پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نا جائے گا

جمعہ 10 اپریل 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

 شروع کرتا ہوں رب جلیل کے نام سے جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحیم ہے۔۔۔
 آج کا کالم شروع کرنے سے قبل انڈیا کے مشہور شاعر گلزار کی پرانی چھوٹی سی نظم نظر سے گزری جس کو یہاں شیئر کر رہا ہوں، جو آجکل کے حالات کے عین مطابق ہے
بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے
موت سے آنکھیں ملانے کی ضرورت کیا ہے
سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے
یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے
ایک نعمت ہے زندگی اسے سنبھال کے رکھ
قبرستاں کو سجانے کی ضرورت کیا ہے
دل کے بہلانے کو گھر میں ہی وجہ کافی ہے
یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
 آجکل پوری دنیا کے تمام ممالک کرونا وائرس کو خدائی عذاب کے طور پر جھیل رہی ہے، اور اللہ تعالٰی سے اجتماعی دعاؤں کے ذریعے اس مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

(جاری ہے)

اس کیلئے پوری دنیا کی ڈرگ کمپنیاں اور سائنسدان اس بیماری کے تریاق کو کھوجنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں پورے عالم میں بسنے والے انسانوں پر چھائے اس قدرتی آفت کے علاج کا ذریعہ بن سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا پر ایک امریکہ ڈرگ کمپنی نے تو دعویٰ بھی کر لیا ہے کہ ہماری کمپنی نے اس بیماری کی ویکسین تیار کر لی ہے، اور اب وہ ویکسین کے استعمال کے بعد کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے تجربات کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

 
امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست کی جانب سے عجیب و غریب بات سننے میں آئی ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کے استعمال اور استعمال کے بعد پڑنے والے اثرات کے تجربات کے لئے اس کمپنی کو 45 افراد کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو انسانیت کی بقاء کیلئے خود پیش کریں، جن پر اس ویکسین کے تجربات کئے جائیں گے۔ مبینہ طور پتہ چلا ہے کہ ان تجربات کیلئے 3 افراد جن میں ایک 34 سالہ خاتون بھی شامل ہے نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے لیکن ابھی تک 45 افراد اس مہم کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ہو رہے۔

 
اس سے قبل امریکی اخبارات میں اس ڈرگ کمپنی نے ایک اشتہار دیا تھا کہ جو بھی اپنے آپ کو ان تجربات میں شامل ہونے کیلئے پیش کریگا اس کو وہ کمپنی ٹوٹل 20,000 ڈالر دے گی۔ یہ پیسے ان لوگوں کو 5/5 ہزار ڈالر فی وزٹ کے طور پر قسط وارادا کئے جائیں گے، یعنی انہیں چار مرتبہ اس لیب میں آنا ہو گا جہاں پر پہلے کرونا وائرس ان کے جسم میں ڈالا جائیگا اور اس کے 10 روز بعد اس کا علاج شروع کر دیا جائیگا ، لیکن اس سے پہلے انہیں ایک بانڈ پیپر سائن کرنا ہو گا کہ اگر ان تجربات کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہو گئی تو ڈرگ کمپنی پر کوئی کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جائیگی۔

ڈرگ کمپنی اپنی دوائی کے استعمال کے بعد اس کی باڈی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ویکسین کی مقدار کو گھٹا یا بڑھا سکیں گے۔لیکن لگتا ہے 20 ہزار ڈالر کی لالچ میںآ نے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہو رہا۔ صرف ایک خاتون اور دو مردوں نے اس سلسلے میں اپنے آپ کو ان تجربات کیلئے پیش کیا ہے،اس سلسلے میں ایک خاتون کی تصویر بھی وائرل ہو چکی ہے جو اپنے بازو میں انجیکشن لگوا رہی ہے۔

اور اگر اس کمپنی کا یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو اس ویکسین کو بازار میں سرعام فروخت کیلئے آنے کیلئے 18 ماہ درکار ہونگے۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر کی جو متعدد کمپنیاں اس مرض کی ویکسین کی تیار میں مصروف ہیں ان میں سے ہی کوئی کوئی کرونا وائرس کا علاج جلد دریافت کر کے بازار میں لے آئے ۔اللہ سے دعا ہے کہ جو بھی ہو پوری انسانیت کیلئے فائدہ مند اور بہتری ہو۔

آمین
 پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح کرونا وائرس بھرپور طریقے سے پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے، ہر آنے والے دن میں مریضوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صوبہ سندھ نے تو پاکستان کے دوسرے صوبوں سے پہلے لاک ڈاؤن نہیں بلکہ منی کرفیو لگا تے ہوئے رینجرز کوبھی طلب کر لیا لیکن پھربھی وہاں عوام کی اکثریت اس خدائی عذاب کو مذاق سمجھ رہی ہے ، اور سندھ کے مختلف علاقوں خصوصاً کراچی میں رات رات بھر محلوں میں سٹریٹ لائٹ میں کرکٹ وفٹ بال کے میچ، دن کے وقت پتنگ بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ جگہ جگہ ٹریفک ناصرف رواں دواں ہے بلکہ ٹریفک جام بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

دوسرے صوبوں میں بھی لاک ڈاؤن توہے اوربڑے شہروں میں پھر بھی کچھ عوام اس بیماری کے نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو گھروں میں بندکئے ہوئے ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں کی عوام کے بھی وہی اطوار ہیں جو سندھ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس بگڑتی صورت کو قابو کرنے کیلئے صوبائی اور قومی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں موجود غریب لوگوں کو راشن یا کیش کی صورت میں امداد پہنچانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو، اس سلسلے میں پچھلے ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ملک کے نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس بھی بنا ڈالی ہے جو ہر علاقے کے نوجوانوں کی ایک ٹیم کی صورت میں اپنے اپنے علاقوں میں موجود غریب، نادار اور مزدور طبقے کی نشاندہی کرے گی اور اس کے نتیجے میں یہ ٹائیگر فورس ان غریبوں کو راشن یا کیش ان کے گھر کے دروازوں تک پہنچائے گی۔

لیکن دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ کچھ غریب طبقہ راشن کے تھالے لینے کے بعد اس میں موجود راشن آٹا چینی دال چاول اپنے ہی علاقے میں موجود چھوٹی چھوٹی دکانوں میں جا کر بیچ دیتے ہیں یا اس کے بدلے گھر کی دوسری چیزیں مثلاً شیمپو، پرفیوم،ٹوتھ پیسٹ اور دوسری غیرضروری چیزیں خرید رہے ہیں۔ان حرکات کے بہت سے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی نامزد کردہ ٹائیگر فورس اپنا کام ایمانداری اور خوش اسلوبی سے کرتے ہوئے ایسے افراد کی لسٹ بنائے جو واقعی ایسی امداد کے حق دار ہوں، ایسا نا ہو کہ کرونا وائرس ختم ہونے کے بعد دوسرے قومی سکینڈلز کی طرح کرونا وائرس میں کرپشن کا ایک اور سکینڈل سامنے آجائے ۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستان پر زلزلہ اور سیلاب کے بعد متاثرہ افراد میں بانٹی جانیوالی امداد میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے سکینڈل موجود ہیں جن کا ابھی تک کوئی سرا نہیں مل رہا۔

 دو ماہ قبل پاکستان میں پہلے آٹا اور اس کے بعد چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہوئے غریب عوام پر مہنگائی بم گرا دیا گیا تھا، جس کے ناگہانی اثرات سے آج تک پاکستانی عوام خاص طور پر غریب عوام نبردآزما ہے۔ اسی بحران کا سب سے زیادہ نزلہ پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ سرگرم رہنماء جہانگیر ترین اور خسرو بختیار پر ڈال دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں دو ماہ قبل میڈیا پر خبروں میں یہی آیا کہ وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کو وزیراعظم ہاؤس میں بلا کر سخت الفاظ میں سرزنش کی اور اس پر ایف آئی اے کے معتمد اعلٰی واجد ضیاء کی سربراہی میں انکوائری کرنے کا ٹاسک سونپ دیا، اس انکوائری کمیٹی نے سارے الزامات کا مختلف انداز میں جائز ہ لیتے ہوئے 3 روز قبل ہی اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی، جس میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے علاوہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سرکردہ لیڈروں پر چینی بحران کے سلسلے میں لگائے گئے الزامات درست ثابت ہو گئے۔

گزشتہ ادوار کی حکومت میں بھی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حکومتی سطح پر ایسے قومی ایشو پر کوئی انکوائری کی گئی تو اسے آج تک کسی ارباب و اختیار نے ایسی کسی بھی جرات کا مظاہرہ نہیں کیاکہ اس حکومت نے ایسی کسی انکوائری کو پبلک کے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھ دیا ہو۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اس سے قطہ نظر کہ اس میں انہی کی پارٹی کے اہم ارکان کے نام آ رہے ہیں، بھرپور جرات کے ساتھ پبلک کر دیا ۔

جب یہ انکوائری شروع ہوئی اور اس کے اندر جہانگیر ترین کا نام شامل تھا ، ان دنوں جہانگیر ترین نے پاکستان کا شائد ہی کوئی ٹی وی چینل ہو جہاں انہوں نے عمران خان کے سامنے اپنی بے گناہی اور لاتعلقی کے زمرے میں صفائی پیش نہ کی ہو، وہ علیحدہ بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت جہانگیر ترین ٹی وی چینلز پر بھی اپنی صفائی سے کسی کو بھی مطمئن نہ کر سکے،اور اب جبکہ انکوائری کی تفصیلی رپورٹ سامنے آ گئی ہے تو ایک مرتبہ پھر سے ہرٹی وی چینلز پر جہانگیر ترین اپنی وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں پنجاب کے صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری، ڈی جی فوڈ پنجاب شکنجے میں آ چکے ہیں۔ صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری نے وزیراعلٰی پنجاب کو اپنا استعفٰی پیش کر دیا ہے اور صوبائی ڈائریکٹر جنرل فوڈ کو برطرف کر دیا گیا ہے، فوری طور پر خسروبختیار کا وزارت کا قلمدان تبدیل کر دیا گیا۔
انکوائری رپورٹ کو جو کہ انگلش ڈرافٹ میں تھی کو پبلک کرنے پر جب اس میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام آیاکہ ان لوگوں نے تقریباً 3 ارب روپے کا فائدہ سبسڈی کی مد میں اٹھایا تو مسلم لیگ ن اوراسکے حواریوں نے خوشی کے خوب شادیانے بجائے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں لیکن اگلے ہی دن جب اس انکوائری رپورٹ کو اردو ترجمہ سے پرھتے ہوئے اس پر غور کیا گیا تو اس میں سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے تقریباً 25 ارب روپے کی کرپشن سبسڈی کی مد میں کرپشن کی تو ان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی خوشی خاک میں مل گئی، اور مسلم لیگ ن کی سرگرم کارکن مریم اورنگزیب کا بڑا ہی مضحکہ خیز بیان سامنے آ گیا ، وہ ایک اخباری بیان میں فرماتی ہیں '' حکومت کو اس کرونا وائرس کی نازک صورت پر زیادہ توجہ دینی چاہئے اور چینی بحران پر انکوائری رپورٹ پر ایکشن لینے سے باز رہنا چاہئے'' ۔

اس بیان کے آتے ہی سوشل میڈیا پر ہر پاکستانی اپنے اپنے انداز میں ان کے بیان کا مذاق اڑاتے ہوئے جواب بھی دے رہا ہے اور کچھ جذباتی عوام سخت غم و غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
اب وزیراعظم کی ہدایت پر اس انکوائری رپورٹ کو فرنزاک کیلئے بھیج دیا گیا اور اسکی فرنزاک رپورٹ 25 اپریل سے پہلے پہلے عوام کے سامنے لانے کا حکم بھی دیدیا گیا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ فرنزاک رپورٹ آنے کے بعد بھی اگر انہی افراد کو قصور وار قرار دیا گیا تو انہیں ناصرف گرفتار کیا جاسکے گا بلکہ اس انکوائری کو نیب کے حوالے کرتے ہوئے اس کیس کو جے آئی ٹی کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے۔اور اس رپورٹ کے انگلش سے اردو ترجمہ کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف بڑے ملزم قرار پائے ہیں جنہوں نے 25 ارب روپے کی کرپشن سبسڈی کی مد میں کی ہے۔

شہباز شریف سیف گارڈ کے طور پر کرونا وائرس کا شکار کرنے آئے تھے ۔ پہلے میرشکیل الرحمان کیس میں متوقع اور اب چینی بحران سکینڈل میں پھنسنے کے بعد خود شکار ہو چکے ہیں۔مبینہ طور پر اس انکوائری کے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد چینی مافیا کی جانب سے عمران خان اور واجد ضیاء کو دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو خطرات لاحق ہونے کا قومی امکان موجود ہے، لیکن شائد یہ مافیا بھول چکا ہے کہ عمران خان کافی عرصے پہلے ہی قوم سے خطاب کے دوران کہہ چکے ہیں کہ یہ حکومت کیا میری جان بھی پاکستان سے زیادہ اہم نہیں۔

اگرحکومت جاتی ہے تو جائے لیکن میں کبھی بھی کسی بھی مافیا سے ملکی سلامتی پر کمپرومائز نہیں کروں گا۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کو اپنے اس قومی وعدے پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ اور توفیق دے۔کیونکہ انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :