وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں

ہفتہ 10 اپریل 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا پوری طرح نکل چکی ہے، گویا پی ڈی ایم کے ٹکڑے ہزار ہوئے ، کوئی یہاں گرا ، گوئی وہاں گرا۔ ابھی اپوزیشن کے لانگ مارچ اور ملک بھر میں جاری اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کشیدگی تھوڑی بہت کم ہوئی تو ایک نیا کٹا کھلنے کو تیار ہو گیا، کہ قومی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے چینی اور گندم بحران کے ذمہ دار سمجھے جانیوالے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے۔

اور مبینہ طور پر کچھ ہی عرصہ پہلے یہی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ لیڈران جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ ہوا کا گزربھی ممکن نہیں لگتا تھا، اور جیسے ہی پیپلزپارٹی نے سینٹ کے لیڈر آف اپوزیشن پر یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کروایا تو مسلم لیگ ن کی ہوائیاں اڑ گئیں، یاد رہے اسی قربت میں یہی جماعتیں جہانگیر ترین کو وزیراعظم عمران خان کا اے ٹی ایم اور پاکستان کا کرپٹ ترین سیاست دان کی طرزپر کئی اور القابات بھی دے چکی ہیں، اب جہانگیر ترین کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دبے لفظوں میں یہ بھی دعوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ اب مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے ہیں، میرا خیال ہے سیاست اسی کو کہتے ہیں، لیکن گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں جہانگیر ترین نے بڑے دبنگ الفاظ میں ان خبروں کی تردید کی کہ میں کسی اورسیاسی جماعت میں شامل ہونے جا رہا ہوں، بلکہ انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ میں عمران خان کا سپاہی تھا ، ہو ں اور رہوں گا۔

(جاری ہے)


وگڑ گئی اے تھوڑے دنا ں توں
دوری پئی ہے تھوڑے دناں توں
اس بات کا جواب مبینہ طور پر عمران خان نے بھی اپنے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے جہانگیر ترین کو پہنچایا ہے کہ جہانگیر ترین اپنے آپ کو ایف آئی اے اوردوسرے تحقیقاتی اداروں سے تمام کرپشن کیسز سے متعلق کلین چٹ لے لیں ، ہم آپ کو اپنی پارٹی میں خوش آمدید کہیں گے۔

لیکن اس کیلئے انہیں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے بری ہونا ہو گا۔گزشتہ جمعہ کو ایف آئی اے ہیڈآفس میں جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین پیش ہوئے اور ایف آئی اے کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب دیئے۔ اب آنے والے ہفتے میں ان سوالات اور ان کے جوابات سے متعلق اخبارات اور میڈیا پر بات کھلے گی جس کے بعد پتہ چلے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
اس کے علاوہ ایک بہت ہی اہم خبر آئی ہے کہ الیکشن کے بارے میں ایک ایکٹ 2017 ہے جس کی کابینہ برائے قانون سازی کمیٹی نے ترمیم کردی ہے ،جس کے مطابق ہر منتخب ہونیوالے رکن اسمبلی اور سینٹ کے رکن پر لازمی ہے کہ وہ الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد سات دن کے اندر اندر اسمبلی میں یا سینٹ میں جا کر اپنے رکن منتخب ہونے کا حلف اٹھائے، اور اگر وہ حلف نہیں اٹھاتے تو انہیں فارغ کر دیا جائیگا۔

اس قانون میں ترمیم کے رگڑے میں مسلم لیگ ن کے سینئر عہدیدار جودھری نثار اور مسلم لیگ ن ہی کے سنیٹر اسحاق ڈار آتے ہیں۔ چودھری نثار تو 2018 ء کے الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے قومی اسمبلی کی سیٹ ہار جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر منتخب ہو چکے ہیں لیکن ڈھائی سال گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک رکن اسمبلی کا حلف اٹھانے ہی نہیں گئے، ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن مشکل حالات میں ہے، اور میں ایک بااثر آدمی ہوں، ممکن ہے کہ پنجاب اسمبلی میں کوئی ایسا نمبر گیم چل جائے ، اس چکر میں شائد پنجاب کے وزیراعلٰی کی سیٹ انہیں مل جائے،اسی وجہ سے انہوں نے صوبائی الیکشن لڑا۔

اور جب وہ وزیراعلٰی پنجاب نہیں بن پائے تو انہوں نے ایم پی اے کی سیٹ کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی۔اسی وجہ سے وہ ابھی تک حلف اٹھانے ہی نہیں گئے۔اور دوسرے خودساختہ بیمارسابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جوگزشتہ سے پیوستہ سینٹ الیکشن میں سنیٹر منتخب تو ہو گئے لیکن ابھی تک سینٹ میں حلف اٹھانے اور گزشتہ سینٹ الیکشن میں ووٹ تک ڈالنے نہیں آئے۔

اب اس نئے الیکشن ایکٹ 2017 ء میں ترمیم کے بعد اسحاق ڈار کی سیٹ ختم ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کرایا جائے گا جس پر ابھی تک قومی امید ہے کہ پی ٹی آئی اپنا ایک اور سنیٹر بنوانے میں کامیاب ہو جائیگی۔ ہاں البتہ اگر پی ڈی ایم نا ٹوٹتی تو شاید اپوزیشن کی ساری پارٹیاں مل کرمسلم لیگ ن کی اسحاق ڈار والی سیٹ پر اپنے کسی رکن کو سنیٹر بنوا لیتیں، لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ یہ سیٹ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے حصہ میں آئیگی۔

اس کے علاوہ افواج پاکستان پر تنقید پر دی جانیوالی سزاؤں کے حوالے سے ایک اور بل آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو بھی افواج پاکستان پر تنقید یا اعتراض اٹھائے گا اس کو سزا و جرمانہ کیا جائیگا، اس ایک نئی بحث نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سیاست دان اور پاکستان بھر کے مختلف طبقہ فکر کے افراد نے اس بل کا مذاق اڑانا بھی شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فوج کی جانب سے کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی، نہیں تو اس پر سزا ملے گی، اس بل کے نتیجہ میں اظہار آزادی چھن جائیگی، اگر فوج مارشل لاء لگا دے تو ہم اس پر بات نہیں کر سکتے؟ یہ غلط بات ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو فوج پر تنقید اور برا بھلا کہنے والے دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جو بیرون ملک کی خفیہ ایجنسیز کے آلہ کار اور ایجنٹ ہیں اور گاہے بگاہے اپنے ہی ملک کی افواج پر تنقید اور نکتہ چینی کے تیر چلاتے رہتے ہیں اور اپنی پسند ناپسند کی دور حکومت کے دوران پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ آج نہیں کئی دہائیوں سے پاکستانی افواج پر کیچڑاچھالنے سے باز نہیں آتے۔

دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو فوج کی ہی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے، اور جب ان کے کام ملکی مفاد میں نا ہونے کے باعث انہیں فوج نے ٹھڈے مار کر اپنے درمیان سے باہر نکال دیا اب وہ فوج پر کیچڑ اچھالتے ہیں کہ ان کو ویسی پذیرائی نہیں ملتی جیسی ان کو پہلے ملا کرتی تھی، وہ چاہتے ہیں کہ ان پر دوبارہ فوج اپنا دست شفقت رکھے، ہماری کرپشن پر پردہ فوج ڈالے، کرپشن کیسوں کے نتیجے میں ہونیوالی سزاؤں سے بچائے، ہمیں دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھائے،جس کے وہ قطعی اہل نہیں۔

تو اس لئے وہ فوج پر اپنی بھڑاس نکالتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ کیونکہ چھوٹے سے چھوٹے قصبے سے لیکر بڑے بڑے شہروں تک کے عوام سے منسلک ہوتے ہیں، جب یہ ان قصبوں اور شہروں کے خواندہ ،ناخواندہ افراد کے درمیان بیٹھ کر افواج پاکستان کی برائی کرتے ہیں توان کا یہ رونا ڈائریکٹ عوام کے ذہن اور دلوں پر اثر کرتا ہے۔انہی لوگوں کیلئے افواج پاکستان کے خلاف تنقید کرنے اور کیچڑ اچھالنے والوں کے خلاف یہ بل لایا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کر کے انہیں جیلوں میں ڈالا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ان جیسے سیاسی عہدیداران کو پکڑ کر دو سال کیلئے جیل میں ڈال دیا جائے اور 5 لاکھ جرمانہ کر دیا جائے تو دو سال کے بعد جیلوں سے رہائی کے بعد یہ لوگ عوام میں ہیرو بن کر نہیں ابھریں گے؟ اس کی حالیہ تازہ مثال مریض اعظم نواز شریف کی ہے جو اربوں روپے کی کرپشن میں اشتہاری بن کر ملک سے بھاگ چکا ہے اور لندن میں بیٹھ کر پاکستان اور پاکستانی افواج کے خلاف ایسی ایسی زبان استعمال کر رہا ہے جس کو سن اور پڑھ کر ہر محب وطن پاکستانی غم و غصہ کا شکار ہے۔

لیکن اسی مجرم اعظم کو سیاسی بنیادوں پر پاکستان کی عدلیہ نے صرف 50 روپے کے سٹامپ پیپر کے عوض ملک سے باہر جانے دیا۔ اب اس پر حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کیا کرے؟ اسی کیلئے وزیراعظم عمران خان چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ اگر انہیں باہر جانے کی اجازت دینا ہی ناگزیر ہے تو ان سے سات ارب کی گارنٹی لی جائے کہ یہ جعلی علاج کے بعد واپس آ جائیں گے لیکن اس عدالت کو کون کیا کہے کہ جس نے صرف 50 روپے کے سٹامپ پیپر کے عوض اربوں روپے کی کرپشن والے مجرم اعظم نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے دی۔

آجکل اسی مریض اعظم کی بیٹی مریم صفدر بھی اپنی سرتوڑ کوشش میں ہیں کہ انہیں بھی اپنے پاپا کے پاس جانے کی اجازت دی جائے۔سوچنے والی بات ہے۔۔ !
کرونا وائرس کی تیسری لہر کے نتیجہ میں برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو ریڈلسٹ میں ڈالے جانے اور اس کے بعد پاکستان میں موجود برٹش پاکستانیوں کو واپس برطانیہ پہنچنے کیلئے دی جانیوالی ڈیڈلائن 9 اپریل کو صبح 4 بجے ختم ہو گئی، کوئی ہفتہ قبل ہی برطانیہ کی طرف سے بنائی جانیوالی ریڈ لسٹ میں پاکستان کو بھی شامل کیا گیا جس کے بعد اب اگر کوئی برٹش پاکستانی پاکستان سے واپس برطانیہ کے کسی بھی ایئرپورٹ پر لینڈ کریگا تو اسے پہلے تو کرونا فری ٹیسٹ رپورٹ دینا ہو گی اور دوسرا یہ کہ ا سے اپنے آپ کو ہر صورت برطانوی حکومت کی جانب سے منتخب شدہ ہوٹل میں 10 روز کیلئے آئسولیٹ کرنا لازمی ہو گا، اور ان 10 روز کا ہوٹل خرچ بھی اپنی جیب سے 1750 برطانوی پونڈ خود ادا کرنا پڑیگا، اور جو اس خرچ یا ٹیسٹ کرانے سے انکار کریگا اسے 10,000 برطانوی پونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑیگا۔

