لوڈشیڈنگ کے عذاب میں تارکین وطن کیلئے ہوا کا ٹھنڈا جھونکا‎

ہفتہ 12 جون 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی تھا جب پاکستان کے مختلف محکموں کا ایک سروے کیاگیا کہ پورے پاکستان میں وہ کون سا محکمہ ہے جو عوام کی نظر میں سب سے اچھا اور عوامی رائے میں باعزت محکمہ سمجھا جاتا ہے، اور یہ بھی سروے کیا گیا کہ وہ کونسا محکمہ ہے جس سے عوام کو سب سے زیادہ شکایات ہیں، اور عوامی نظرمیں کرپشن کی وجہ سے اس محکمہ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

باعزت اور پروقار محکمہ تو آج بھی وہی ہے جو کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے ، وہ پاکستان آرمی ہے، اور جس میں شمولیت کیلئے ہر نوجوان اور اس نوجوان کے والدین کی اب بھی یہی کوشش رہتی ہے کہ ہمارے بیٹے کو پاکستان آرمی میں کمیشن مل جائے، چلو کسی وجہ سے اگر اسے کمیشن نا بھی ملے لیکن اسی خاندان کی یہی کوشش رہتی کہ ہمارے خاندان میں کم از کم ایک نوجوان ایسا ضرور ہو جسے پاکستان ڈیفنس میں کمیشن مل جائے اور وہ بھی اپنا سینہ چوڑا کر کے اپنے دوستوں سے یہ کہہ سکیں کہ ہمارے خاندان کا ایک فرد پاکستان آرمی، ایئرفورس یا پاکستان نیوی میں آفیسر ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تاریخ میں سیاسی کرپشن کی وجہ سے پاکستان آرمی نے کئی مرتبہ کرپٹ سیاست دانوں کوان کے گھر کا راستہ دکھایا اور ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاء الحق اور اس کے بعد پرویز مشرف کی شکل میں آپریشن کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا اور 90 دن کے اندر اندرالیکشن کا وعدہ کر کے کئی کئی سال پاکستان پر حکومت کی اور کوشش یہی کی کہ کسی طرح پاکستان اپنی صحیح ڈگر پر چل پڑے لیکن ان کی یہ مخلصانہ کوششیں پاکستان آرمی پر ہی بھاری پڑ گئی، آج بھی اگر آپ تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو پاکستان آرمی نے جب جب کرپٹ سیاستدانوں کو ان کی کرپشن کے باعث گھر بھیجا تو پوری پاکستانی قوم نے بھرپور خوشی اورجشن منائے،اس امید پر کہ اب شائد ان کرپٹ سیاست دانوں کی لوٹ مار کا کوئی حساب لے گا اور انہیں ان کے کئے کی سزا ملے گی لیکن جب مارشل لاء دور حکومت کی طوالت ہوئی اور اس سیاسی کرپٹ مافیا کے آگے فوج بھی کچھ نا کر سکی بلکہ پاکستان آرمی کے چیف بھی انہی سیاسی مافیا کو این آر او دیتے ہوئے انہی کے رنگ میں رنگے گئے، اور اپنے اقتدار کے آخری ادوار میں دیکھا جائے تو یہی پاکستانی قوم اسی پاکستان آرمی سے زچ، بیزار اور تنگ دکھائی دیتی رہی ہے۔

لیکن ایک بات جو صحیح اور سچ ہے وہ یہ کہ اتنی بیزارگی کے باوجود بھی ڈیفنس فورسز کی وہ عزت جو ہماری قوم پہلے دن کرتی تھی اس عزت میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ابھی چند دہائیوں پہلے محکمہ پولیس سب سے کرپٹ سمجھا جاتا رہا ہے ، اور انہی دنوں جب عوامی سروے میں دیکھا گیا تو ہر پاکستانی شہری پولیس کے خلاف اپنے دل میں نفرت کا لاوا لئے پھرتا تھا ، اور ابھی تک پولیس کیلئے عوامی نفرتیں کم نہیں ہوئیں بلکہ دن دوگنی رات چوگنی ہو چکی ہیں۔

اور جب پاکستان بھر کے بڑے شہر پھیلے پھولے اور اس کی آبادی میں اضافہ ہوا، تو اس کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے دی گئی بجلی پانی و گیس کی سہولیات کم پڑنے لگیں جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی و گیس کی سہولیات کو بھی آبادی کے لحاظ سے بڑھایا گیا پھر بھی سہولیات اس آبادی کیلئے کم پڑ گئیں، جس کے باعث بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی، اور اب حال یہ ہے کہ پولیس کی نفرت کو پاکستانی عوام نے بھلا دیا ہے اور خاص کر گرمیوں کے موسم میں ہر گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ کا سامنا عوام کو کرنا پڑتا ہے جس کے باعث طالب علموں کی پڑھائی سے لیکر بڑی بڑی صنعتیں چلتی چلتی رک جاتی ہیں، دن بھر کے کام کرنے والے مزدور ، ملازمین اور کاروباری حضرات جب رات کو اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں توہر گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ کا بم پھوڑ دیا جاتا ہے جس کے بعدگرمی کے باعث نا نیند آتی ہے اور نا اس گرمی کے باعث کہیں چین آتا ہے، گھنٹے بعد لائٹ آنے کی صورت میں جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو پھر اگلے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا ٹائم ہو چکا ہوتاہے۔

اسی سونے جاگنے کے چکر میں اور نیند پوری نا ہونے کی وجہ سے اور قیامت خیز گرمی کے باعث ہر بندہ چڑچڑا اور بیزا ر دکھائی دیتا ہے، اسی وجہ سے چھوٹی چھوٹی بات پرہر بندے کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے اور گھر کے اندر یا باہر ہرکوئی اسی بیزارگی کے باعث ایک دوسرے سے لڑتا پھرتا ہے۔ اوپر سے ہمارے پورے ملک میں سرکاری پانی کی ٹینکیوں کی موٹرپمپوں کا سارا نظام بھی بجلی کے ساتھ منسلک ہے، ادھر بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی اور دوسری طرف پانی کی موٹریں بند ہونے کی وجہ سے نلوں میں پانی بھی غائب ہو جاتا ہے۔

ابھی چند روز سے پاکستان میں گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بلااعلانیہ لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے، جس کے باعث ہر طرف سے عوامی رد عمل کا آنا ایک فطری امر ہے ۔ یہ تو ابھی گرمیوں کی شدت کا آغاز ہے، یہ گرمی پھر بھی قابل برداشت ہے، اگر کسی کو بھی بجلی کے پنکھے اور چھاؤں میسر ہے اور وہ پنکھے کی ہوا کے نیچے یا سامنے چھاؤں میں بیٹھ جائے تو اس کو کسی حد تک سکون آ ہی جاتا ہے لیکن ابھی اگلے ماہ جب برسات شروع ہو گی تو اس گرمی کے ساتھ ساتھ حبس کی شدت میں اضافہ کی صورت میں پنکھے اور کولر کی ہوا بھی کام کرنا چھوڑ جائیں گے اور ہر شہری لوڈشیڈنگ کے عذاب کے دوران محکمہ بجلی والوں کو دل و جان سے بددعائیں اور چھوٹی بڑی ہر طرح کی گالیاں اور وہ بھی ہر گھنٹے بعد نکالتے نظر آتے ہیں، اسی ایک بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کے دور میں اگر ایسا کوئی سروے کرایا جائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ واپڈا پہلے اورمحکمہ پولیس دوسرے نمبر پر آئیگا۔

حکومتی بیان کے مطابق تربیلا ڈیم میں کچھ مرمت کا کام جاری ہے جس کے باعث پاکستان بھر کے بجلی کے نظام میں سے 3300 میگا واٹ کی ترسیل کے رک جانے کے باعث اور گرمی میں بجلی کے استعمال میں عدم توازن کی وجہ سے بجلی کم ہو گئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ گرمی کے موسم کے آغاز سے قبل ہی ایسے کاموں پر ایڈوانس بنیادوں پر کام مکمل کرے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ پورے ملک میں بجلی کی ترسیل بلاتعطل جاری رہ سکے۔


پچھلا ہفتہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تھپڑوں کے باعث میڈیا پر کافی گونجتا رہا۔پچھلے ہفتے فرانس کے ملعون صدر کو بھی کسی بندے نے عوامی میٹنگ میں زور دار تھپڑ دے مارا، جس کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوئی اور ایک تھپڑ پاکستان میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پیپلزپارٹی کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں جڑ دیا، اور ساتھ میں کئی نازیبا گالیوں سے بھی نوازا گیا۔

جس کی وائرل ہونیوالی ویڈیو کو پورے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ہر شخص نے دیکھا۔ فردوس عاشق اعوان کا یہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا،وہ اپنے ایسے ہی انداز گفتگو کی وجہ سے پہلے ہی کافی مشہور و معروف ہیں۔ اس سے قبل اسی چینل کے اسی ٹاک شو میں وہ کشمالاطارق کے ساتھ اسی انداز میں ناشائستہ گفتگو فرما چکی ہیں، اس کے بعد اسی چینل انتظامیہ نے انہیں اپنے چینل پر بین بھی کر دیا تھا اور اب کافی عرصے بعد ان پر اس چینل نے بین ہٹاتے ہوئے اپنے دروازے کھولے تو شائد انہوں نے موسم گرما کی گرمی سے بیزار ہو کر ایک مرتبہ پھر سے اپنے ساتھی سیاست دان پر اپنے سر چڑھی گرمی نکالتے ہوئے اپنا غصہ نکال دیا۔

ابھی چند روز قبل فردوس عاشق صاحبہ نے اے سی سیالکوٹ پر بھی اپنا غصہ نکال چکی ہیں، اس کے بعد بھی انہیں صوبائی سے لیکر قومی سطح تک یعنی چیف سیکرٹری پنجاب سے لیکر وزیراعظم پاکستان تک کو وضاحتیں دینی پڑی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ٹی وی ٹاک شو کے واقعہ کو کس طرح جسٹیفائی کریں گی یا پہلے قومی مشیر اطلاعات سے صوبائی مشیر اطلاعات کی تنزلی کے بعد اب ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی میں تارکین وطن یا اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے پر پیش ہونیوالا بل ہنگامہ خیز تقاریر کے بعد منظور ہو گیا۔

اس تاریخی فیصلہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا اور آج کا مئورخ اسے سنہرے لفظوں میں لکھے گا۔اب اس بل کو سینٹ میں بھیجا جائیگا اور وہاں سے بھی اس بل کی منظوری کے بعد یہ بل پاکستان کے قانون کا حصہ بن جائیگا۔ اس بل کو باشعور شہریوں کے علاوہ بیرون ملک مقیم 90 لاکھ پاکستانیوں نے نہایت احسن اقدام قرار دیتے ہوئے جشن کے طور پر منایا۔ اس بل کی اپوزیشن نے بھرپور مخالفت کی،کیونکہ اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پر اپوزیشن کو صاف نظر آ رہا ہے کہ اب ان کی پاکستانی سیاست میں دال گلنے والی نہیں۔

اب صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو 2023ء میں ہونیوالے الیکشن میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں اور وہ بھی الیکٹروئیل الیکشن کے باعث پی ٹی آئی کی جیت میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہونگے۔ انہی ووٹوں کی مدد سے پی ٹی آئی کی اگلی حکومت کو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، انشااللہ۔ کیونکہ 90 لاکھ ووٹروں کی نظر میں عمران خان 85 فیصد مقبول لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے،اس کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو عمران خان پر یقین ہے کہ یہ ایک ایماندار شخص ہے ، پچھلے کچھ عرصہ کے دوران بے شمار پاکستانیوں نے اپنی کمائی ہوئی دولت کا بڑا حصہ پاکستان بھیجنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس سے ہر ماہ پاکستان کے فارن کرنسی کے ذخائر میں 2 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

مقبولیت کے اس اعداد وشمار میں دوسرے نمبر پرویز مشرف ہیں جو آجکل خاصے بیمار اور عمررسیدہ ہو چکے ہیں،اور وہ بھی الیکشن لڑنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے بعد کہیں جا کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا نمبر آتا ہے۔ جن کے حامیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد کے متعلق ایک تحقیق کے مطابق سعودی عرب میں سب سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں جن کی تعداد 26 لاکھ ہے، اسی طرح یو اے ای میں 15 لاکھ، برطانیہ میں 12 لاکھ، امریکہ ساڑھے چار لاکھ، کینیڈا میں ڈھائی لاکھ، اور ایک اندازے کے مطابق پورے یورپین ممالک میں 8 سے 10لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک جن میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا، اور فارایسٹ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں، اور یہ تمام پاکستانی جب الیکشن2023 میں حکومت پاکستان کے مروجہ قوانین کے تحت اپنا ووٹ انٹرنیٹ، ای میل یا جو بھی ذرائع حکومت پاکستان مرتب کرے گی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے تو اس کا فائدہ اسی جماعت جماعت کو ہو گا جو ان کی نظر میں زیادہ مقبول ہو گی اور وہی اکثریتی پارٹی بن جائیگی۔

یہاں تمام اوورسیز پاکستانی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ تارکین وطن کو ووٹوں کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکنے اور اس بل کو پاس کرنے میں رخنہ ڈالنے والے کون کون سے سیاست دان اور کون کون سی پارٹیاں آگے آگے تھیں، کیونکہ یہ خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی پتہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں 5 سے 10 فیصد بھی ایسے نہیں جو انہیں ووٹ ڈالیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :