ماہ صیام کی آمد،کورونا کی تیسری لہراور پرانا کیس
اتوار 4 اپریل 2021
(جاری ہے)
عام طور پر اگر لہر کے سٹینڈڈ کے مطابق ہی دیکھا جائے توکسی بھی قدرتی آفت کی پہلی لہر سب سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں ، اور دوسری لہر میں یہ نقصانات پہلی لہر سے کم ہو جاتے ہے، اور تیسری لہر میں یہ نقصان بالکل ہی مانند پڑ جاتے ہے، لیکن اس کورونا وائرس نے توسب الٹا کر دیا ہے، حد یہ ہے کہ ہر نئی آنے والی لہر پہلی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔
پہلی سے دوسری اور دوسری سے تیسری لہر پہلی لہروں سے زیادہ طاقتور اور زیادہ نقصان کے طور پر آنے سے پوری دنیا کے اکثر ممالک ہل کر رہ گئے ہیں۔اسی انجانی خوف کے باعث دنیا بھر میں ہر ذی شعور انسان گھبرایا ہوا نظر آ رہا ہے۔ شاپنگ سنٹر، بڑ ے بڑے مالز، ہوٹلزو ریسٹورنٹس، کھیلوں کے میدان و سٹیڈیم، مذہبی عبادت گاہیں اور مدرسے و تعلیمی ادارے جزوی و مکمل طور پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ پوری دنیا کی اکثر و بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والے بے شمار لوگوں کو گھر بھیج دیا گیا ہے اور ان کمپنیوں میں کام کرنے والے متعدد لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کر دی گئیں اور اسی طرح وہ ضروری سٹاف جن کا آفس کا کام نہایت اہم ہے، ایسے ضروری کام کرنیوالوں کو آن لائن کام کرنے کا کہا گیا ہے، اور وہ سب لوگ اپنے گھر میں بیٹھ کر آن لائن ہی اپنا کام کر رہے ہیں۔اس کے باوجود بھی ہر بندہ نہایت پریشانی و اضطرابی کیفیت میں اپنا وقت گزار رہا ہے، اس ماحول میں ناکوئی کسی کے ہاں مہمان بننے یاکسی کو اپنا مہمان بنانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔اسی بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر بندہ اپنی فیملی کو کسی دوسرے دوست احباب یا رشتہ دار کے ہاں جانے اور انہی عزیزوں کو اپنے ہاں بلانے سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے ذہین ترین تجزیہ نگار ٹی وی کے مختلف ٹاک شوز میں اپنی اپنی آرا ء کا اظہار مختلف اعداد وشمار کے تحت نکالتے اور اپنے ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہوئے سنے اور دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہی ذہین ترین تجزیہ نگاروں جو اپنے اپنے شعبوں سیاسی، معاشی اور دفاعی حالات پر گہر ی نظر رکھے ہوئے ہیں کی نظر میں وبائی مرض کو قابو کرنے کیلئے مختلف قسم کے صلاح ومشورے سے دنیا بھر کو آگاہی دینے میں لگے ہوئے ہیں لیکن یہ وائرس دنیا بھر کے کسی بھی ملک کے قابو میں نہیں آ رہا۔ گزشتہ چند ماہ سے اس وبائی مرض نے پاکستان کے مختلف شہروں اور خاص کر بڑے شہروں میں اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں، اور حکومت پاکستان بھی اپنے تیئں کوشش بھی کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ متاثرہ افراد کو کورونا ویکسین لگا دی جائے۔ لیکن چند دن تک جاری رہنے والی اس ویکسی نیشن کے بعد ویکسین ہی ختم ہو جاتی ہے اور پھر حکومت پاکستان دنیا بھر کے وہ ممالک جنہوں نے پاکستان کو مفت ویکسین فراہم کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں ، ان کے آسرا پر ان ممالک کی جانب دیکھنے لگتی ہے ۔چند لاکھ ویکسین انجیکشن کئی ایک ممالک نے پاکستان کو فراہم بھی کئے لیکن وہ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کے وہی لوگ ویکسین لگوا رہے ہیں جن کو اس بارے میں کچھ شعور ہے ، نہیں تو بیشتر افراد تو اپنے اندر کورونا وائرس کی افزائش کرتے ہوئے ادھر ادھر پھرتے نظر آتے ہیں، اور اس بیماری کو اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے کوئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے، اسی لئے تو گزشتہ چند روز سے شہری اور ضلعی انتظامیہ نے بھی اس مرض پر قابو پانے کیلئے جگہ جگہ بغیر ماسک اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنیوالے افراد کی پکڑ دھکڑ اور جرمانے کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، لیکن ہماری پاکستانی قوم ابھی تک غیرسنجیدہ نظر آ رہی ہے وہ اس سے بچاؤ کیلئے کچھ نہیں سوچتے، جس کے باعث یہ موذی مرض کچھ ہی عرصہ میں سینکڑوں سے ہزاروں افراد میں پھیل چکا ہے۔ اللہ ہم پر اور ہماری قوم پر اپنا رحم فرمائے۔وزیراعظم عمران خان بھی کورونا میں مبتلا رہنے اور 10روز تک اپنے گھر میں آئسولیٹ ہونے کے بعد دوبارہ اپنے ملکی امور سرانجام دینے کیلئے میدان میں آ چکے ہیں، جبکہ صدر پاکستان عارف علوی ان دنوں پریذیڈنسی میں آئسولیٹ ہیں۔ عمران خان نے دو روز قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور آتے ہی چند ایسی افواہوں کا سرکچلاجو ان کے آئسولیٹ ہونے کے وقت ملک میں گردش کرتی رہی۔ اور اس دوران مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ملک کے سیاست دانوں اور صحافیوں کی زبانی موضوع بحث رہیں۔ 23 مارچ کے موقع پر ہمسایہ ملک بھارت کے وزیراعظم نریندرہ مودی کی جانب سے عمران خان کو یوم پاکستان کی مبارک باد کا ایک خط بھیجا گیا جسے ملکی اور بین الاقومی سطح پر خوب سراہا گیا، اس خط کا جواب بھی عمران خان نے بڑی گرمجوشی سے دیا تاکہ جنوبی ایشیاء کی دو سپر طاقتوں کے سیاسی اور ملکی حالات میں بہتری آ سکے، اور اس دوران پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر نے یہ بیان داغ ڈالا کہ پاکستان انڈیا سے روئی، چینی اور دیگر اشیاء منگوائے گا۔ اس بیان کے آتے ہی اپوزیشن میں شامل پی ٹی آئی مخالف جماعتوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ موجودہ حکومت نے مودی کے ایک پریم پتر کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کا سودا کر ڈالا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کے صحت یاب ہونے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں عمران خان نے دوٹوک انداز میں کابینہ کے وزیروں کو واضح کر دیا کہ پاکستانی حکومت کبھی بھی مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کئے بغیر بھارت سے کسی قسم کی کوئی تجارت نہیں کرے گی۔اس بیان کے آتے ہی گویا انڈیا کے میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں میں کہرام مچ گیا لیکن پاکستانی عوام نے اس بیان کا بھرپور انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ اسی اجلاس میں آئندہ ماہ صیام کی آمد کے پیش نظر قومی سطح پر چینی اور گندم کے ممکنہ پیدا ہونیوالے بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی بیورو کریسی اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف وزیراعظم نے سخت تادیبی کارروائیوں کا آغاز کرنے کا عندیہ سنا دیا ہے۔ وزیراعظم نے تمام وفاقی وزیروں کو حکم دیدیا ہے کہ وہ اپنے محکموں کے بیوروکریٹس خواتین و حضرات اور بااثر سیاست دان کو اپنا قبلہ درست کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی بیورو کریٹ اپنے محکمہ سے متعلق کام بااحسن طریقے سے ادا کرنے میں سست روی کا مرتکب پایا گیا تو اسے مکمل طور آرام کرنے کیلئے گھر بھیج دیا جائے۔ اس کے لئے سخت طریقہ کار واضع کر دیا گیا، اب امید کی جاتی ہے کہ قومی سطح پر تاریخ میں پہلی بار اب آنے والے چند دنوں ہفتوں میں حکومت کی جانب سے بیورو کریسی اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شکنجہ ٹائٹ ہوتا ہوا نظر آئیگا، جس کے بعد پاکستان کے غریب عوام سکھ کا سانس لے پائیں گے جس سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اگر یہ حکم بھی بیورو کریسی نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا اور پہلے کی طرح ہی ہر طرف رمضان میں مہنگائی اپنے عروج سے بھی زیادہ ہو گئی تو یاد رکھیں عمران خان !... ایسے ہی دوسرے سیاست دانوں کی طرح سبز باغ دکھانے پر پاکستان کے عوام آپ کوبھی کبھی معاف نہیں کریں گے، اور اس فصل کو آپ بہت جلد خود کاٹیں گے جسے آپ ان دنوں خود بو رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے براڈ شیٹ کیس کے واجبات کی ادائیگی کیلئے لندن کی ایک کمپنی نے غیرقانونی جائیدادادوں کے کیس ثبوتوں کے ساتھ ڈھونڈنے پر پاکستان حکومت سے اپنی کمیشن کی رقم کا مطالبہ بذریعہ لندن عدالت کے کیا۔ جس کی انکوائری اور تمام معاملات کی طے تک پہنچنے کیلئے پاکستان حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید کو ایک ذمہ داری سونپی کہ آپ براڈشیٹ کیس اور اس پر اٹھنے والے اخراجات بمشول لندن کی انکوائری کمیٹی کے کمیشن کی تحقیقات کریں اور حکومت وقت کو آگاہ کریں کہ آخر یہ سارا معاملہ کیا تھا۔ انہوں نے اس کی تحقیقات شروع کی، اس تحقیقات کے دوران نیب آفس کے گودام میں پڑے چند بڑے بڑے تھیلے برآمد کئے گئے جن کے متعلق کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان تھیلوں میں موجود کاغذات کی نوعیت کیا ہے؟ اب چند روز قبل جب جسٹس عظمت سعید نے ان تھیلوں کو برآمد کرنے کے بعد ان کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا کہ یہ کاغذات 1997ء میں آصف علی زرداری پر قائم سوئس کیس کے اوریجنل کاغذات ہیں جو 24 سال پہلے قائم مقدمہ میں ایک لمبے عرصے تک قید رہنے والے اور بعد میں اس مقدمہ سے رہائی پانے والے آصف علی زرداری پر قائم ملک کے مختلف ٹھیکوں پر کمیشنوں کے ذریعے لوٹی ہوئی ساٹھ لاکھ ڈالر کی رقم جو اس وقت سوئس بینک میں جمع کرائی گئی تھی، لیکن اس کی پیروی نہ ہونے پر انہی لٹیروں نے سوئس بینک سے ساری دولت نکلوا کر کھا پی گئے،اور جب ان پر کیس چلایا گیا تو تمام کاغذات کو غائب کر دیا گیا، اور جب یہ کیس اس وقت کے احتساب بیورو میں چلایا گیا تو اس کیس میں ایک بھی اصل کاغذ پیش نہیں کیا گیا بلکہ ان کاغذات کی فوٹو کاپیوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی لیکن احتساب بیورو نے یہ کہہ کر زرداری کو کیس سے بری کر دیا کہ ان فوٹوکاپیوں کی اصل کاپیاں کہاں ہیں؟ اس لئے ان کاغذات کو بوگس ظاہر کرتے ہوئے انہیں رہا کر دیا گیا۔ اب یہ کاغذات حکومت کی خوش قسمتی اور آصف علی زرداری کی بدقسمتی سے نیب کے ہی گودام میں پڑے گلتے سڑتے رہے، جن کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ لیکن اب جسٹس عظمت سعید نے یہ کاغذات ڈھونڈ نکالے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند ماہ کے بعد ان کاغذات پر دوبارہ سے کیس کو ری اوپن کرتے ہوئے آصف علی زرداری پر ایک مرتبہ پھر سے اسی کیس کو چلایا جائیگا اور ساٹھ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ان سے نکلوائی جائیگی۔ یاد رہے اسی رقم کے کیس کو ری اوپن کرنے کیلئے یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور انہی دنوں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے ہر جلسے میں زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اسی لوٹی ہوئی رقم کی برآمدگی کا رونا روتے رہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.