Live Updates

بلوچستان حکومت نے 1028ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا

غیر ترقیاتی بجٹ پروگراموں کیلئے 642، ترقیاتی پروگراموں کیلئی249ارب 50 کروڑ مختص،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ،پنشن میں 7فیصد اضافہ تجویز

منگل 17 جون 2025 21:15

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جون2025ء) حکومت بلوچستان نے مالی سال 2025-26 کا 1028ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں غیرترقیاتی بجٹ کا حجم 642ارب روپے ،مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 249.50ارب روپے ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ،پنشن میں 7فیصد اضافہ تجویز کیا گیاہے۔بلوچستان اسمبلی کااجلاس اسپیکر کیپٹن(ر)عبدالخالق اچکزئی کی زیرصدارت تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا۔

اجلاس میں صوبائی وزیرخزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بلوچستان کے مالی سال 2025-26ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میںبجٹ تقریر کا آغاز ربِ کائنات کے بابر کت نام سے کرتا ہوں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ مخلوط صوبائی حکومت کا یہ دوسراسالانہ بجٹ 2025-26اِس معزز و مقدس ایوان کے سامنے پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

مخلوط صوبائی حکومت اور اِس کی اِتحادی جماعتوں کی وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں موجودہ حکومت کا یہ دوسرابجٹ ہے۔

نئی حکومت نے اِس دوران بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس کے لیے میں اللہ تعالی کا شکرگذار ہوں۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے قیام کو تقریبا سوا ایک سال ہونے کوہے تا ہم جمہوری، سیاسی، سماجی اور مشترک اعلی اِقدار و روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے بھر پور کوشش کی کہ صوبے کے طول و عرض میں تمام حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، مالی نظم و ضبط کے ساتھ عملی اِقدامات کے ذریعے عوام کی خدمت، صوبے کی مجموعی ترقی و خوشحالی کے حصول کو ممکن اور اس میں مزید وسعت لائی جا سکے۔

ہماری حکومت نے شروع دِن سے ہی بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے پر توجہ دی۔ عوام کی عزت نفس اور ان کے احترام کو اپنی اولین ترجیح سمجھا۔ صوبے میں باہمی احترام اور رواداری کو فروغ دیا۔ صوبے کے اہم معاملات میں سیاسی وابستگیوں سے بالا ترہوکر تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ اِنفرادی حیثیت میں فیصلہ کرنے کی بجائے صوبے کی نمائندہ اسمبلی اِس ایوان کو مشاورت کا مرکز بنایا اور تمام اہم فیصلے کابینہ کی منظوری سے کیے۔

وزیراعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی کی قیادت میں حکومت بلوچستان ایک جمہوری اور سیاسی تصور کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ہمہ جہد ترقی کے لئے درست سمت کی جانب گامزن ہے۔یہ وزیراعلی کی قائدانہ صلاحیتوں کا ثمر ہے کہ بلوچستان ہمہ گیر ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا مشاہدہ صوبے کے عوام خود کر رہے ہیں۔وزیراعلی کے عوام دوست وژن کے مطابق صوبائی حکومت نے جو بھی فیصلے کیے ہیںاِن پر عملدرآمد بھی کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے عملی اِقدامات زمین پر نظر آ رہے ہیں صرف کاغذوں تک محدود نہیں ہیں۔وزیراعلی نے بلوچستان کے مالی مسائل اور ترقیاتی عمل سے متعلق وفاقی حکومت کے سامنے صوبے کا موقف بھرپور طور پراٹھایا ہے تا کہ بلوچستان کو اِس کے جائز حقوق مل سکیں۔وزیراعلی نے ہمیشہ اپنے عمل سے عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ اور عوامی مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنے کے تاثر کو بڑھاوا دیا ہے۔

اِس میں دو رائے نہیں کہ اِس حکومت کے دورمیں وزیراعلی کی قیادت میں کابینہ نے دور رس نتائج پر مبنی ایسے فیصلے کیے جن کاماضی میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ایک دوسرے کو عزت و احترام دینا بلوچستان کی دیرینہ روایات میں سے ایک ہے اور ہم اپنی اِس روایت کے امین ہیں۔ ہم جب تک اقتدار میں رہیں گے صوبے کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لیے خلوص نیت سے کام کرتے رہیں گے۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے ملک اور صوبے کی ترقی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالی نے صوبہ بلوچستان کی سر زمین کو بے پنا ہ قدرتی و سائل سے نوازا ہے جس کی اہمیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ ہماری آباد ی کم اور وسائل بے شمار ہیں۔ آبادی اور وسائل کا یہ تنا سب کسی بھی علاقے کی ترقی کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی کی مدبرانہ قیادت میں ہم ترقی اور خوشحالی کی مثبت سمت میںگامزن ہیں۔

معاشی اور سماجی اہداف کے حصول اور لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ہمہ وقت اِقدامات اٹھائے جار ہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے قلیل عرصہ میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیںاگرچہ محکمہ پی اینڈ ڈی کے پی ایس ڈی پی کے ذریعے سے صوبائی حکومت کی عوامی نوعیت کے اہم اِقدامات کی تفصیل طویل ہے تا ہم یہاں چیدہ چیدہ بڑے فیصلوں اورشعبہ وار کامیاب اِقدامات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوںوزیر اعلی بلوچستان کی قیادت میں صوبائی حکومت کا ایک اور وعدہ مکمل ہوا۔

موجودہ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کاترقیاتی اِسکیمات پی ایس ڈی پی فنڈز کے 100فیصدحصہ اِستعمال کیا ہے جو کہ ہماری تاریخ کی بلند ترین سطح پراِستعمال شدہ فنڈز ہے پچھلے مالی سالوں میں اِس کا اِستعمال کم رہی یعنی مالی سالوں 2021-22میں 53فیصد،2022-23میں 66فیصد اور 2023-24میں 55فیصد فنڈزاِستعمال ہوئے۔ اِس ترقیاتی فنڈزکے موثر اور بروقت اِستعمال میںوزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی صاحب کی رہنمائی اور سخت مانٹیرنگ بھی رہی جس سے یہ کامیابی موجودہ صوبائی حکومت کو حاصل ہوئی یعنی ماضی کے سالوں کے مقابلے میں اِس پی ایس ڈی پی فنڈز کے بروقت اِستعمال کرنے سے بلوچستان کے ترقیاتی کاموں میں نمایاں بہتری آئی ہے اور مالی سال 2024-25کے اِختتام تک اِس فنڈز کا 100فیصدسے زیادہ اِستعمال کرنے کا ہدف مقررکیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری موجودہ حکومت کی یہ کارکردگی تاریخ کا روشن باب کی طرح ہے۔ گورننس میں بہتری لانے کے لئے حکومتی اِقدامات کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیںاِن ترقیاتی اِسکیمات کی بروقت تکمیل سے صوبے کی ترقی میںشفافیت اور میرٹ نمایاں ہو ئے رواں مالی سال کے دوران 3ہزار 230جاری اور مکمل ترقیاتی اِسکیمات اِس سال کے آخرتک مکمل ہوگی جن میں پی ایس ڈی پی میں شامل 21فیصد فنڈز سڑکوں، 18فیصد آب پاشی اور 2.3فیصد توانائی، 13فیصد تعلیم، 8فیصد صحت اور 7فیصد پبلک ہیلتھ کے سیکٹرز کے لیے مختص کیے تھے۔

اِن میں پیداواری شعبوں کو مجموعی طور پر 6فیصد بجٹ ملا جن میں زراعت، ماہی گیری اور معدنیات کے شعبے شامل ہیں۔رواں مالی سال 2024-25میں 219ارب روپے کاصوبائی پی ایس ڈی پی پیش کیاگیا ہے جو قومی و عالمی ترقیاتی اہداف (SDGs)سے ہم آہنگ تھا۔اِسی طرح رواں مالی سال ہماری حکومت نے 10ارب روپے کے زائد رقم سے دیہی ترقی و خوارک کی تحفظ کے لئے خرچ کیے۔شعبہ صحت و صحت عامہ کی بہتری وبہبود آبادی کے لئے 20.18ارب روپے مختلف اِسکیمات پر خرچ کیے گئے۔

تعلیم کی بہتری اور تعلیمی رسائی و بنیادی ڈھانچے کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہمار ی حکومت نے 32ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی۔رواں مالی سال موجودہ صوبائی حکومت نے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اور عوام کو پینے کی صاف پانی مہیا کرنے اور مختلف ڈیمز بنانے کے لئے تقریبا46ارب روپے سے زائد رقم مختلف اِسکیمات پراخراجات کیے۔توانائی بحران کو کم کرنے کے لئے اور شفاف و قابلِ تجدید توانائی حاصل کرنے کے لئے ہماری صوبائی حکومت نے تقریبا 6 ارب روپے اِن اِسکیمات پر خرچ کیے ہیں۔

ہماری حکومت قائم ہونے کے بعد ہمیں سب سے بڑا چیلنج رواں مالی سال کے صوبائی ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کرانا تھا مگرصوبے کو درکار وسائل نہایت ہی کم تھے۔تا ہم، ہم نے غیر ترقیاتی اخراجات کو ہر ممکن حد تک کم کیا تا کہ ہم ترقیاتی اِسکیموں کے لئے وسائل فراہم کرسکیں۔ مالی مشکلات کے باوجو دصوبائی حکومت نے آنے والے مالی سال کے لیے ایک متوازن بجٹ بنایا ہے اور تمام شعبہ جات کے لیے ان کی ضروریات کے مطابق فنڈ ز مختص کیے ہیں۔

پی ایس ڈی پی مالی سال 2024-25ایک سالہ ترقیاتی پروگرام تھاجس میں بہت سی مشکلات کے باوجود ہم نے ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دِیا۔ ہماری حکومت نے مالی سال 2024-25کے دوران ترقیاتی مد میں صوبے کے تاریخ کا سب سے زیادہ فنڈز کا اِجرا کیا اور بھر پور کوشش کی کہ صوبے کے تمام اِضلاع کو برابر اور بِلاتفریق ترقیاتی عمل میں شامل رکھا جائے۔ ہماری صوبائی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں احسن طریقے سے کفایت شعاری کے تحت، ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے نتیجے میں تقریباغیر ضروری اور خالی6000اسامیاں ختم کیے گئے جن کی ضرورتِ کام سرکاری محکموں میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

لہذااِس حکومت نے ریشنلائزیشن کے تحت 14ارب روپے کے خطیر رقم کی بھی بچت کی۔ ہماری صوبائی حکومت نے کفایت شعاری، عوام کی ترقی اور فلاح پر خصوصی توجہ دی ہے۔آئندہ مالی سال2025-26کابجٹ پیش کرنے سے پہلے یہ مناسب ہو گا کہ موجودہ مالی سال 2024-25کے نظر ثانی شدہ بجٹ کا مختصر جائزہ معززایوان کے سامنے پیش کروں جس کے بعد میںمعززایوان کو موجودہ صوبائی حکومت کے اٹھائے گئے نئے مالی سال 2025-26کے اِقدامات کے بارے میں آگاہ کر وں گا۔

صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے جاری مالی سال 2024-25کا بجٹ جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی آمدنی، فیڈرل ٹرانسفرز اور صوبائی محصولات پر مشتمل ہے اور بلوچستان صوبے کا زیادہ تر اِنحصار وفاقی منتقلی پر ہے اور یہی ہمارے معاشی وسائل کا بنیادی حصہ بھی ہے جس میں NFCایوارڈ کے تحت طے شدہ فارمولے کے مطابق تقسیم پول اور برائے راست ٹرانسفرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔

رواں مالی سال2024-25 کے کل بجٹ کا غیر ترقیاتی تخمینہ 609ارب روپے تھا۔ نظر ثانی شدہ بجٹ برائے سال2024-25 کا تخمینہ 544ارب روپے ہوگیا ہے۔رواں مالی سال2024-25کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ219ارب روپے تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینہ میں بڑھ کر 243ارب روپے ہو گیا ہے۔ جس میںجس میں 3976جاری ترقیاتی اسکیمات کے لیی157ارب روپے جبکہ 2704نئی ترقیاتی اسکیمات کے لیے 86ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔

رواںمالیاتی سال 2024-25میںنئی اسامیوں کی مد میں تمام صوبائی سرکاری محکموں میں2964اسامیاں تخلیق کی گئیںتھیں۔ جن پر اکثر محکموں میں میرٹ پر تعیناتیاں عمل میں لائی گئی اور کچھ محکموں میں اِن خالی اسامیوں پر بھرتیوں کا عمل جاری ہیں۔وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال 2025-26کا بجٹ جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ 2025-26میںحکومت کے اِقدامات میں صوبے کے دوردراز اور پسماندہ علاقوں میںیکساں بنیادی اِنفراسٹرکچر کی بہتری،ہنگامی صورتحال میں پیشگی اِقدامات اٹھانے اور جدت پر مبنی اصلاحات متعارف کروانے، سوشل سیکٹر کو مر بو ط بنانے، صوبے کے اپنے پیداواری شعبوں سے مزید بہر ہ مند ہونے، سماجی تحفظ کے لئے اِ قدامات کو وسعت دینے سمیت روزگار کے نئے مواقع پید ا کرنے اور امن و امان کی مکمل بحالی شامل ہیں۔

غرض یہ کہ معاشرے کا کوئی ایساطبقہ نہیں ہے جس کی فلاح و بہبود کے لئے اِقدامات نہ اٹھائے گئے ہوں۔ اِن اِقدامات میں سرکاری ملازمین،خواتین، پنشنرز،نوجوان،ماہی گیر،مزدور سمیت ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ اب میں اس معززایوان کے سامنے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کے مختصر اور بنیادی خدو خال پیش کر نا چاہونگا۔ آئندہ مالی سال 2025-26 کا کل بجٹ تخمینہ1028ارب روپے ہے جس میںغیر ترقیاتی بجٹ کا حجم 642ارب روپے ہے جبکہ مجموعی صوبائی ترقیاتی بجٹ (PSDP) کا حجم 249.50ارب روپے ہے۔

ڈویلپمنٹ گرانٹسFederal Funded Projects) (کی مد میں 66.5ارب روپے اور فارن پروجیکٹ اسسٹنس (FPA)کی مد میں38ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگرام کے علاوہ ہیں۔اس طرح یہ بجٹ ہمارے صوبے کا سرپلس بجٹ ہے اور اِس سرپلس بجٹ کا تخمینہ24ارب روپے ہے جو ایک لہاظ سے بلوچستان کا تاریخی بجٹ ہے۔نیز صوبہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک کھرب سے زیادہ کا بجٹ تجویز کیا جا رہا ہے۔

صوبائی آمدنی میںبھی بہتری لائی جا رہی ہے جس کے تحت صوبائی آمدنی کو 226ارب روپے تک پہنچا دِیا جائے گا۔ صوبے میں جاری اخراجات میں نمایاں کمی لائی گئی تاکہ صوبائی وسائل کو زیادہ اہم اور ترجیحی منصوبوں پر صرف کیا جا سکے۔ اِس مد میں Operating Expenditureکو موجودہ 43ارب روپے کے مقابلے میں 33ارب روپے تک کردِیا گیا ہے اِس طرح 10ارب روپے کی کمی کی گئی ہے رواں مالی سال کے دوران (Capital Exenditure)کی مد میں مشینری اور دیگر ضروری اشیا کی خریداری کے لئے 4.50ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

اِس میں بھی پچھلے سال کی نسبت 6ارب روپے کی کمی کی گئی ہے۔ محکموں کو گرانٹس کی مد میں 113ارب روپے رکھے گئے۔انہوں نے کہاکہ اگلے سال کے بجٹ کا ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت ایسے کئی منصوبوں پر کام کا آغاز ہو گا جوکہ ان شا اللہ اس صوبہ کی تقدیر بدل دیں گے۔جن کے مطابق مزید 8شہروں میں safe city کا قیام اور 18 ارب کی فراہمی۔ضلع کے سطح پرعوامی صروریات پوری کرنے کیلئی20 ارب کی فراہمی۔

شہری سہولیات کے لیئے 3 ارب کی فراہمی جو کہ ضفائی کے نظام اور نکاسی آب پر خرچ ہوگی۔ماشکیل میں ایک ڈیم کی تعمیرجس سے نہ صرف علاقے کو پانی دستیاب ہو گا بلکہ چاغی میں کان کنی کرنے والی کمپنیوں کوفروخت بھی ہوگا اس منصوبے کی لاگت تقریبا 25ارب روپے ہے، چاغی، صنعتی علاقوں ور شہریوں کیلئے شمسی گرڈز،نوجوانون کو ہنر سکھانے اور بلا سود قرضوں کا پروگرام جس کی لاگت 16 ارب روپے ہے،عوامی شکایات کے ازالے کے موبوط نظام جو کہ تحصیل کی سطح سے لے کر صوبائی سطح تک ہوگا،ڈیموں کے کمانڈایریا تعمیر کرنے کا منصوبہ،کم BTUگیس سے کھاد کے کارخانے کا منصوبہ شامل ہیں،اِسی طرح ہماری صوبائی حکومت نے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے یعنی Sustainable Development Goals (SDGs)کے تحت مالی سال 2025-26کے لئے قابل ذکر منصوبے اور ترقیاتی اِسکیمات رکھے گئے ہیں موجودہ صوبائی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لئے جامع ترقیاتی وژن تشکیل دِیا ہے جس میں معیشت،تعلیم، صحت اور اِنفراسٹرکچر کے نظام کو مرکزی اہمیت حاصل ہے جس میں ڈیمز، سڑکیں، صنعتی زون، ٹرمینلز، ریل کے منصوبے، روزگار و معیشت کی فراوانی،مائیکرو فنانس اور زراعت وغیرہ شامل ہیں۔

اِسی طرح بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کو فنی تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے 5000ملین روپے مختص �یے جا رہے ہیں۔ صوبے میں ماحولیاتی اِقدامات کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ صوبائی حکومت پہلی باربلوچستان کلائمیٹ چینج فنڈ کے تحت اِسپیشل فنڈ 500ملین روپے کی گرانٹ مختص کیا گیا ہے۔ جامعات کو8000ملین روپے کی رقم بلوچستان کے تمام یونیورسٹیوں کے لئے مختص کی گئی ہے۔

علاوہ ازیںفیڈرل گورنمنٹ یعنی HEC نے بھی 3000ملین روپے مختص کیے ہیں۔ بچت اِسکیم کے تحت موجودہ صوبائی حکومت کوئی نئی گاڑیاں نہیں خریدے گی صرف قانون نافِذ کرنے والے اداروں کی لئے جہاں ان کی ضرورت پڑے خریدی جائے گی۔نئے مالی سال 2025-26میں بلوچستان کے نو جوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پید ا کرنے کے لیے بلوچستان کے تمام مختلف سرکاری محکموں میںمجموعی طور پر 4188کنٹریکٹ اور 1958ریگولرنئی اسامیاں تخلیق کی جا رہی ہیں۔

ہماری حکومت مالی مسائل کا سامنا شروع دِن سے ہی کر رہی ہے مگر نا مساعد حالات کے باوجود حکومتی اور اپوزیشن کے حلقوں کو یکساں بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں میںوسائل کی تقسیم کو یقینی بنایا گیا ہے۔ صوبے کی بڑھتی آبادی کو سر کاری ملازمتوں اور دیگر روز گار کی فراہمی میں حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اب میں اِن اہم صوبائی سرکاری محکموں کی کارکردگی اور اِن کے بارے میں جو اِقدامات ہماری حکومت نے اٹھائی ہے اور مزیداِن کی لئے جو اِقدامات کیے جا رہے ہیں کو ڈپارٹمنٹ وائز پیش کرنا چا ہوںگا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ صحت کا بہتر نظام نہ صرف لوگوں کے معیار ِزندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں بھی معائون ثابت ہو تا ہے۔ مختلف بیماریوں کی روک تھا م، علاج معالجہ اور فروغ صحت کے حوالے سے اِقدامات کرنا، پبلک سیکٹر میں اِنتہائی اہمیت کے حامل ہے اِسی لیے شعبہ صحت ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شا مل ہے۔

محکمہ صحت نے ریکارڈ مدت میںبلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام کا آغاز کیاتھااورمزید اِس پروگرام کو وسعت دِیاجارہا ہے۔ اِس اِنقلابی اِقدام سے صوبے کے شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی میں آسانیاں پیدا ہوئیں ہیں۔لورالائی اور خضدار میں برن یونٹس (Burn Units)کا قیام اور اِن کی مشینری و دیگر ضروری آلات کی فراہمی اور کوئٹہ میں نئے قائم شدہ کینسر ہسپتال و ٹراما سینٹرکوسہولیات مہیا کرنا حکومتی اِقدامات میں شامل ہیں۔

ضلع نصیر آباد اور ژوب کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں میں 20بستروں پر مشتمل مکمل طور پر آئی سی یو اور ایچ ڈی یو سے لیس ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اِسی طرح رواں مالی سال میں بلوچستان کے تمام اِضلاع کے لئے مجموعی طور پر 66ایمبولینسیز کی خریداری کی گئی ہیں۔رواں مالی سال کے دوران663میڈیکل آفیسرز، لیڈی میڈیکل آفیسرز، ڈینٹل سرجنز اور اِسٹاف نرسز کوکنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کیے جا چکے ہیں۔

اب تک ہماری صوبائی حکومت بلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت تقریبا 208,986مریضوں کو 6300ملین روپے کی لاگت سے مفت علاج و ادویات فراہم کر چکی ہے اور دور دراز علاقوں میںعام آدمی کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے پی پی ایچ آئی کو4600ملین روپے کے گرانٹ دے چکا ہے۔آنے والی مالی سال 2025-26میں شعبہ صحت کے لیی2120کنٹریکٹ اور 37ریگولرنئی اسامیاںتخلیق کی گئی ہیں۔

مجموعی طورپر مالی سال 2025-26میں محکم صحت کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں16.4اور غیر ترقیاتی مد میں 71ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا فروغ سر فہرست ہے۔ حکومت بلوچستان پورے صوبے میں معیاری تعلیم کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میںہر سال صوبائی بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص ہوتا ہے۔

جس کا مقصد بلوچستان میں سب کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانا ہے۔ حکومت بلوچستان عوا م کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ رواں مالی سال میں حکومت بلوچستان نے صوبائی بجٹ کا 17%تعلیم جس میں سے 12.5فیصد اِسکول ایجوکیشن کے لئے مختص کیاگیا ہے جن میں چند اہم اِقدامات درج ذیل ہیںجس کے مطابق رواں مالی سال برائے 2024-25میں ہماری صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے اِیجوکیشن کابجٹ 34یصد اور ترقیاتی بجٹ 51فیصد بڑھایا۔

جس سے تعلیم کی بہتری میں مدد ملی۔رواں مالی سا ل2024-25 میں ہماری صوبائی حکومت نے ECE یعنی (Early Childhood Education)کلاسیز کے لئے تقریبا 100ای سی ای اساتذہ کی آسامیاں تخلیق کی گئی تا کہ بچپن کی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔اِسی طرح حکومت بلوچستان نے رواں مالی سال کے دوران 18نئے پرائمری اِسکول قائم کیے اور ساتھ ہی 50پرائمری اِسکولوں کو مِڈل کا درجہ، 43مِڈل اِسکولوں کو ہائی کا درجہ اور 4ہائی اِسکولوں کو ہائر سیکنڈری اِسکولز میں اپ گریڈکیے جاچکے ہیں۔

رواںمالی سال کے دوران موجودہ صوبائی حکومت نے 10337اساتذہ جو گریڈ 14-اور گریڈ 15-کی اسامیوں پر عارضی طور پر میرٹ پر بھرتی کیے اور اِسی طرح 3025غیر فعال اِسکولوں کو فعال بنایا گیاتاکہ بلوچستان کے بچے اور بچیاں تعلیم کے زیور سے محروم نہ ہوں۔ یہ سکول کئی سالوں سے بند پڑے تھے اور ان کے کھلنے سے عوام نے ان کی زبردست پزیرائی کی ہے۔موجودہ صوبائی حکومت نے اِس سال بلوچستان کے تمام اِسکولوں میں مفت درسی کتابوں کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا اور اِس ضمن میں 1ارب روپے کی بچت بھی کی گئی۔

اِسی طرح 97شیلٹر لیس اِسکولوں کو عمارتیں فراہم کی گئی اور اِن میں200ای سی ای کلاسیز والے کمروں کی مرمت ونئے کمروں کی تعمیر بھی کروائی گئی۔جاری مالی سال کے دوران موجودہ صوبائی حکومت نے 380ڈیجیٹل لائبر یریاں، 42سائنس و آئی ٹی لیبز، 156اِسکولوں میں سائنسی آلات کی فراہمی، 88کھیل کے میدانوں کو طلبا وطالبات کے لئے بحالی اور 142بسیں طلبا و طالبات کومہیا کی گئی۔

اِسی طرح بلوچستان کے 25اِضلاع میں ایجوکیشن کے ذیلی دفاترکا قیام، 7نئے بیچلرہوسٹلز برائے خواتین کی سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا۔رواں مالی سال کے دوران موجودہ صوبائی حکومت نے 431اِسکولوں میں باتھ روم کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا اور 230اِسکولوں میں ناپید سہولیات کو بھی مہیا کیے گئے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)کے تعائون سے اِسکول میل پروگرام (School Meal Programe)کے تحت کوئٹہ کی46اِسکولوں میںکھانے کی فراہمی کو یقینی بنایا۔

اِس پروگرام سے بلوچستان کے مختلف اِسکولوں کی 20400طلبا و طالبات اور ان کی مائوں کو فائدہ پہنچا۔آئندہ مالی سال 2025-26 میں ہماری صوبائی حکومت نے درج ذیل منصوبے تجویز کیے جو کہ درج ذیل ہے کہ آئندہ مالی سال ہماری حکومت نے ای سی ای اور پرائمری تعلیم کی بہتری کے لئے 28ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔اِسی طرح GPEیعنی (Global Partnership Education)گرانٹ کے تحت تعلیم میںمزید بہتری اور اصلاحات لانے کے لئے جس میں یونیسف، ورلڈ بینک اور یونیسکو کا تعائون بھی شامل ہے موجودہ صوبائی حکومت نے اِس منصوبے کے لئے 6.7ارب روپے کی گرانٹ مختص کیے ہیں۔

حکومت بلوچستان کی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ رکھنی کو ٹورنٹو(کینیڈا)کی طرز پر ایجو کیشن سٹی یعنی تعلیمی شہر قرار دیا جائے گا تاکہ اِسٹوڈنٹس کو تعلیمی سہولیات فراہم کیے جائے اور عالمی سطح پر مختلف یونیورسٹیوںکے اساتذہ کو صوبہ بلوچستان کی طرف مائل کیے جا سکے۔ آئندہ مالی سال 2025-26میں محکمہ تعلیم نے اِسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے لئے 1170کنٹریکٹ اور 67ریگولر نئی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔

آئندہ مالی سال 2025-26میں شعبہ تعلیم یعنی محکمہ اِسکول ایجوکیشن کی ترقیاتی مد میں 19.8اور غیر ترقیاتی مد میں101ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ جدید عہد میںاعلی تعلیم کے بغیر اِجتماعی ترقی کا خواب شرمندہ ِ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اعلی تعلیم کے بغیر ہم اپنے نوجوانوں کو قابل اور ہنر مند بنانے سے قاصر ہیں۔ اِس ضمن میں موجودہ صوبائی حکومت کی ترجیحات میں اعلی تعلیم کے حصول کو بھی عملی طور پر فوقیت دی گئی ہے۔

رواں مالی سال 2024-25میں کا لجز ہائیر اینڈ =ٹیکنکل ایجوکیشن محکمہ کے لئے غیر ترقیاتی مد میں22ارب 81کروڑ روپے رکھے گئے تھے اِسی طرح مجموعی طور پر2271ملین روپے کا گرانٹ صوبے کے تمام کالجز اور 11کیڈیٹ کالجوںکے لیے دئیے گئے۔محترمہ بنظیر بھٹو اِسکا لر شِپں کی مد میں محکمہ کالجز نے 54ملین روپے ایف اے، ایف ایس سی طلبا وطالبات کے لئے اور 51ملین روپے اِنٹر، ڈگری و پوسٹ گریجویٹ اِسکا لر شِپں طلبا وطالبات کے لئے جاری کیے۔

صوبائی حکومت نے جاری مالی سال 2024-25میں 5000ملین روپے کی گرانٹ کا فنڈ11عوامی شعبہ جات جامعات کے لئے جاری کیے اِسی طرح تمام یونیورسٹیز اور ریزیڈینشل کالجز کے بجٹ میں اِس سال 100فیصد اِضافہ کیا گیا۔ موجودہ صوبائی حکومت جاری مالی سال کے پی ایس ڈی پی اِسکیم میں 1000ملین روپے کی رقم میر چاکر خان رند یونیورسٹی کے سب کیمپس کو فعال بنا نے کے لئے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

جدیداور ناپید سہولیات کی کمی کو دور کرنے کے لئے مثلافراہمی صاف پانی کی سہولت کوتمام کالجز، پولی ٹیکنیک، بی آر سیز اور کیڈیٹ کالجوں میںمہیا کرنے کے لئے 2000ملین روپے کی رقم مختص کیا جا رہا ہے۔اِسی طرح صوبے کے تمام مختلف گرلز و بوائز کالجوں کو بسیں و کوسٹرز مہیا کرنے کے لئے مالی سال 2024-25کے جاری نئے پی ایس ڈی پی اِسکیم میں 500ملین روپے کی خطیر رقم مختص کیے جائے گے۔

آئندہ مالی سال 2025-26میں محکمہ کالجز کے لئے 91اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔ آئندہ مالی سال2025-26میںاِس شعبہ میں غیر ترقیاتی مد میں24ارب 1کروڑروپے اور ترقیاتی مد میں5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ زراعت ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور زراعت کا ملکی معیشت میں حصہ تقریبا 24حصہ ہے جس سے ملکی معیشت میں زراعت کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے۔

بلوچستان صوبے کے شمالی و جنوبی حصوں میں7سرد خانی(Cold Storage) جن میں پیداوار کرنے والے علاقے پنجگور، آواران و خاران، سیب اگانے والے علاقے کوئٹہ و پشین اورسبزی اگانے والے علاقہ ضلع حب میں تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ اِس سرد خانوں(Cold Storages) کا مقصد کسانوں کو مارکیٹ کی اتار چڑھائو اور اِن سے منسلک نقصانات سے بچنے، قومی سطح پر پیداوارمیں اِضافہ اور اِن کی فروخت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اِن سہولیات کو مہیا کرنا مقصود ہے۔

اِس سال نیو یارک اِنٹرنیشنل زیتون کا تیل کے عالمی مقابلے میں ہمارے صوبے کے ضلع لورالائی کے زیتون کا تیل سلور ایوارڈ 2025 جیتاجس سے پاکستان کا وقار اورپہچان دنیا میں مزید نمایا ہوئی۔ہمارے ملک کی یہ معززپہچان پہلی بار پاکستانی برانڈلورالائی کے زیتون کا تیل کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر عزت سے نوازاہے جوہمارے صوبہ بلوچستان کے لئے باعث اِفتخار ہے۔

رواں سال 2024-25میں محکمے کے بلڈوزر زنے 167,194 گھنٹے کام سر انجام دِیاجس سی24778 سے زائدایکڑ کی اراضی دوبارہ زیر کاشت بنانے کے قابل ہوئی۔ہماری صوبائی حکومت کسان کارڈ پروگرام کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہے اِس پروجیکٹ کے ذریعے سے تمام کسانوںکے لئے جامع نمونہ تیا رکرنا،مختلف پلیٹ فارم کسان اِنفارمیشن سسٹم سے اہم لازمی زرعی سبسڈی حاصل کرنا، قرض، معلومات، موسم کی تازہ ترین اپ ڈیٹ، موسمی زراعت کے مشورے، خبریں اور مالی اِمداد کی فراہمی شامل ہیں کسان کارڈ کے ذریعے مہیا ہوگی۔

کسان برادری اِس پلیٹ فارم کو موبائل ایپلیکشن، کال سینٹر سروسزاور ویب سائٹ کے ذریعے سے بھی اِستفادہ کر سکیںگے۔مجموعی طور پر مالی سال 2025-26میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں10ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں16ارب77کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس شعبے میں فقید المثال کام، تمام ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقل کرنا ہے بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پراجیکٹ یعنی 52 ارب کی لاگت سے یہ پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا یا جارہا ہے اس سلسلے میں صوبائی حکومت وفاقی حکومت کی بھی انتہائی مشکور ہے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ گندم عوام کی بنیادی ضروریات میںسے اہم جزو ہے اور اس کے مہنگا ہونے سے عام آدمی براہ راست متاثر ہو تا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے حکومت نے فوڈسیکورٹی کے لیے خاطر خواہ ذخیرہ رکھتی ہے تاکہ کسی بھی بحرانی کیفیت سے فوری طور پر بہتر انداز میں نمٹا جا سکے۔ ہماری صوبائی حکومت نے بلوچستان کے گوداموں میں 3سال سے موجود گندم کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے محکمہ خوراک بلوچستان گندم فوری نکالنے کی اِجازت دی تاکہ سرکاری خزانے کو زیادہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔

اِسی طرح ہماری صوبائی حکومت نے بلوچستان فوڈ اتھارٹی کوبھی مزید فعال بنایا ہے جو مختلف مقامات پر چھاپے مارتی ہے اور خوراک کی کوالٹی کو چیک کر تی ہے تاکہ عوام کو مضر صحت اشیا اور گندے پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوںکو کھانے سے بچایا جا سکے۔ محکمہ نے رواں مالی سال سال 2024-25میں گندم کی کوئی خریداری نہیں کی تا کہ پہلے سے موجود گندم کو اِستعمال میں لایا جائے اور اِنہیں خراب ہونے سے بچایا جائے۔

رواں مالی سا ل کے دوران محکمہ نے ہزاروں طلبا و طالبات اور اساتذہ کو فوڈ سیفٹی پروگرام کے بارے میں عملی آگاہی دی اور 3800سے زائد طلبا و طالبات اور اساتذہ کو فوڈ سیفٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ محکمہ نے 825 کاروباری حضرات کو کامیاب و صحت بخش کاروربار کی بنیاد کی فراہمی و آگاہی اورفوڈ ورکرز کو حفظانِ صحت اور فوڈ سیفٹی کے بارے میں تربیت دی گئی۔

آئندہ مالی سال 2025-26میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 26.9ملین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں1ارب19کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہاکہ مقامی اور نچلی سطح پر سروس ڈیلیوری کے لیے لو کل گورنمنٹ سسٹم کا کرداراِنتہائی اہم شمار کیا جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے موجودہ حکومت لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مزیدموثر بنانے کے لیے اہم اِقدامات اٹھارہی ہے۔

لوکل گورنمنٹ نی(Bureau of Statistics) حکومت پاکستان کے تعائون سے صوبے میںسال 2023کے دوران آٹھویں ڈیجیٹل مردم شماری کروائی جو 1مارچ 2023سے شروع ہوئی اور 30مئی 2023تک جاری رہی۔ رواں سال 2024-25میں709 ترقیاتی اِسکیمات رکھے گئے تھے جن میں سے 438پر کام مکمل ہو چکا ہے اور باقی ماندہ 271 اِسکیمات پر کام جاری ہے۔آئندہ مالی سال 2025-26کے لئے صوبائی حکومت نے محکمہ لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے لئے 9کنٹریکٹ اور 31ریگولر نئی اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔

آئندہ مالی سال 2025-26میں اس شعبے کی ترقی کے لیے ترقیاتی مد میں 12.9ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں42ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہاکہ کسی بھی علاقے و عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے ذرائع مواصلات و تعمیرات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سرکاری عمارتوں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے حوالے سے یہ محکمہ بہ حیثیت ایک عمل درآمدی ادارہ کے پبلک سیکٹر میں ترقی و خوشحالی کے لیے اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

بلوچستان جیسے وسیع و عریض صوبے جس میں مختلف آبادیوں کے درمیان زمینی فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کو کم کرنے میںاِس محکمے کا کرداراِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مواصلات کی بہتری کے لیے ہماری موجودہ صوبائی حکومت صوبے بھر میں شاہراہوں کامزید جال بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ہماری صوبائی حکومت رواں سال 2024-25 میںکئی صوبائی ترقیاتی اِسکیمات پرکام مکمل کر چکی ہیں جن میںتعمیر ٹراما سینٹر نواب غوص بخش میموریل ہسپتال مستونگ، سائنس کالج کوئٹہ کاتجدید اوررنگ و روغن وغیرہ کا کام، متبادِل صوبائی اِسمبلی حال کی تعمیر، کوئٹہ میں بی ایم سی کالج اور اِن کی ہاسٹل کی تعمیر، رئیسانی روڈ اور منیر احمد مینگل روڈ کی تعمیرات اور کوئٹہ شہر کے مختلف شاہراہوں پر پہلے سے قائم قالین بافی کے بچھانے کا کام اور اِن کی دوبارہ بحالی شامل ہیں۔

محکمہ مواصلات و تعمیرات دوسرے محکموں کو بھی تعائون فراہم کرتا ہے۔جن میں بلوچستان ہائی کورٹ کوئٹہ کے پارکنگ پلازہ کی فراخی و توسیع،ژوپ تا وانا روڈ کی تعمیر، قلعہ سیف اللہ میں مرغہ فقیرزئی تا بادینی روڈ کی تعمیر شامل ہے۔رواں مالی سال میں وفاقی حکومت کے تعائون سے جاری ترقیاتی اِسکیمات جن میں ٹریفک کی بھیڑ/بہائو کو کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں کم کرنے کے لئے فلائی اوور کی تعمیر پر3010.87ملین روپے، سبی تا تلی روڈاور کوہلو تا رکھنی روڈ کی تعمیر پر 3033.96ملین روپے اوردرگئی تا شبوزئی روڈ کی تعمیراوراِن کی اپ گریڈیشن پر 6929.859ملین روپے کی لاگت کے اخراجات تعین ہے جس پر کام تیزی سے جاری ہے۔

مالی سال 2025-26 ترقیاتی مد میں اس شعبے کے لیے 66.8ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی مد میں 17ارب48کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔میرشعیب نوشیروانی نے کہاکہ جہاں صوبے کی مجموعی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے امن وامان کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہاں صوبے کے محل و قو ع اور وسیع وعریض رقبے کی وجہ سے امن و امان ایک بہت بڑ ا چیلنج ہے لیکن اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے تما م قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیو ں سے صوبہ بھر میں مخدوش امن وا مان کی صورتحال کو کنٹر ول کیا گیاہے۔

اِس حوالے سے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار قابل تحسین ہے۔ساتھ ہی ہماری عوام نے بھی اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھر پور تعائون کیے ہے جو قابِل ستائش ہے۔ رواں مالی سال موجودہ صوبائی حکومت نے پولیس کو مزید فعال کرکے محفوظ سفر کے لیے قومی شاہراہوں کی سیکیورٹی کو بڑھا دِیا گیا ہے۔محرم، عیداور دیگر قومی ومذہبی دِنوں کی تقریبات کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی حفاظتی اِقدامات کیے گئے۔

اِسی طرح بلوچستان کانسٹیبلری کو بھی جدید خطوط پر اِستوار کیا جا رہا ہے۔صوبے میںاِنٹیلی جنس میکانزم کو ہموار کرنے کے لیے صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح کی ایپکس کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ رواں مالی سال موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے میں حالیہ دہشتگردی کے لہر کو کم کرنے اور اِن کو کچلنے کے لیے سی ٹی ڈی (CTD) کو از سر نو منظم اور جدید آتشی آلات سے لیس کرکے دیگر قانون نا فِذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اِسے مزید فعال بنا یا گیا ہے۔

رواں مالی سا ل میں ہماری صوبائی حکومت نے بلوچستان پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کو مضبوط اور فعال بنانے کے لئے مجموعی طور پر 51ارب 33کروڑ روپے کافنڈ جاری کیے گئے تا کہ صوبے میں امن و امان کو بہتر کیا جاسکے۔ ہماری صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ لیویز فورس بلوچستان کو پولیس کی طرح جدید خطوط پر اِستوارکریں اِس مقصد کے لئے چند چیدہ اِقدامات درج ذیل ہے جن میں جاری مالی سال 2024-25میں 400ملین روپے کی رقم سے بلوچستان لیویز فورس کے لئے وردی و حفاظتی لباس اور 447.322ملین روپے کی لاگت سے بلوچستان لیو یز کے لئے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی خریداری کی گئی۔

نیزوائر لیس آلات اور شمسی نظام کی خریداری کے لئے 109.980ملین روپے کی اخراجات کیے گئے۔ بلوچستان لیویز فورس کے لئے کواڈکوپٹرڈرون کی خریداری کے لئے موجودہ مالیاتی سال کے دوران 482.500ملین روپے کی رقم کی اخراجات کی جا چکی ہیں۔اِسی طرح 50ملین روپے کی رقم سے لیویز کے لئے قریب وژن/تھرمل چشموں (Night Google)کی خریداری کے لئے خرچ کیے گئے۔بلوچستان لیویز فورس کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود کی خریداری کے لئے 102.5ملین روپے کی رقم موجودہ مالیاتی سال کے دوران خر چ کی گئی۔

اسی طرح رواں مالی سا ل2024-25 میں موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام اِضلاع میں قائم جیل خانوںکو سہولیات کی فراہمی اور اِن کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے محکمہ جیل خانہ جات کے لئے 2ارب11کروڑ روپے کاخطیر رقم جاری کیے۔ جس میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی مد میںدونوں رقم شامل ہیں۔موجودہ صوبائی حکومت نے جیلوں میں ایکسرے پلانٹس، ای سی جی اور الٹرا سائونڈ مشینوں اور دیگر ضروری آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا۔

رواں مالی سال کے دوران محکمہ جیل خانہ جات نے مختلف مد میں 68لاکھ 20ہزار 958روپے کا ریونیوبھی جمع کیا۔محکمہ بلوچستان شہری دِفاع ایک ایمرجنسی سروس مہیا کرنے والا ادار ہ ہے جو حساس وخطرناک حالات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت اپنی خدما ت دیگر قانون نافِذ کرنے والے اداروں کے تعائون سے جن میں بم کو ناکارہ کرنا، قدرتی آفات و حادثات سے بچائو اور آگ بجھانے یا آتش نشانی کی کارروائیوں میں حصہ لینا، اہم مقامات و وی وی آئی پی راستوں پر آئی ای ڈیز کی تلاش واِن کی صفائی کرنا وغیرہ شامل ہے کو احسن طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔

اِس جاری مالی سال میں محکمہ نے صوبے بھر میں لوگوں کی زندگیوںکا تحفظ و املاک کو نقصانات سے بچانے میںبھی اہم کردار ادا کیا۔آئندہ مالی سال 2025-26 میںامن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے غیر ترقیاتی مد میں83ارب اور 70کروڑروپے مختص جبکہ ترقیاتی مد میں 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ گڈ گورننس کے مجموعی وژن کے تحت، بلوچستان بورڈ آف ریونیو نے بین الاقوامی قواعد کے مطابق ریونیو ریکارڈ کی آٹومیشن اور کمپیوٹرائزیشن کا آغاز کیا ہے۔

اِسی طرح 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی محصولات میں اِضافے کے لیے پالیسی سطح پر جس تناسب سے کام میں تیزی لانے کی ضرورت تھی بد قسمتی سے ہمارا صوبہ ریونیو جمع کرنے میںپیچھے رہ گئے۔تا ہم موجودہ صوبائی حکومت اِس شعبے کی کارکردگی میں اِضافے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی تاکہ صوبے کے ٹیکس اور نان ٹیکس کی مدمیں محصولات کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے، صوبائی ترقیاتی پروگرام کے ذریعے سے ایک بہتر Public Serivce Deliveryکے تحت اِن پر خرچ کیا جا سکے۔

رواں مالی سال کے دوران موجودہ صوبائی حکومت نے محکمہ بلوچستان بورڈ آف ریو نیومیں اصلاحات لانے کے لئے فیز1-میں لینڈ ریونیو منجمنٹ اِنفارمیشن سسٹم (LRMIS) پروجیکٹ کو کامیابی کے ساتھ شروع کر چکے ہیں، جن میں مرکز سہولت چار بڑے شہروں، کوئٹہ، گوادر، جعفرآباد اور پشین میں قائم کئے جا چکے ہیں جہاں شہریوں کو ایک ونڈو آپریشن کے تحت کمپئوٹرائزڈ فرد و زمین کا محفوظ ریکارڈ کا اِجراء، رجسٹری کے ذریعے ناموں کا اندراج، زمینوں کے ریکارڈ کا تبدیلی یا تغیر نام، زمین کے لئے خود کارٹیکس نظام کے تحت ٹیکس کا جمع کرانا،رجسٹرڈ مال گزاری ونقشہ زمین کی حد، قیمت او رملکیت کو ظاہر کرناخاص طور پر ٹیکسوں کے لئے نقشہ یا سروے کے ذریعے، وراثت جائیداوں کی ناموں کی تبدیلی اورایس ایم ایس سروسز وغیرہ کا اِجرا شامل ہیں۔

اِسی طرح محکمہ نے فیز 2-میںبھی LRMIS پروجیکٹ کے تحت زمینوں کے ریکارڈکو بہتر بنانے یعنی دوسرے مرحلے میں یہ پروجیکٹ7 اِضلاع میں شروع کیا جا رہا ہے جن میں خضدار، لورلائی، لسبیلہ، سبی، صحبت پور، مستونگ اور خاران شا مل ہیں۔اِسٹمپ ڈیوٹی کی وصولی حکومت بلوچستان کے ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ صدیوںپرانے عمل میںبڑے مسائل اور فراڈ ہوتے تھے۔

اِن پر قابو پانے کے لیے محکمہ ریونیو E-Stampingنافذکر چکاہے اوراِس جاری مالی سال میں اب تک 73ملین روپے کا ریونیو موصول ہو چکا ہے۔ مجموعی طور پر اِس محکمہ نی4544ملین روپے کا اِسٹیمپ ڈیوٹی او دیگر مختلف مد میں ٹیکس جمع کر چکے ہیں۔اِسی طرح زمین کے بندبست کیلئے land Information mangment sistem LIMs جو ایک ایڈوانس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے کوصوبائی کابینہ نے پورے صوبے میں نفاذکی منظوری دی ہے جن کے لئے 3ارب روپے برائے مالی سال 2025-26میں مختص کی گئی ہے۔

اس منصوبے پر 34ارب روپے لاگت آئے گی۔آئندہ مالی سال 2025-26 میںاِس شعبے کے لئے غیر ترقیاتی مد میں6ارب77کروڑ روپے مختص جبکہ ترقیاتی مد میں 3.9ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹرانسپورٹ اِنفراسٹرکچر معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لئے نہ صرف ملکی بلکہ صوبائی لیول میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کرتاہیں۔ ہماری صوبائی حکومت صوبے بھر میںٹرانسپورٹ سروسز کو اپ گریڈکرنے کے اِقدامات کر رہے ہیں تاکہ عوام کوبہتر سفر کی سہولیات میسر ہو سکے۔

کوئٹہ شہر میں شہری ماسٹر ٹرانزٹ سسٹم کے تحت کوئٹہ سٹی میں توسیعی فیڈر روٹس پر کام جاری ہے۔اِس ضمن میں محکمہ ٹرانسپورٹ کامیابی کے ساتھ ایک منصوبہ گرین بس سروس کو کوئٹہ شہر اور اِن کی مضافات میں وسط دی جارہی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں عوام دوست اور دیرپا منصوبے لا رہی ہے۔رواں مالی سال کے دوران محکمہ ٹرانسپور ٹ کی نِگرانی میں گرین لائن منصوبے کے تحت 17مزید نئی بسوں جن میں صرف خواتین کے لئے 05پنک بسوں کی مدد سے اِن کو موجودہ سسٹم میں شامل کر کے 40کلومیٹر کا علاقے تک پھیلا دِیا ہے جس سے 30ہزار سے 40ہزار مسافروں کی روزانہ کی بنیاد پرسفر کی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔

اِس پروجیکٹ کے مزید فعالیت سے مختلف اداروں کے طلبا کو، 25فیصد سے زیادہ عام مسافر کو اور تقریبا روزانہ اوسط سواری 9000مسافروں کوسفر کی سہولیات فراہم کی جار ہی ہے۔ رواں مالی سا ل کے دوران حکومت بلوچستان نے عوامی سہولت اور جدید سفری نظام کی بلوچستان کے عام عوام تک فراہمی کے لئے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے پاکستان ریلویز کے اِشتراک سی'' پیپلز ٹرین سروس'' چلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے یہ پیپلز ٹرین سروس اِبتدائی طور پر کوئٹہ کے مختلف نواحی علاقوں سریاب اور کچلاک کے درمیان چلائی جائے گی جس کا مقصد شہریوں کو معیاری، محفوظ اور کم لا گت کے سفری سہولیات مہیا کرنا ہے۔

اِس منصوبے کے تحت پاکستان ریلویز کے موجودہ پانچ پرانے ریلوے اِسٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جبکہ 2نئے ریلوے اِسٹیشن تعمیر کیے جائیںگے اور ریلوے ٹریک کو جدید خطوط پر اِستوار اور اپ گریڈ کرکے ٹرین کی رفتار اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اِس سلسلے میں پاکستان ریلویز اور محکمہ ٹرانسپورٹ بلوچستان کو وزیر اعلی میر سرفراز احمد بگٹی صاحب نے منصوبے کو قابِل عمل بنانے کے لئے واضع ہدایات بھی جاری کردی ہے۔

مالی سال 2025-26 میں اس شعبے کے لیے غیر ترقیاتی مد میں46کروڑ 35لاکھ روپے جبکہ ترقیاتی مد میں543 ملین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پانی انسانی زندگی کا اہم جزو ہے جدید عہد میں پانی کا مسئلہ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی بقا کا مسئلہ ہے ۔ آبپاشی جیسے اہم شعبے پر ہمیں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ایک طرف محدودپانی کے وسائل ضائع ہورہے ہیں تو دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح پرائیوٹ ٹیوب ویلوں کے بے جا زائداِستعمال سے خطرناک حد تک نیچے گِر چکی ہے۔

اس ناموافق صورت حال سے ہماری حکومت بخوبی واقف ہے جس سے نمٹنے کے لیے جدیدآب پاشی کے نظام اور پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیمز کی تعمیرکی ضرورت ہے۔ ہم اس حوالے سے صوبہ بھر میں ہر قسم کے اِقدامات اٹھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت اِس اہم آبی مسئلے سے بخوبی واقف ہے جس سے نمٹنے کے لیے جدید آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس کی بہتری کے لئے اہم اِقدامات کرنے کی کوششیں ہورہی ہے۔

مالی سال 2024-25 محکمہ آ ب پاشی کا کل حجم 38 ارب روپے تھا۔اس میں431جاری اِسکیمیں جبکہ 348نئی اِسکیمات شامل تھیں۔جن میں سے 186اترقیاتی اِسکیمیں پایہ تکمیل تک پہنچیں۔ جس میں گھروں اور زرعی زمینوں کی سیلاب سے حفاظت کے لیے بندات، نہروں میں پانی کی روانی بر قرار رکھنے کے لیے اِن کی صفائی اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے صوبے میں نظام آب پاشی، زیر زمین پانی کی سطح کوبلند کرنا اور پانی کی قلت کو قابوکرناشامل ہیں۔

رواں مالی سا ل میں صوبائی ترقیاتی بجٹ سے بولان ڈیم،آواران میں تنگی ڈیم، کوئٹہ میں سراخلہ ڈیم اور گوادر میں، سینزانی ڈیم پر جبکہ وفاقی و صوبائی حکومت کے مشترکہ تعائون سے گروک ڈیم خاران، بسول ڈیم گوادر، وندر ڈیم لسبیلہ، گشکور ڈیم کیچ، پنجگور ڈیم، آواران ڈیم اور سنی گرڈیم خضدار پر کام تیزی سے جاری ہے اِن ڈیموں کی تکمیل سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی۔

گروک ڈیم ان شااللہ اس سال مکمل ہو جائے گاسیلابی پانی کی مناسب منصوبہ بندی کے لیے اریگیشن ڈپارٹمنٹ نے اِنفارمیشن منجمنٹ سسٹم (Information Management System) متعارف کروایا ہے۔ اِس نظام کے ذریعے سے آب وہوا، موسم، پانی اور سیلاب کی صورت حال کا ڈیٹا آسانی سے حاصل کیا جائے گا۔مالی سال 2025-26 میں اِس شعبے کے لیے غیر ترقیاتی مد میں5ارب30کروڑ روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 42.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت مختلف اِقدامات پر عمل کر رہی ہے۔ گزشتہ کہی دہائیوں سے بارش و برف باری میں کمی، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے پس منظر میں پانی کا مسئلہ صرف بلوچستان کا اہم مسئلہ نہیں بلکہ اکثر ممالک کی بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔ اِن مشکلات و مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت اِس شعبے میں اپنی ذمہ داریوں سے باخبر ہے۔

رواں مالی سال 2024-25 کے دوران درج ذیل اِقدامات کیے گئے ہیںمحکمہ آب نوشی تقریبا454واٹر سپلائی ترقیاتی منصوبے مکمل کرا چکی ہیں جن سے تقریبا 25لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ موجودہ واٹر سپلائی اِسکیموں کو شمسی توانائی پر منتقل کر نے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل اور جون 2025تک تقریبا 295اِسکیموں کو سولر پاور سسٹم پر منتقل کردِیا جائے گا، جس سے تقریبا 8لاکھ افراد کو بِلا تعطل پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

کوئٹہ واٹر سپلائی اینڈ اِنوائرمینٹل ایمپروومنٹ پروجیکٹ کے تحت، دشت ویلفیلڈکے کام کومکمل کیا ہے جس میں 35کلومیٹر طویل 16اِنچ قطر کی پائپ لائن بچھائی گئی ہے اِس سے روزانہ 10لاکھ گیلن پانی کے فراہمی ممکن ہو گی جس سے سریاب اور سیٹلائٹ ٹائون کے رہائشی مستفید ہوں گے۔ اِسی طرح اِس منصوبے کے تحت بلوچستان یونیورسٹی میں ایک نیا ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ(New Waste Water Treatment Plant) تعمیر کیا جا رہا ہے جس کی یومیہ صلاحیت 2.4ملین گیلن ہے جس کا 80فیصد سول ورک مکمل ہو چکا ہے۔

آنے والی سال2025-26 میں آب نو شی کے لیے ترقیاتی مد میں17 ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں بشمول واسا11ارب20کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اے آئی(Artificial Intelligence) اور آئی سی ٹی یعنی (Information and Communication Technology) پوری دنیا میں قوموں کی ترقی کے علامات سمجھی جاتی ہیں۔ حکومت بلوچستان تمام علاقوں میں سائنس اور آئی ٹی کی سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے آئی سی ٹی کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔

آئی ٹی کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ہماری ملکی معیشت کا اِنتہائی اہم حصہ بن چکا ہے اور گلوبل سائبر سیکورٹی اِنڈیکس2024-، یو این ای گورنمنٹ اِنڈیکس اور آئی سی ٹی ڈویلپمنٹ اِنڈیکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے آئی ٹی شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کوئٹہ سیف سٹی منصوبہ فعال ہو چکا ہے۔جدید ترین سی سی ٹی وی کیمروں، آلات اور نظام کے ذریعے عوامی مقامات کی نگرانی فراہم کر رہا ہے تا کہ جرائم کی بروقت نشاندہی ہو سکے اور ابھی تک 300سے زائد مستند شواہد کا حصول بھی ہوا ہے اور ٹریفک کے بہائو کو روزانہ کی بنیاد پر بر قرار رکھنے کے لئے بھی یہ کیمرے اِستعمال میں لائے جا رہے ہیں۔

اِسی طرح چہرہ شناختی یا شناسی کے نظام کے تحت اور اِس پر مبنی حاضری منجمنٹ سسٹم (Facial Recognition Attendance Management System)کی تنصیب سب سے پہلے بلوچستان سول سیکرٹریٹ، یونیورسٹی آف بلوچستان، بولان میڈیکل کالج،
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات