راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس،لینڈ ایکوائر کرنے کے لئے نیسپاک کا تخمینہ غلط ثابت ہونے لگا، 34ارب 80 کروڑ لاگت کے منصوبے میں لینڈ ایکوزیشن کے لئے 02ارب 96کروڑ رکھے گئیجبکہ صرف فیض آباد کی اراضی پر 3ارب 50کروڑ سے زائد خرچ ہونے کا امکان،14ہزار سے زائد افراد کے بے روز گار ہونے کا بھی خدشہ ،فیض آباد کے تاجروں نے احتجاجی کیمپ بھی لگادیا ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے میٹرو بس کے روٹ میں معمولی تبدیلی کا مطالبہ،متاثر ہ وڈیروں نے بھی لنگوٹ کس لئے،منصوبے کی بھرپور مخالفت کرنے کا فیصلہ

جمعہ 7 فروری 2014 07:54

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7فروری۔2014ء) نیسپاک کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کی مد میں لینڈ ایکوائر کرنے کے لئے رقم کا تخمینہ غلط ثابت ہونے لگا،نیسپاک کے مجوزہ روڈ میپ کے مطابق 34ارب 80 کروڑ لاگت کے منصوبے میں لینڈ ایکوزیشن کے لئے 02ارب 96کروڑ رکھے گئے تاہم صرف فیض آباد کی اراضی ایکوزیشن کا تخمینہ 3ارب 50کروڑ سے زائد کا بن رہا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کے جہاں بہت سے فوائد بتائے جا رہے ہیں وہیں 14ہزار سے زائد افراد کو بے روز گار ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور فیض آباد مارکیٹ ختم کرنے کی صورت میں حکومت کو ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گاجس کے خلاف فیض آباد کے تاجروں نے احتجاجی کیمپ بھی لگادیا ہے اور وہ وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے میٹرو بس کے روٹ میں معمولی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں، منصوبے کے باعث متوقع طور پر متاثر ہونے والے وڈیروں نے حکومت کیخلاف لنگوٹ کس لئے ہیں اور منصوبے کی بھرپور مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق فیض آباد اور مری روڈ کی تاجر تنظیموں نے حکومت سے میٹروبس منصوبے کا روٹ تبدیل کرنے کے لئے دباوٴ شروع کر دیا ہے۔پنجاب حکومت کی جانب سے عوام کو جدیدسفری سہولت دینے کی غرض سے راولپنڈی تااسلام آباد میٹروبس منصوبے کا اعلان کر دیاجس کا باقاعدہ سنگ بنیاد 28فروری کورکھا جائے گا۔منصوبہ چار مراحل میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

جس پر 34ارب 80کروڑ کی لاگت آئے گی ۔لینڈ ایکوزیشن کے لئے 2ارب 96کروڑ روپے کی رقم مختص کیے گئے لیکن نیسپاک کے مجوزہ روڈ میپ کے تحت اگر حکومت کو صرف فیض آباد کی اراضی ایکوائرکرنی پڑی تو اس کاتخمینہ ساڑھے تین ارب سے بھی زائد لگایاجارہاہے۔کاروباری حلقوں کے مطابق میٹروبس منصوبے کا ٹریک اگر فیض آباد کاروباری مرکز سے چند میٹر آگے مہریہ مسجد کے ساتھ سروس روڈ یا سروے آف پاکستان سے بنایاجاتاتو حکومت کو نہ صر ف اربوں روپے کی بچت ہو گی اور ممکنہ عوامی رد عمل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

تاجر تنظیموں کے ”مطابق نیسپاک کی جانب سے جاری کردہ نقشے جس کے تحت فیض آباد کا تجارتی مرکز مکمل طور پر ختم ہورہاہے متاثرین میں شدیدبے چینی بڑھنے لگی ہے اور موجودہ سروے کے مطابق منصوبے پر اگر کام شروع ہوگیا تو فیض آباد جنکشن کی تکمیل شاید حکومت کے لئے ڈراؤنا خواب بن جائیگا،منصوبے کی زد میں آنے والے ہزاروں متاثرین نے اپنے روزگار بچانے کے لئے جان کی بازی لگادینے کی ٹھان رکھی ہے“ ۔

تاجر تنظیموں کا مزید کہا ہے کہ حکومت اگر ٹریک کی زد میں آنے والی بلند وبالاعمارتوں کے مالکان کو پرکشش معاوضہ دے بھی دے لیکن اس کے باوجود دوکاندار کسی طور پر اپنے کاروبار وں کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے جبکہ فیض آبادکے تاجروں کا کہناہے کہ حکومت کے پاس متبادل راستہ ہونے کے باوجود فیض آباد کی مارکیٹ کے درمیان سے ٹریک بنانے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے اور پنجاب حکومت کو شاید اندازہ نہیں کہ اس کی کس قدر بھیانک مضمرات سامنے آسکتے ہیں اور منصوبے کی زد میں آنے والے چھوٹے دوکاندار پہلے ہی اجتماعی خودسوزیوں کی دھمکی دے چکے ہیں“ ۔

فیض آباد کی مقامی تاجر تنظیم کے مطابق نیسپاک کی جانب سے مجوزہ روڈ میپ کے مطابق صرف فیض آباد کے 14000افراد بیروزگار ہوجائیں گے جن میں سے اکثریت کا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔فیض آباد کے دوکانداروں اور مالکان نے مشترکہ طور پر 20رکنی ایکشن کمیٹی بنادی ہے جو مستقبل کا لائحہ عمل آئندہ دو دن میں طے کریگی۔منگل کو فیض آباد میں علامتی احتجاجی کیمپ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جن میں راولپنڈی کی مرکزی انجمن تاجران کے نمائندے بھی شامل تھے جنھوں نے فیض آباد کے تاجروں کو یقین دلایاکہ وہ اس مشکل گھڑی میں اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اگر فیض آباد کے متاثرین کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پھر ایکشن کمیٹی کے فیصلے پر من وعن عمل ہوگا اور شدیداحتجاج کا سلسلہ شروع ہوجائیگا۔

مقامی تاجروں کی بڑی تعداد نے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب سے اپیل کی ہے کہ ان کا معاشی قتل نہ کیا جائے اور میٹرو بس منصوبے کا روٹ تبدیل کر کے ایسے علاقہ سے گزارا جائے جس سے تاجر براداری اور عوام کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