یہی ہفتہ بھر قبل ہی برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور فلپائن کو بھی اسی ریڈ لسٹ میں شامل کیا تھا۔اس لسٹ میں شامل کئے جانے کے بعد بریڈفورڈ کی رکن اسمبلی پاکستانی نژاد خاتون ناز شاہ نے سب سے پہلے ہوم آفس کو ایک خط لکھا جس میں ناز شاہ نے برطانوی حکومت کے اس اقدام پر اعتراض اٹھایا کہ آخر ایسی وجہ ہوئی کہ پاکستان کو ریڈلسٹ میں شامل کیا گیا حالانکہ پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا میں کرونا وائرس کی وباء کے پھیلاؤ اور اسی وباء کے باعث مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، لیکن انڈیا کو تو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیالیکن پاکستان کو شامل کر کے برٹش پاکستانیوں سے سوتیلی ماں والا سلوک کیوں روا رکھا گیا، دو ہی دن میں ناز شاہ کی آواز کو مزید تقویت دیتے ہوئے برطانوی پارلیمینٹ کے 50 کے قریب ارکان اسمبلی نے بھی برطانوی حکومت پر اعتراض اٹھا دیئے ہیں، وزیراعظم بورس نے اس پر یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے کہ اس بارے میں 21 اپریل کو فائنل فیصلہ کیا جائے گا کہ کون کون سا ملک اس لسٹ سے نکالا جائے اور کس ملک کو اس لسٹ سے ڈالا جائے۔

پاکستان کو اس لسٹ میں ڈالنے کے فیصلہ کے بعد پاکستان گئے ہوئے ہزاروں پاکستانی نژاد برٹش اور تارکین وطن نے یہی کوشش کرنی شروع کر دی کہ کسی طریقے سے 9 اپریل صبح 4 بجے سے پہلے برطانیہ کے کسی بھی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا جانا اشد ضروری ہے ورنہ انہیں ہوٹل آئسولیٹ کی شکل میں 1750 برٹش پونڈ پڑ جائیں گے۔ اس کیلئے انہوں نے اپنی اپنی نشست کی بکنگ کیلئے کوششیں شروع کر دی ، اس ضمن میں پی آئی اے نے بھی تارکین وطن کی پریشانی کو کم کرنے کیلئے اسلام آباد سے مانچسٹر کیلئے 5 چارٹیڈ فلائٹس کا اہتمام کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن مبینہ طور پر ان چارٹیڈ فلائٹس کی ٹکٹوں کا یکطرفہ کرایہ چار سے پانچ لاکھ روپے تک مانگاگیا، مجبور اور پریشان تارکین وطن پاکستانیوں نے منہ مانگے پیسے ادا کر کے ٹکٹ حاصل کئے لیکن ایئرپورٹ پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان 5 فلائٹس میں سے کوئی بھی فلائٹ اپنے مقررہ وقت پر روانہ نہ ہو سکی جس کے باعث انہیں سخت پریشانی او رذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی تک سینکڑوں پاکستانی مسافروں اسلام آباد ایئرپورٹ پر خوار ہو رہے ہیں۔

اور اس ضمن میں حکومت وقت کسی اور ہی چکر میں مصروف ہے، انہیں جہانگیر ترین ایف آئی اے کیس اور اپنے ہی ملک میں اس وبائی مرض میں مبتلا ہزاروں مریضوں کیلئے کس ملک سے کرونا ویکسین مفت ملنا ہے اس کی زیادہ فکر لاحق ہے۔ اگر اس لندن پہنچاؤ مشن کو بھی حکومتی سطح پر سامنے رکھتے ہوئے تارکین وطن کے مسئلہ پر بھی پی ٹی آئی حکومت تھوڑی توجہ دیتی اور برطانوی حکومت سے پاکستان کو ریڈلسٹ سے نکالنے کیلئے کوئی اقدام کرتی تو وہ مسافر ڈھیر ساری پریشانیوں سے بچ سکتے تھے جو آج بھی پاکستان میں رہ گئے ہیں۔

انہی تارکین وطن کے بارے میں پاکستان کے وزیراعظم ہمیشہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ تارکین وطن ہی پاکستان کی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہیں کیونکہ انہی کے بھیجے جانیوالے زر مبادلہ کے باعث پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اب اس بارے میں بھی سوچئے کہ اگر یہی تارکین وطن اپنے ہی ملک میں انہیں ملنے والی ناپید سہولیات سے بددل ہو گئے ، اور انہوں نے زرمبادلہ بھیجنا ہی بند کر دیا تو پھر کیا ہو گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :