعلیٰ، خادم اعلیٰ۔۔۔۔ دوسری مثال میرے حلقہ سے شکست کھانے والے تبدیلی کے ایم این اے کے امیدوار پیر صمصام بخاری ،آصف علی زرداری کے دور میں وزیر مملکت اطلاعات و نشریات تھے، تبدیلی کے ٹکٹ پرناکامی کے بعد ضمنی الیکشن میں ضلع ساہیوال سے ایم پی اے بن کر عثمان بزدار کی کابینہ میں صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات بنے۔ گو اب انکی وزارت تبدیل کر دی گئی ہے۔

ہماری حالت کیا تبدیل ہونا تھی جب اوکاڑہ سے تبدیلی کی ٹکٹ پر شکست یافتہ پیر صمصام کااسمبلی میں آنا ہی مقدم اور ضروری ہو تو ایسی سیاست میں عام آدمی کا کیا کام۔۔؟
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنے اس بیان میں کہتے ہیں کہ انکی یہ حکومت سابقہ دور کی خرابیوں اور غلطیوں کو دور کر رہی ہے۔انکی نیت اور وژن پر سوال نہیں سابقہ دور کی خرابیوں اور غلطیوں کے ذمہ دار ان کو مشیر اور
 وزیر بنا کر وہ کیسے بہتری لا سکتے ہیں۔

بات اوکاڑہ کی کر رہا تھاتو اس حوالہ سے یہ واضح کرتا چلوں ایک خبر نجی چینل کے رپورٹر عباس علی جٹ جو کہ ایک متحرک صحافی ہونے کے ساتھ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مشہور ہیں، نے بریک کی کہ اوکاڑہ سید والا پل کے ساتھ پختہ سڑک تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے کثیر سرمایہ سے تیار یہ راستہ تاحال قابل استعمال نہیں، راقم الحروف عاد ت سے مجبور اس پل پر ریسرچ میں گیا تو یہ حقائق سامنے آئے کہ یہ منصوبہ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سامنے آیااور علاقہ کیلئے اسکی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پر کام کیلئے پیپر ورک ہوا،جبکہ اسکا سنگ بنیاد 1996ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے رکھا، بعد ازاں نوا ز شریف، میر ظفر اللہ جمالی، سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔

22سال میں 4دفعہ سنگ بنیاد رکھنے کے بعد جب یہ منصوبہ مکمل ہوا تو اس کا افتتاح وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 2018ء میں کیا۔ 40سال میں سید والا کے مقام پر دریائے راوی پر پل تو تعمیر ہو گیا مگر منصوبے کا حصہ اوکاڑ ہ سے پل تک جانے والا راستہ تاحال تعمیر نہیں ہو سکا۔اس منصوبے کی افادیت کے بارے میں اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ اس ایک پل سے تین اضلاع ننکانہ صاحب، فیصل آباد اور شیخو پورہ کو اوکاڑہ سے منسلک کیا جا سکتا ہے جبکہ بہاولنگر، پاکپتن اور اوکاڑہ ضلع کے لاکھوں افراد اس راستہ کے ذریعے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد تک باآسانی سفری سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

مگر یہ راستہ آج بھی قابل استعمال نہیں، یہاں کے مقیم آمد و رفت کیلئے کچے اور ریتلے علاقے سے گزر کر پل تک جاتے ہیں اس مشقت میں حال ہی میں ایک بچہ ٹرالی سے گر کر دریا کے پانی کی نظر ہو گیا۔یہ واقعہ قومی میڈیا پر بھی رپورٹ ہوامعلوم نہیں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی نظر سے گزرا ہے یا نہیں اگر گزرا ہے تو ہم منتظر ہیں کہ وہ اپنے دعوے کے مطابق کب نمائشی منصوبوں کی بجائے حکومتی وسائل کا رخ اس منصوبے کی طرف کرتے ہیں۔

 ستم ظریفی اس منصوبے کا ذکر تو چالیس سال سے سنتے آرہے ہیں اور یہاں کے عوامی نمائندے بھی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو چالیس سال سے سیاسی تعلق تبدیل کرتے ہوئے آج پی ٹی آئی سے منسلک ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس پسماندگی اور مشکلات کی ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دینے کی بجائے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں تو انہیں اس محرومی اور استحصال کے ذمہ دار بڑی تعداد میں مل جائیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کے انتخاب کی سب سے بڑی وجہ انکا پسماندہ علاقہ سے تعلق ہی کو قرار دیا تھا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ پسماندہ علاقے کی محرومیوں کو بہتر طریقے سے جانتے ہیں جبکہ میں سمجھتا ہو ں پسماندگی تب دور ہو گی جب سیاسی مخالفین پر فقرے بازی کی بجائے ذمہ داروں کو سیاست سے دور کیا جائے۔اس سے مجھے کوئی اختلاف نہیں کہ شہباز شریف نے نمائشی منصوبوں میں پنجاب کے تمام وسائل جھونک دیے لیکن وہ لوگ بھی تو ذمہ دار ہیں جو اس وقت خاموش رہے اور آج عثمان بزدار کے ساتھ پھر اقتدار کا حصہ ہیں۔

غلط ترجیحات ان سیاسی شخصیات کی تھیں یا ہماری ترجیحات غلط ہیں کہ ہم ابن الوقت سیاسی ٹولہ سے دھوکہ کھانے سے انکاری نہیں۔
روائتی سیاستدان کی تو ترجیح اقتدار ہی ہوتا ہے۔سیاسی شعور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم سابقہ حکمرانوں کی ناکامیوں پر ماتم کرنے کی بجائے اپنے بہتر مستقبل کیلئے اپنی ترجیحات تبدیل کریں۔ علاقے میں با اثر شخصیات سے مرغوب ہونے کی بجائے نظر آتی سیاست کو چھوڑ کر نظریاتی سیاست کو اپنائیں۔اعلانات اور بیانات سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اقتدار کو عوام کی دہلیز پر لانا ہو گا۔مصلحت پسند کی بجائے اصلاح پسند قیادت کو موقع دیں حالات خود بہتر ہو جائیں گے۔ ویسے تو بیشتر سیاستدان ایک ہی رنگ رنگیہیں وہ رنگ ہے عوامی خدمت کا رنگ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :