پیسہ ، جمہوریت اور آگ کا دریا

پیر 8 مارچ 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزشتہ دو روز قبل سینٹ کے انتخابات کے نتیجے میں اس وقت بھی صورتحال سخت گھمبیر نظر آ رہی ہے کیونکہ ان انتخابات سے صرف ایک دن قبل ہی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی کی ایک وائرل ہونیوالی ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا ہے، جس میں وہ پی ٹی آئی کے چار ایم این ایز کے ضمیروں کا سودا کرتے ہوئے موبائل کی روشنی میں ہدایات جاری کر رہے ہیں کہ آپ کو کتنا پیسہ دیا جائیگا، کیسے اور کون دے گا۔

اس کے عوض انہیں اپنا ووٹ ضائع کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو یہ بھی یقین دلایا جا رہا ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے بھی کروڑوں روپے دیئے جائیں گے، اس میں بھی آدھی رقم وہ اپنے لئے بچا سکتے ہیں۔ اس ساری ویڈیو اور آڈیوکلپ میں سندھ کے وزیر اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ناصر شاہ کی آواز بھی وائرل ہو چکی ہے جس کے وائرل ہونے کے بعد کمال کی بات یہ ہوئی کہ وہ اس سارے عمل کا اعترافی بیان تک ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہی پریس کانفرنس کی صورت میں دے چکے ہیں۔

(جاری ہے)

کیونکہ اس ویڈیو اور آڈیو کو ساری دنیا نے سنا اور دیکھا ہے، اور سب کو اس کا علم ہے، اس تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے '' پیسہ جیت گیا، جمہوریت ہار گئی''۔ آخری خبریں آنے تک یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں کامیابی مانذ پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اور اس سے قبل وائرل ہونیوالی ویڈیو اور آڈیو کلپ کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد سیٹ کے رزلٹ کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے اس ویڈیو اور آڈیو کلپ کے متعلق انکوائری کی جائیگی، اور اگر اس انکوائری کا فیصلہ آئیگا اور پھر الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔
ماضی میں بھی 2018ء کے الیکشن کی رونقیں شروع ہونے سے قبل ہی خصوصاً عمران خان اور ان کی پارٹی میں موجود سابق کرتا دھرتا جہانگیر خان ترین اور ان جیسے کئی سینئر لیڈران نے عمران خان کو مس گائیڈ کرتے ہوئے اس بات پر قائل کر لیا کہ ان الیکشن میں اپنے پرانے وفادار کارکنان اور ساتھیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلی مخالف پارٹیوں کے پچھلے دور میں منتخب ارکان کو پہلے پی ٹی آئی میں شامل کیا جائے اور پھر انہیں پی ٹی آئی کی ٹکٹ دے کر الیکشن لڑوانے کا تجربہ کیا جائے، اور عمران خان اس پر راضی بھی ہو گئے اور انہوں نے اپنے کئی ایک ساتھیوں سے نظریں پھیرتے ہوئے الیکشن سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونیوالے لوٹوں کو اپنے پارٹی ٹکٹ دینے کا تجربہ کیا، جو بری طرح ناکام ہو گیا۔

اس کے نتیجہ میں واقعی چند بندے کامیاب بھی ہوئے لیکن نئے لوٹوں کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد انہوں نے اپنے کئی پرانے وفادار ساتھیوں سے ہاتھ دھو لیا۔ اس لئے دوسری پارٹیوں کے منتخب ارکان کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے بعد اپنی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے پرانے کارکن بھی آزادانہ طورپر الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں اترے اور کامیاب بھی ہوئے۔

منتخب شدہ آزاد ارکان صوبائی و قومی اسمبلی پر جہانگیر ترین اور ان جیسے دوسرے لیڈران نے بڑی آسانی سے اپنے ساتھ ملا بھی لیا، لیکن وہ پرانے کارکنان جو پی ٹی آئی سے اپنی وفاداریاں نبھا رہے تھے، اور وہ آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کے باوجود ہار بھی گئے،اور الیکشن کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی بننے والی حکومت سے وہ آج بھی نالاں ہیں۔ کیونکہ سیاست کی طوطا چشمی سے تو پوری دنیا آگاہ ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان غیرمنتخب شدہ لوگوں کو بھی پی ٹی آئی اپنے پاس بلاتی اور ان کو سیاسی طور پر اس بات پر قائل کیا جاتاکہ پی ٹی آئی پارٹی آپ اور آپ کے ووٹوں کے بغیر ادھوری ہے۔ اسی تجربہ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے ان کارکنوں سے بالکل ہی قلع تعلق کر لیا۔ اور ان کو کٹی پتنگ کی مانند آوارہ ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت برسراقتدار میں آنے کے بعد انہی پرندوں کو دانہ ڈالا گیا جو پہلی کرپٹ ترین حکومتوں کی ڈالی کا حصہ رہے، اب وہ فوج ظفر موج کی صورت میں عمران خان کے اردگرد پی ٹی آئی کے درخت پر موجود حکومت کے باغ کا حصہ ہیں۔

اب گزشتہ سینٹ کے انتخاب میں بھی پی ٹی آئی کو حفیظ شیخ کو اپنا امیدوار بنا کر الیکشن کے میدان میں اتارا گیا جو پہلے بھی پچھلی حکومتوں میں بھی اچھے نمایاں اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ ان کو بحیثیت سینیٹر اسلام آباد کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدوار کی حیثیت سے منتخب کرنا بھی پی ٹی آئی کے کئی ارکان کو ناگوار گزرا۔ کراچی سے ہی عامر لیاقت جو پہلے ہی وزیر یا مشیر نہ بننے پر پی ٹی آئی سے ناراض ہیں، کھلے عام ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی زبان سے کہہ چکے تھے کہ وہ حفیظ شیخ جیسے امیدوارکو تو کم از کم ووٹ نہیں دیں گے۔

اس کے علاوہ 15مزید ارکان اسمبلی جن کے ووٹ نا ڈالنے یا ووٹ کو خود ہی صریحاً ضائع کرنے کا تو یہی مطلب ہے کہ وہ پی ٹی آئی یا ان کی پالیسیوں سے اعلان بغاوت کر رہے ہیں۔ ان میں اسد عمر بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک ایسی ویسی کوئی بات نہیں لیکن مبینہ طور پر وہ بھی حفیظ شیخ کے حق میں قطعی نہیں ۔اور اس سینٹ الیکشن میں بھی موجودہ حکومت سے پھر وہی 2018 ء کے الیکشن والی غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے پھر اپنے ایک غلط امیدوار کو الیکشن لڑنے کیلئے پیش کیا۔


ویسے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اسمبلی میں سوائے حفیظ شیخ کے باقی تمام سیٹوں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی اور سب سے بڑی جماعت کے طور سامنے آئی ہے۔ سیدھی اور صاف بات ہے کہ '' جو پکڑا جائے ، وہ چور ہے'' اور جو بچ گیا اسے چور کون کہے۔ اب علی حیدر گیلانی کی ویڈیو ، آڈیو اور سب سے بڑھ کر ان کا اعتراف جرم وائرل نا ہوتا تو کسی کو بھی پتہ نا چلتا وہ اس میں ملوث تھے۔

اب اس ویڈیو کے علاوہ اور کتنے ایم این ایز کو پیسے کی چمک کے ذریعے کس نے کس کو اپنے ساتھ ملایا ، ابھی تک اس بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن اگر سنجیدہ ہو کر انکوائری کرے تو اس پٹاری میں سے دوسرے بہت سے ارکان اسمبلی کے نام سامنے آئیں گے۔ کیونکہ مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ اس الیکشن میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے بانٹے گئے ہیں، جس کے باعث اپوزیشن کی پارٹیاں ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بدنام ہو چکی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے بھی اس پر اپنی پریس ریلیز میں انکوائری کرنے کا عندیہ تو دیدیا ہے لیکن ان کے خلاف کچھ کارروائی کرنے بارے میں ابھی تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ ن کے ہاتھ کوئی سیٹ نہیں آئی ، لیکن وہ بھی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا کردار ادا کر رہی ہے۔فضل الرحمان صدر پی ڈی ایم جو اب غبارے میں سے ہوا نکلنے کے بعد سمندر کی جھاگ کی مانند بیٹھ چکے ہیں، جس کے اثرات کے چہرے سے بڑے اعیاں نظر آتے ہیں، وہ اسمبلی فلور پر نا تین میں ہیں اور نا تیراں میں، وہ بھی اچھل اچھل کر اپنے آپ کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ '' بھائی لوگو ! میں بھی یہاں موجود ہوں'' ۔

۔بہرحال عمران خان نے بھی اپنی حکومت داؤ پر لگاتے ہوئے اپوزیشن اور پی ڈی ایم میں شامل کی ساری چالوں کا جواب اپنے قوم سے براہ راست خطاب میں دیدیا ہے اور وہ بھی بغیر پرچی کے ، انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر سینٹ الیکشن کی ساری کارستانی کو اپنے خطاب میں بھرپور طریقے سے پیش کرتے ہوئے خود ہی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اور وہ اس میں پہلے سے زیادہ 178 ووٹ لیکر کامیاب بھی ہو گئے، اور اب وہ اپنا دور اقتدار جاری رکھیں گے۔

جس کی کم از کم اپوزیشن کی مکس اچار کی شکل میں شامل جماعتوں کے سربراہان کو کوئی امید نہیں تھی، مولانا فضل الرحمان نے بحیثیت صدر پی ڈی ایم اس اعتماد کے ووٹ کیلئے اسمبلی سیشن کا ہی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ دراصل انہیں بھی اس بات کا یقین ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عدم اعتماد کے نتیجے میں اوپن بیلٹنگ ہو گی اور اس میں تو وہ ارکان جو انہوں نے خرید رکھے ہیں وہ بھی اسمبلی فلور پر سب کے سامنے عمران خان پر عدم اعتماد نہیں سکتے۔

کیونکہ اگر انہوں نے اوپن بیلٹنگ میں اپنا چہرہ سرعام دکھا دیا اور پی ٹی آئی نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے پارٹی سے نکال دیا تو وہ اپنے حلقے کے عوام کے سامنے کس منہ سے جائیں گے۔اب یہ بھی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی میں شامل ان گندے انڈوں کا پتہ چل چکا ہے، اور اب عمران خان بھی کم از کم چھ ماہ تک عدم اعتماد کی تحریک سے محفوظ ہو چکے ہیں، ان چھ ماہ کے اندر اندرہی ضمیروں کا سودا کرنے والے ان ایم این ایز کو نا صرف پارٹی رکنیت سے نکال باہر کیا جائیگا بلکہ ان کے حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کے بعد وہاں سے اپنے پرانے اور وفادار کارکنوں میں سے ہی نئے ایم این ایز کو اسمبلی میں لایا جائیگا، جس کے بعد ان ضمیر فروش ایم این ایز کو اپنی حیثیت کا خود پتہ چل جائیگا۔

عمران خان نے بھی دو روز قبل جو عوام سے خطاب کیا اس تقریر کو انہوں نے جوں کا توں نشر کرایا، جس کو انہوں نے ریکارڈنگ نا کرانے پر ترجیح دی، اوپر سے سب سے بڑی بات حسب سابق بالکل ہی پرچی پروف خطاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، اسی کے ایک حصہ میں انہوں نے الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں شرم دلائی، جو اپنے طور پر غیرجانبدار ہونے کے قلابے ملا رہے ہیں۔

اب اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان بھر میں ہے کوئی محکمہ جو ابھی تک کرپشن، غیرمنصفانہ اور غیرجانبدارانہ رہتے ہوئے کام کر رہا ہو؟ اس کا جواب نہیں میں ہی ہو گا۔ حسب سابق وقت اپنی ہی رفتار میں گردش اور مٹھی میں ریت کی مانند پھسلتے پھسلتے بڑی تیزی سے گزر رہا ہے لیکن پاکستان بھر کے کرپٹ سیاست دان، بیورو کریٹ اور مافیاز اپنا اپنا کام پہلے سے زیادہ تیز یہ سوچ کر کرتے چلے جا رہے ہیں کہ '' یہ پاکستان ہے، یہاں سب چلتا ہے'' لیکن ان کو کون سمجھائے کہ جس ملک میں سب چلتا ہے، وہ ملک نہیں چل سکتا۔

ہر گزرتے دن مہنگائی نے غریب عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ تعلیم، عدلیہ، صحت، پولیس، واپڈا غرضیکہ پاکستان میں سرکاری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اداروں میں بھی کوئی بھی اپنا جائز بغیر رشوت کے نہیں کرا سکتا۔ ہر ڈیپارٹمنٹ کی ایک اپنی ہی داستان ہے، اگر ان سارے محکموں پر الگ الگ رپورٹ تیار کی جائے تو بھی رپورٹیں ختم ہو جائیں گی لیکن محکمے ختم نہیں ہونگے۔

اب اس بقیہ مدت کو ٹیسٹ میچ نہیں بلکہ 20/20 میچ سمجھ کر کھیلنا پڑے گا، تب ہی آپ اس سیاسی میچ کو جیت سکیں گے، پی ٹی آئی اور عمران خان کے پاس اب بقیہ مدت اقتدار آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے، اور اسی کم مدت کو عمران خان عشق کا امتحان سمجھتے ہوئے '' اک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے'' سمجھ کر اس آگ کے دریا میں سے کرپشن کے بڑے بڑے مگرمچھوں کو نا صرف پکڑنا ہے بلکہ ان کے پیٹ پھاڑ کر پاکستان کے غریب عوام کا پیسہ بھی باہر نکالنا ہے، اور یہ پیٹ پھاڑنا اور پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لانا ایک عام محب وطن پاکستانی کو نظر بھی آنا ضروری ہے کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ بہت بہت سخت ہے۔ میرے کپتان۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :