"بلوچستان کی محرومیاں اور ہمارا رویہ"

جمعہ 19 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کا رقبے کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ عرصہ دراز سے محرومیوں کی زد میں ہے۔ تقریباً ہر صوبائی اور وفاقی حکومت نے اِس کو ہر لحاظ سے نظر انداز کیے رکھا ۔حالانکہ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہےاور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم حصہ دار بھی ہے۔
گوادر کی بندر گاہ ہو یا پھر چاغی کے پتھریلے اور خشک پہاڑ، سبی کے گیس کے ذخائر ہوں یا ریکوڈک کا سونا۔

یعنی ہر زاویے سے یہ صوبہ اپنی مثال آپ ہے۔۔اِس صوبے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی حکومتیں قائم ہوئیں جنھوں نے لوگوں کے حالات میں بہتری کے لئے ووٹ تو بٹورے لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ دکھا سکے۔بلوچستان میں آج بھی سردارانہ نظام ہی قائم ہے۔قبیلے کا سب سے معزز شخص سردار ہوتا ہے ۔بلوچستان میں بہت سے قبیلے آباد ہیں جن کے سردار مقامی یا حکومتی امور میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


بلوچستان کے حوالے سے یہ تاثر بھی عام پایا گیا کہ بلوچ قوم پاکستان میں علیحدگی کا مطالبہ کر رہی ہے یا اِس حوالے سے مختلف تحریکوں کا بھی آغاز کیا گیا ہے اور اِس سلسلے میں اِن لوگوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔اِس بات میں کافی حد تک صداقت بھی ہے ۔کیونکہ یہ سارا ایشو اُس وقت سامنے آیا جب بلوچستان کے بڑے قبیلے کے سردار اور تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے اکبر بگٹی کو مشرف نے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے شہید کر دیا ۔

یہاں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ۔اِس واقعے کے پیچھے بھی یہی حقائق تھے کہ بلوچستان کی عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے کیونکہ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ بنیادی ضروریات سے ہی محروم تھا ۔پاکستان میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر سوئی کے مقام پر بھی لوگ گیس حاصل کرنے سے محروم تھے اور اُن کے پاس روزمرہ کی بنیادی ضروریات بھی ناپید تھیں ۔

لیکن یہاں سے نکالی گئی گیس پاکستان کے بڑے شہروں میں سپلائی کی جا رہی تھی ۔اِن سب باتوں کی بدولت بلوچستان کی عوام میں محرومیاں بڑھتی گئیں اور شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِن معاملات کو جائز اور انصاف سے حل کیا جاتا لیکن مشرف نے طاقت کا استعمال کرنا مناسب سمجھا جس کی بدولت بلوچ عوام ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوئی ۔

۔
دیگر بہت سی وجوہات میں شامل یہ بھی بہت بڑی وجہ تھی کہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی جا رہی تھی ۔اور اِس سلسلے میں بلوچستان ایک لمبے عرصے سے اِس بات کا مطالبہ بھی کر رہا تھا کہ بنیادی اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جائیں تاکہ وہاں کی مقامی حکومت اِس سلسلے میں خود مختار ہو اور اپنے وسائل بہتر طریقے سے بلوچستان کی عوام کی محرومیوں کے ازالے کے حوالے سے خرچ کر سکے کیونکہ مشرف سرکار کافی حد بلوچستان کے حقوق غصب کر رہی تھی کبھی وہاں فوجی اڈوں کا، قیام کر کے عوام کو جکڑا جاتا تو کبھی لاپتہ افراد کا معاملہ زور پکڑتا۔

۔
تو کبھی وہاں کے بڑے سرداروں کا قتل کر کے عوام میں سلگتی ہوئی آگ کو مزید بھڑکایا جاتا۔۔
کیونکہ اسلام آباد کو یہ خدشات لاحق تھے کہ بلوچستان میں وفاق کی طرف سے لگائے گئے منصوبوں کے لئے یہ لوگ چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں اور اسی سلسلے میں کبھی بلوچ سرداروں خلاف آپریش کیے گئے اور اکبر کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ۔
اس حوالے سے ایک پیش رفت ضرور ہوئی جب پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں اٹھارویں ترمیم پیش کی۔

جس سے چھوٹے صوبوں خاص طور پر بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ممکن تھا۔۔اور اِس سلسلے میں کافی پیش رفت بھی ہوئی جب آغازِ حقوق بلوچستان کا آغاز کیا گیا ۔اِس کے بعد کافی حد تک معاملات بہتر ہوئے لیکن خدشات ابھی باقی تھے اور کچھ گلے شکوے بھی۔لیکن اِن مسائل کے حل کے لئے منتخب حکومتوں نے کوشیش جاری رکھیں ۔
نوازشریف کی حکومت میں جب سی پیک منصوبے کا آغاز کیا گیا تو بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کا بہتر ہونا بہت ضروری تھا ۔

دوسری طرف ہمارا دشمن ملک انڈیا نے سی پیک کے خلاف مسلسل سازشیں شروع کر دیں اور بلوچستان میں عسکری اداروں اور معصوم شہریوں پر حملوں میں بھی کسی حد تک اضافہ ہوا لیکن ملک کے سیکورٹی اداروں اور حکومت نے مل کر اِن دہشتگرد عناصر کے خلاف اپنی کاروائیاں جاری رکھیں ۔جس کے بعد بلوچستان میں تعمیر و ترقی کے نیے دور کا آغاز ہوا ۔صوبائی حکومت عبدالقادر بلوچ کو سونپی گئی ۔

جنھوں نے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔گوادر بندرگاہ پر کام کا آغاز ہوا، موٹرویز اور کئی ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا گیا ۔امن و عامہ کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کیے گئے لیکن یہ سب کرنے کے باوجود بلوچستان کی عوام کو یہ خدشات ضرور لاحق ہو چکے ہیں کہ گوادر اور دوسرے علاقوں کی تعمیر و ترقی کے بعد یہاں بلوچ عوام کو اقلیت میں بدل دیا جائے گا کیونکہ اِن علاقوں میں باقی صوبوں سے آنے والے جاگیر داروں اور امیر زادوں نے بہت سی زمینیں خرید لیں ہیں اور مستقل میں یہاں آبادکاری کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں بلوچ عوام کی طرف سے یہ شکوہ کسی حد تک درست ہےکیونکہ بلوچستان کے اِن منصوبوں پر پہلا حق بلوچستان کی غریب عوام کا ہے جو سالوں سے محرومیوں کا شکار ہیں اور یہ گلا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے وسائل ہونے کے باوجود ہمیں اُن کے فوائد سے محروم رکھا جاتا ہے ۔

۔ابھی کل کی ہی بات ہے اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مطالبات ابھی تک تسلیم نہیں کیے گئے اُس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ سرِ فہرست تھا ابھی تک اِس پر پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت سنجیدہ ہے لیکن حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم تھا ‏کہ جب اختر مینگل قومی اسمبلی میں بلوچستان کی محرومیاں بیان کررھے تھے تو حکومتی بینچوں پر صرف 3 اراکین موجود تھے۔


مقامی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو یہ چاہئے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں کیونکہ پاکستان کا مستقبل بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور سی پیک جیسا عظیم الشان منصوبے کا مرکز بلوچستان ہی ہے اور ہمارا دشمن ملک اِس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھی سر توڑ کوششوں میں بھی مصروف عمل ہے۔۔
اِس لئے ناراض بلوچوں کو گلے لگانے اور اِن کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کا یہی وقت ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :