"مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی ۔۔ماضی کی غلطیوں سے حال کے مواقعوں تک "

منگل 9 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

فرنگی سامراج کا آج سے ستر سال پہلے کا نفرت کا بویا ہوا بیج دور حاضر میں تناور درخت کی حیثیت حاصل کرچکا ہے ۔اس وقت کے ہندو ڈوگرہ راجہ اور ریڈکلف کی ملی بھگت سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ بنانے میں کوئ کسر نہ اٹھا رکھی تھی ۔کشمیر کی جغرافیائ اور نظریاتی وابستگی دیکھی جاۓ تو تقسیم کے منصوبہ کے مطابق کشمیر کے لوگوں نے پاکستان کا انتخاب ہی کرناتھا مگر ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت زبردستی کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کروایا گیا اور یوں وہاں کی مسلم اکثریت آبادی کے جزبات کے مخالف فیصلہ کرکے ان سے آزادانہ انتخاب تک کا حق چھین لیا گیا ۔

اس فیصلے کے بعد, ہندوستان نے فوجیں کشمیر میں داخل کر دی جن کی تعداد بجاۓ کم ہونے کے بڑھتی ہی گئ۔
یوں, پاکستان کے لیے کشمیر شہ رگ اور ہندوستان کے لیے پورا جسم بن گیا ۔

(جاری ہے)

شہ رگ اور جسم کے درمیان ماضی میں تقریباً تین سے چار دفعہ بڑے پیمانے پر جبکہ روزانہ کی بنیاد پر آنکھ مچولی جاری رہتی ہے ۔دہائیوں سے,  دو نظریاتی مخالف ممالک کے درمیان جنت کا گہوارہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہے ۔

قصہ المختصر, تاریخ کے اوراق کو پرتا جاۓ تو تاریخ کشمیریوں کے خون سے آلود ہی نظر آۓ گی ۔
پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کا اگر جائزہ لیا جاۓ تو اسکا مرکز قومی مفاد اور قومی مفاد کا مقصد کشمیر کے ارد گرد گھومتا ہے اور جتنی بھی ماضی کی حکومتیں حکمرانی کے دورسے گزری ہیں کشمیر پہ سمجھوتہ کو ناقابل گزیر سمجھتی آئ ہیں ۔ آج سے دو دہائ قبل, امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے" کشمیر کو دنیا میں موجود خطر ناک ترین خطہ قرار دیا تھا "
اگر دور حاضر کے حالات پہ نگاہ دوڑائ جاۓ تو عارضی حدود کے دونوں اطراف کشیدگی کا بڑھتا ہوا رجحان نظر آتا ہے ۔

پچھلے سال کے آغاز میں ہی تحریک آزادی کے نوجوان عادل احمد ڈار,  جوکہ کشمیر کا آبائ رہائشی تھا,نے ہندوستان کے ہراول فوجی دستے پر پلوامہ کے مقام پر دھاوا بولا اور خود کو آتشگیر مواد سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 40 فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگۓ تھے ۔واقعہ کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی تھی ۔ حسب معمول, لفظی جنگ میں بھارتی میڈیا کے ساتھ حکومتی نمائندے ایک دوسرے کو مات دینے میں مصروف عمل ہوگۓ۔

پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز نے تمام دعووں کو, جن میں پلوامہ حملہ کا الزام پاکستان کے سر اس طرح لگایا گیا تھا کہ جیش محمد, انٹیلی جنس اداروں کے زیر اثر کشمیر میں ہونے والی شر انگیزی میں ملوث ہیں,کو واضح الفاظ میں مسترد کر دیاتھا اور شفاف تحقیقات کے لیے باہمی تعاون پر آمادگی ظاہر کی ۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا مگر سرحد کے پار طاقت اور حکمرانی کے نشے میں سرشار نریندر مودی نےقومی چناؤ میں مخالف پاکستان ووٹ بنک بڑھانے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دی اور رات کے اندھیرے میں پاکستانی کی فضائ حدود کی خلاف ورزی کرکے جیش محمد کے کیمپ کی تباہی کے ساتھ متعدد ہلاکتوں کا دعوی کیا جو کہ حسب روایات جھوٹ کا اک پلندہ ثابت ہوا۔

سلامتی ساکھ کے تحفظ کے لیے شیردل جوانوں نے دن کی روشنی میں دشمن کے دو لڑاکے طیارے مار گراۓ اور ایک پائلٹ کو زیر حراست لے لیا گیا ۔ حالات میں کشیدگی اتنی بڑھ گئ تھی کہ دو جوہری طاقتیں جنگ کے دہانے پہ آگئیں ۔ دو جوہری طاقتوں کو تباہی سے بچانے کے لیے عالمی رہنماؤں کو میدان میں اترنا پڑا ۔عمران خان کی سیاسی بصیرت نے پائلٹ کو جزبہ خیر سگالی کے تحت واپس بھیج دیا ۔


پلوامہ واقعہ کے بعد,  پاکستان کی خارجہ حکمت عملی میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب ہندوستان نے مقامی قانون سازی میں تبدیلی کرکے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدل دی اور وہاں کے لوگوں پر فوج مسلط کرکے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کرکے وادی کو جیل کی شکل میں ڈھال دیا ۔یہ صورتحال سنگین انسانی بحران کی طرف جا چکی ہے جہاں لوگ کبھی بندوق کی گولی سے یا غذائ قلت سے موت کے منہ میں دکھیلا جا رہا ہے ۔


پاکستان نے عمران خان کی سربراہی میں کشمیر کے مقدمہ کو بڑے احسن انداز سے لڑا اور خود کو کشمیر کا سفیر کہلوایا ۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے کبھی خصوصی اجلاس تو کبھی ہاتھوں کی زنجیر بنائ جاتی تھی ۔ان جذباتی اقدامات کو اٹھانے کے باوجود ہم سفارتی محاذ پر خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکے ۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی اجلاس بلانے کے باوجود ہم اپنے پرانے مشرق وسطی کے مسلم اتحادیوں سعودی عرب,متحدہ عرب امارات, قطر اور دوسرے مملک کو زیر اثر لانے میں ناکام ثابت ہوۓ۔

اس وقت کی اشد ضرورت تھی کہ سفارتی محاذ پر پر اثر اقدامات اٹھاۓ جاتے ۔مسلم ممالک کے دورے کر کے کشمیر کے مسئلہ پر انہیں اپنے اعتماد میں لیا جاتا ۔
اس حکمت عملی کے نقائص اس وقت کھل کر سامنے آۓ, جب متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کا درجہ دے کر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بلایا ۔ یہاں معاشی مفاد اسلامی نظریات کو زیر کر گیا ۔

یہ سب بھارت کی سفارتی محاذ پر کامیابی گردانا گئ۔
البتہ سدا بہار دوست جس کی دوستی ہمالیہ پہاڑ سے اونچی,بحیرہ عرب کی گہرائ سے زیادہ گہری, شہد کی مٹھاس سے زیادہ میٹھی ہے ,نے بھر پور انداز میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا دفاع کیا اور بھارت مخالف بیانات داغے  ۔ ان ممالک کے ساتھ ایران اور ترکی نے بھی بھر پور انداز میں ساتھ دیا ۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے اتحاد میں تبدیلی کے واضح اشارے ملنا شروع ہو گۓ ۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔
بھارت سیکولر ملک ہونے کے دعوےدار تو ہے لیکن اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا کے رکھا ہوا ہے ۔شہریت کے قانون میں ردوبدل کر کے لاکھوں مسلمانوں کو دربدر کرنے کا پروانہ دے دیا ۔اس کے نتیجہ میں, مسلم کش نسلی فسادات کا آغاز ہوا جوکہ سینکڑوں مسلمانوں کی زندگیوں کے خاتمے سے ختم ہوا ۔ان سنگین اقدامات پر پاکستان نے واضح موقف اپنایا اور ان واقعات کو کشمیر کے مظالم کی ایک کڑی ہی قرار دیا ۔


سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں پرہونے والے مظالم پر مشرقی وسطی کے ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودیہ نے سخت موقف اپنایا ۔
یہاں پر پاکستان کے لیے سفارتی موقع یہ ہے کہ تمام عرب ممالک کو اپنے موقف کے ساتھ ملا کر اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس کو بلاۓ اور ان ممالک کو ہندوستان کے ساتھ معاشی و سفارتی تعلقات کو کچھ عرصے کے لیے سرد راہ پر ڈالنے کے لیے راضی کرے ۔

اس طریقے سے ہندوستان پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے تاکہ وہ معاملات کے حل کے لیے مذاکرات کے میز پر آ جاۓ۔
کشمیر کے مسئلہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد بنا کر عالمی عدالت میں لے کر جانے کی باتیں کی جارہی تھی مگر اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے آیا یہ کیس عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یا نہیں ۔ بغیر تحقیق و فکر اس مسئلہ کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچایا جاۓ۔


حال ہی میں سفارتی ذرائع سے یہ خبر موصول ہوئ ہے کہ اقوام متحدہ 17 جون کو انٹرنیٹ کے استعمال کے ساتھ سیکیورٹی کونسل کے غیر مستقل ممبران کی تقرری  کے لیے انتخاب کروانے جارہی ہے ۔ ایشیا پیسیفک کے 55 ممبران میں سے واحد طاقت ہندوستان کا چناؤ کیا جاۓ۔ یاد رہے کہ ممبران کے ناموں کے انتخاب کے وقت پاکستان نے ہندوستان کی حمایت کی تھی ۔ غیر مستقل ممبر کا پروانہ ملنے کے بعد ہندوستان کی طاقت میں کسی حد تک اضافہ آجاۓ گا ۔

بین الاقوامی تعلقات کی زبان میں اسے سوفٹ پاور کہتے ہیں ۔ اس بات میں کوئ شک نہیں کہ غیر مستقل ممبران کے پاس ویٹو کرنے کی طاقت نہیں ہوتی مگر اتنے بڑے فورم پر اس کی راۓ کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور ہندوستان کے عزائم کسی سے ڈھکے چپھے نہیں ۔ حتی الامکان, پڑوسی ریاست اوچھے ہتھکنڈے اور غلط بیانی کا سہارا لے کر کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑے گے اور جعلی سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے کو رچا کر اس عمل میں پاکستان کو بھی ملوث کرےگا کیونکہ طاقتور کی بات میں ہی دم ہوتا ہے ۔


ان حالات کے تناظر میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر بڑی بصیرت, تحمل اور سوچ وفکر کے ساتھ دنیا کو بھارت کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنا چاہیے ۔ جذبات کو نظر انداز کرکے,قومی سیاسی اتحاد کو قائم کرکے کشمیریوں کی اخلاقی, سیاسی اور سفارتی تعاون جاری رکھنا چاہیے ۔ہر اس اقدام اور بیان سے اجتناب کرنا چاہیے جو کہ دشمن کو موقع مہیا کرے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :