''بس کردوبس''

منگل 14 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

فائیڑ کپتان کے طور پر پہچان رکھنے والے عمران خان آج وزارت عظمی کی کرسی پر فائز ہیں۔توقعات تھیں کہ وہ تمام درپیش مسائل سے لڑیں گے اور ایک نیا پاکستان وجود میں آئیگا۔
فلاحی اور خود مختار ریاست، عالمی مالیاتی اداروں کے دباو سے آزاد جمہوری پاکستان، بہتر سیاسی روایات کا حامل تیزی سے ترقی کرتا پاکستان۔
مگر دوسال ہی میں تمام توقعات صرف سہانا خواب ہی لگتی ہیں۔

کرکٹ جنون میں مبتلا، تبدیلی کا خواہشمند طبقہ اور نوجوان عمران خان سے محبت رکھتے ہیں۔ کرکٹ،مغربی طرز زندگی کو اپنانے اور جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔کامیاب کپتان، قومی ہیرو، خیراتی ہسپتال کی تعمیر، نئی سیاسی جماعت کی تشکیل، نوے کے عشرہ میں بی بی اور بابو کے درمیان سیاسی رسہ کشی،الزامات کی سیاست، پرویز مشرف کا اقتدار، ق لیگ کا پاپولر جماعت کی بجائے چند بااثر شخصیات کے گروپ کے طور پر وجود، ایسے میں عمران خان کا تھرڈ آپشن بن کر سامنے آنا غیر متوقع نہیں تھا۔

(جاری ہے)

دو جماعتی سیاست میں تحریک انصاف کا 2018ء کے الیکشن میں برسر اقتدار آنا ایک نیا تجربہ ہے۔ نیا پاکستان، توقعات، وعدے اور دعوے مگر دو سال سے بھی کم عرصہ میں سب کچھ خواب ہی لگنے لگا۔تبدیلی سرکار ڈیلیور کرنے میں مکمل ناکام، ہر شعبہ زندگی میں زوال،عوام سخت پریشان،مہنگائی عروج پر، بے روزگاری، ڈوبتی معشیت، کورونا وائرس کا پھیلاو، ٹڈی دل، سیاست میں عدم برداشت اور تعاون کا فقدان، ہم آہنگی، متفقہ فصیلہ سازی کے لیے حکومت آمادہ ہی نہیں۔


تمام مسائل کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال دیں۔ احتساب جاری رکھیں، کسی کرپٹ کو نہ چھوڑیں سب درست، مگر بہتری کے لیے عملی اقدامات ایک طرف کوئی پالیسی بھی پبلک نہ ہوئی۔گھبرانا نہیں، کپتان ایماندار ہے، تیس سال برداشت کیا ابھی سے کپتان سے سوال کیوں۔۔؟ اپوزیشن چور ہے کیا ایسے ہی 5سال پورے کرنے ہیں۔لفظی جنگ میں تمام توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔

کبھی سینتھارچی، کبھی عزیر بلوچ عجیب تماشہ لگا ہے۔ایک وفاقی وزیر ایسی جے آئی ٹی کی بنیاد پر لہکتے رہے چہکتے رہے جس کے بارے خود کہتے ہیں کہ کوئی نا معلوم اجنبی انکے گارڈ کو دے گیا اب اس پر سیاست۔۔۔کمال کی سیاسی بصیرت ہے جس رپورٹ کی کوئی بنیاد نہیں اس پر اپوزیشن کو ملامت کرنے کوشش،حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلیے روز نت نئے الزامات۔

جے آئی ٹی پر بات کرتے علی زیدی اور انکے ساتھی بلدیہ ٹاون سانحے کی جے آئی ٹی کا ذکر تک نہیں کرتے۔ذوالفقار مرزا کے کردار پر خاموشی یہ سب ناکام سیاست نہیں تو کیا ہے۔مجھے یاد ہے 6اگست 1990ء کا وہ دن جب آصف علی زرداری کو گورنر ہاوس لاہور سے گرفتار کیا گیا۔آج 30سال بعد بھی ان پر کیسز ہیں۔ الزامات کی سیاست چھوڑ کر حقائق کو تسلیم کریں۔پی پی پی کی قیادت پر الزامات لگانے سے پہلے پی ٹی آئی کے عزیر بلوچ سے رابطوں کا جواب دیں۔

پی ٹی آئی کے دھرنوں میں امن کیمٹی کے لوگ شریک ہوتے رہے اور انکی دعوتیں اور ملاقاتیں ، حبیب جان بلوچ نے سب باتوں کی تصدیق کردی۔کراچی اور لاڑکانہ میں جلسے بھی امن کیمٹی کرواتی رہی۔تمام الزامات کی موجودگی میں علی زیدی خود حبیب جان کی ویڈیو ریلیز کرتے پھرتے ہیں۔ تہلکہ مچانے کی خواہش۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان وزراء کی پرفارمنس تلخ بیانات اور تضادات کو بڑھانے سے جانچتے ہیں۔

مراد سعید کو قیادت کیوں نہیں سمجھاتی کہ جتنا مرضی بلند آواز اور جذباتی انداز میں بات کر لیں بلاول بھٹو زرداری کو مناظرہ کا چیلنج مراد سعید، فیاض الحسن چوہان، علی
 زیدی، فیصل واڈا اور شہباز گل دیں تو یہ انکے سیاسی قد سے مطابقت نہیں رکھتا۔شاہ محمود قریشی پی پی پی کی قیادت پر بات کریں خود عمران خان سامنے آئیں تو سیاست سمجھ آتی ہے۔

یہ بیک بینچرصرف سیاست میں تلخی بڑھا سکتے ہیں بس۔ سیاست اور عوام کے لیے ثمرآورکچھ نہیں۔دراصل ہمارے ہاں سیاست کی حیثیت ثانوی جبکہ ذاتی مفادات پہلی ترجیح ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ عمران خان ملک و قوم کی خاطر صحیح فیصلے کریں۔ ضد بازی چھوڑ دیں۔ مل بیٹھ کر ایک ہو کر نیک ہوکر کام کریں۔ کئی سالوں کا بکھرا ہوا نفرتوں اور الزامات کا جال کاٹ دے۔

اس کوشش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کرپشن کیسز ختم کردیں عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں صرف سیاسی مخالفین کا میڈیا ٹرائل بند کردیں۔ سنتھیا رچی یا عزیر بلوچ کے ذریعے سندھ فتح کرنے کی خواہش کی بجائے کام اور خدمت کی سیاست سے سندھ جیت لیں۔بھٹو کو ضیاء الحق ختم نہ کر سکا یہ مخالفت اور نفرت کی سیاست سے بھٹو ختم ہونے والا نہیں۔بھٹو زندہ ہے تو اپنی سیاست سے، عمران خان منفرد شخصیت تھے مگر روایتی سیاست دان بن گئے۔

جو کل تک قوم کی امید تھے اب مایوسی کی طرف بڑھتی عوام کو محض ''گھبرانا نہیں'' جیسے الفاظ سے حوصلہ نہیں دے پارہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام ذمہ دار سیاستدان ایک پیچ پر اکھٹے ہو کر عوام کی فلاح کے لیے اناء کے بت پاش کردیں۔ احتساب اداروں کو کرنے دیں،سیاستدان خدمت پر یقین رکھیں۔ بہت ہوگیا، عزیر بلوچ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ علی زیدی قوم کاوقت کیوں برباد کررہے ہیں اس پر انکی پارٹی کو سوچنا ہوگا۔

حیب جان بلوچ تو پی ٹی آئی کے بارے بھی انکشافات کرتے ہیں یہ باتیں میرے لیے نئی نہیں مگر پی ٹی آئی کے ورکرز کے لیے ضرور پریشان کن ہیں اورمایوسی کا باعث ہیں۔پی ٹی آئی کی قیادت سب الزامات کی نفی کرتی ہے تو پی پی پی کی لیڈر شپ کا انکار کیسے غلط ہے۔ قیادت اب علی زیدی کی لفاظی کا جواب خود اپنے ورکرز کو دے۔صحافیوں پر لفافے کا طنز کرنے سے پہلے علی زیدی کے خاکی لفافہ کو ضرور یاد رکھیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے بھی کرپشن کے تمام الزامات عمران خان کو لوٹا دیے۔اب یہ تماشہ ختم ہونا چائیے۔الزامات کی جگہ عوام کی بھلائی کو بطوراولین ترجیح اپنایا جائے۔پی ٹی آئی اپنی آئینی مدت ضرور پوری کرے مگر کارکردگی بھی دکھائیں۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر نہ رہے گا بانس نا بجے گی بانسری۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :