''اسٹیبلشمنٹ سے جنگ نہیں''

منگل 2 فروری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جلسے، جلوسوں،استعفوں اور لانگ مارچ کے اعلانات کے بعد اب ضمنی وسینٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔سندھ سے پی پی پی نے صوبائی اسمبلی کی ایک نشت جیت بھی لی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے پنجاب اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی بات کی۔کشیدہ سیاسی ماحول میں اپوزیشن کے سخت موقف میں بتدریج نرمی دکھائی دے رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن)اورمولانا فضل الرحمن کے ریاستی اداروں پر تنقید اور عمران خان کو لانے والوں کو للکارنے کے بعد اب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں۔اس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایات اپنوں سے ہوتی ہیں۔اسی دن مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات جیت گئی تو لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

(جاری ہے)


قارئین کرام! سیاسی وابستگی کی عینک اتار کردیکھیں تو اپوزیشن کا رویہ بہتر ہوا ہے مگر حکومت سیاسی انداز کو اپنانے پر اب بھی تیار نہیں ہوئی۔ پی پی پی کی قیادت تو روز اول سے ہی جمہوری رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حکومت پر تنقید کے ساتھ جمہوری اصولوں میں رہتے ہوئے اپوزیشن کر رہی ہے۔ ناقدین بھلے اسکی وجہ اسے سندھ حکومت قرار دے۔ ماضی گواہ ہے پی ٹی آئی کے دھرنا کے دوران بھی پی پی پی نے اپنا وزن نواز شریف کے پلڑے میں ہی ڈالا تھا۔

اہل دانش جانتے ہیں یہ نواز شریف کی حمایت نہیں تھی، سسٹم کے استحکام کے لیے ضروری تھا۔ موجودہ سیاسی حالات میں بھی احتجاجی تحریک کے ساتھ عدم اعتماد کا آپشن بھی اسی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ سیاسی لڑائی اداروں اور شخصیات سے نہیں لڑی جاتی۔ سسٹم میں رہ کر سیاسی مخالفین کو ہی چیلنج کیا جاتا ہے۔ اس پیرائے میں مولانا فضل الرحمن کا آج کا موقف درست ہے۔

نوازشریف کی اداروں پر تنقید قابل غور ہے۔جو (ن) لیگ کی سیاست کو سمجھتے ہیں انکے لیے یہ رویہ غیر متوقع نہیں۔وہ بہتر جانتے ہیں نواز شریف عوامی حمایت کے ساتھ اداروں کے تعاون سے ہی اقتدار حاصل کرتے رہے۔ اداروں کو انکی آئینی حدود تک محدود رکھنے میں سیاسی قیادت کا کردار ہی اہم ہے۔ سیاسی اختلاف کو جب ریاست کے لیے چیلنج بنادیا جائے اور کھلے عام دعوت دی جائے پھر شخصیات کی طرف سے غلط اقدامات اٹھ ہی جاتے ہیں۔

1977میں تحریک نظام مصطفے کے اکابرین اگر سمجھ کا مظاہرہ کرتے تو ملک میں مارشل لا نہ لگتا۔اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کرنا یا اسکا بازو بننا دونوں ہی غلط عمل ہیں۔سیاسی قیادت سمجھ لے سیاسی لڑائی آئین کے اندر رہ کر ہی لڑی جاسکتی ہے۔ حکومت کو رخصت کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ان ہاوس تبدیلی یا عوامی دباو پر حکومت خود مستعفی ہوجائے۔ موجودہ حکومت سیاخلاقی اور سیاسی بنیاد پر رخصت کی توقع ممکن نہیں اب دوسری آپشن پر غوروخوض کیا جائے تو بہتر ہے۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو 342کے ایوان میں اپنے 156اراکین کے ساتھ مسلم لیگ(ق) کے 5، ایم کیو ایم کے 7, باپ کے 5, جی ڈی اے کے 3 اور دیگر اراکین کی حمایت سے کل 177اراکین کی حمایت حاصل ہے۔اپوزیشن 159 اراکین پر مشتمل ہے۔اب18اراکین کی حمایت سے یہ اکثریت ختم ہوسکتی ہے۔ 20جلسوں سے بہتر ہے 20اراکین کو قائل کرلیا جائے۔ اگرچہ سیاسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہو۔

تو پھراپوزیشن کے پاس کونسا راستہ بچتا ہے۔۔۔؟ یقیننا اپوزیشن سیاسی موقف اختیار کرے اور انتظار کرے۔میں نہیں مانتا یہ پالیسی چل نہیں سکتی۔اس لیے بہتر ہے صرف حکومت کو ایکسپوز کیا جائے۔میڈیا پر اپنا موقف بیان کرنے میں مسلم لیگ(ن) اپناثانی نہیں رکھتی۔ایسے میں ہر فورم پر سیاسی انداز میں حکومت کو چیلنج کرنا اپوزیشن کی بہتر حکمت عملی ہوسکتی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت میں غیر سیاسی افرادشامل ہیں۔ کئی منتخب ایم این اے بھی غیر سیاسی رویہ رکھتے ہیں۔تاحال حکومت عوام کو ریلیف دینے میں بھی مکمل ناکام ہے۔
موجودہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے تو اس کے لیے سب سے موزوں شخصیت آصف علی زرداری ہیں۔ ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن انکی سیاست کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی،ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ، شمسی ائیر بیس خالی کروانا، سی پیک اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن سے بہتر تعلقات، سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ کا کردار، سب سے بڑھ کر 18ویں ترمیم پاس کروانا اور تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی حکومت کا آینئی مدت پوری کرنا یہ سب انکی سیاسی بصیرت کے کرشمے ہیں۔

شہنشاہ تعمیرات کہلوانے کے خواہش مند لیڈر نواز شریف اور ایم ایم اے کے سابق قائد مولانا فضل الرحمن تھوڑا حوصلہ کریں۔آصف علی زرداری کوچانس دیں۔
آصف علی زرداری پاکستان کا سب سے مظلوم کردار ہے۔ تمام ترالزامات اور کردار کشی کے باوجود انکے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور رواداری شخصیت کا خاصہ ہے۔تمام تر زیادتیوں انتقام اور مخالفت انکی سیاست کا جز نہیں بنا۔

وہ سیاسی کھیل سیاسی انداز میں ہی کھیلتے آرہے ہیں۔
سینٹ الیکشن میں اپوزیشن مل کر حکمت عملی اپنائے توحکومت کی کامیابی کو کسی حد تک کم کیا جا سکتاہے۔سینٹ الیکشن کے بعد حکومت مضبوط ہوگی اور اپوزیشن بیک فٹ پر چلی جائے گی۔ جلسے جلوسوں سے یا تند و تلخ بیانات سے سیاسی معرکہ جیتا نہیں جا سکتا۔ ریاستی اداروں کا احترام اور انکو آینئی حدود میں رہ کر کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اندازہی ضروری ہے۔

حکومت کو وقت ملے اورعوام کو ریلیف نہ ملا تو پی ٹی آئی کا مستقبل یقیناتاریک ہے۔ حکومت کو سیاسی شہید کا درجہ دینے سے سیاست میں عمران خان اہم رہیں گے۔نواز شریف کی مقبولیت پنجاب میں قدآور مقامی شخصیات کے مرہون منت ہے۔پی ڈی ایم اگرحکومت پر پریشر ڈالے گی توردعمل میں ان شخصیات پر دباو بڑھے گا۔ اب معاملہ نواز شریف کی سیاست کو بچانے کا ہے یا مسلم لیگ(ن) کی سیاسی طاقت کو محفوظ رکھنے کا۔

۔۔۔ فیصلہ (ن) لیگ کی قیادت کو کرنا ہے۔
سروے پر مسلم لیگ (ن) کے دوست خوش ہوتے رہے یہ وقتی خوشی موضوع بحث تو ہے مگر سیاست میں اسکااثر دیرپا نہیں ہوسکتا۔ واقف حال جانتے ہیں ٹرانسپیر نسی انٹر نیشنل والے سید عادل گیلانی کو نواز شریف نے 2017ء میں سربیا میں پاکستان کا سفیر لگایا تھا۔شیخ عظمت سعید کے نوٹیفیکیشن پر اعتراض، متنازعہ عدلیہ، اداروں پر الزامات اس طرز عمل سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو ہو سکتی ہے سسٹم بہتر نہیں ہوسکتا۔


 1988ء سے شروع ہونے والی سیاسی لڑائی کبھی ختم نہیں ہوگی۔اب بھی وقت ہے سیاست کو سیاسی میدان میں رکھیں۔ اداروں کو سیاست زدہ کرنے اور الزام تراشی سے اجتناب کریں۔
جب تک سیاسی رویے درست نہیں ہونگے تب تک سیاسی قیادت کی اہلیت اورجمہوریت پر سوالیہ نشان قائم رہے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرے۔ تمام معاملات پارلیمان میں حل کرے۔چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے،آصف علی زرداری کا یہ فقرہ ''سب سے دوستی ہے کسی سے لڑائی نہیں'' سیاسی استحکام کی ضمانت ہے۔ سیاست میں اختلاف ہوتا ہے لڑائی نہیں۔لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔حکومت کا امتحان مقصود ہے توحکومت کو وقت دیں اورانتظار کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :