2025ء تک پاکستان میں پانی ختم ہو جائے گا؟

قلت آب پر اقوام متحدہ کا خصوصی پروگرام آبی ذخائر میں کمی‘دریاؤں میں آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات بھی خطرات سے دو چار

ہفتہ 22 جون 2019

2025 tak pakistan main pani khatam ho jaye ga?
 نبیلہ اکبر
عالمی ادارہ برائے خوراک وزراعت کی نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہورہا ہے ۔عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں اور پاکستان میں 80فیصد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے ۔آبی ذخائر نہ ہونے اور دریاؤں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیدا وار بھی متاثر ہورہی ہے ۔

رپورٹ کے مطابق 2025ء تک دنیا میں 1.8ارب افراد کو پانی کی کمی کا سامنا ہو گا اور دنیا بھر کی دو تہائی آبادی پانی کی شدید قلت کے دباؤ میں ہوگی۔
اسی طرح 2045ء تک 135ملین عالمی آبادی پانی کی قلت کے باعث اپنی آبادیاں چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں کمی کیساتھ ساتھ آبی وسائل سے بھر پور استفادہ اور پانی کے استعمال میں احتیاط انتہائی ضروری ہے تاکہ آنے والے وقت میں آبی قلت اور زمین کے بنجر ہونے اور صحراؤں میں اضافہ جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پانی کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاہم آبی قلت اور زمینوں کو بنجر ہونے اور صحرازدگی سے بچانے کے لئے پاکستان کو سر سبز بنانا ہو گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پانی کی قلت کی فی کس سالانہ کم از کم حد ایک ہزار کیوبک میٹر ہے تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس پانچ سوکیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے ۔

دوسری جانب عرب ممالک میں خانہ جنگیوں ،موسمی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافہ بھی ہورہا ہے جس سے پانی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے ۔اقوام متحدہ نے قلت آب کے بارے میں عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جسے پانی برائے پائیدارترقی کا عنوان دیا گیا ہے ۔اس 10سالہ پروگرام کا آغاز 2018ء میں کیا گیا تھا اور یہ 2028ء تک جاری رہے گا۔


تاہم پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالے سے 2025ء ایک علامتی سنگ میل ہے ۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یواینڈی پی)،آئی ایم ایف،پاکستان کی کونسل فارریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی)سبھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں ’پانی ختم ہو جائے گا‘۔
پاکستانی تحقیق ادارے نے 1990ء میں تنبیہ کی تھی کہ ’پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے اس کے بعد 2005ء میں اس ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ’پانی کی قلت‘کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے ۔


یہ صورت حال وقت ،مواقع اور وسائل کے مسلسل ضیا ع کا نتیجہ ہے ۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ5200کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ آج یہ شرح 1000کیوبک میٹر سے کم ہے اور خدشہ ہے کہ 2025ء تک یہ مزید کم ہو کر 500کیوبک میٹر تک رہ جائے گی۔سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے خشک سالی اور قحط۔پانی کی قلت اور متعلقہ مسائل پر کام کرنے والے تحقیق ادارے کے مطابق چند دہائی قبل تک پاکستان میں تیس فٹ گہرائی تک پانی مل جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں پانی کے لیے سات سے آٹھ سوفٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے۔

پانی کے زیر زمین ذخیرہ کی تشکیل میں قدرت کو بعض اوقات ایک ہزار برس درکار ہوتے ہیں ۔
اگر اس پانی کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے بے دریغ نکالا جائے گا تو یقینا چند برسوں میں ختم ہو جائے گا۔پنجاب میں زیر زمین پانی کی شرح 20ملین مکعب فٹ تھی لیکن ہم نے اس کی گویا کان کئی کی ہے ۔واپڈاکی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں ۔

اسلام آباد کو 176ملین گیلن سالانہ درکار ہے مگر اسے 84ملین گیلن میسر ہے ،کراچی کو1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف600ملین میسر ہے ،پشاور کی سالانہ ضرورت 250ملین گیلن ہے جبکہ اسے صرف 162ملین گیلن حاصل ہوتا ہے ،لاہور کی سالانہ ضرورت 692ملین گیلن ہے جبکہ اس کے پاس 484ملین گیلن ہوتا ہے ،کوئٹہ کی ضرورت 45ملین گیلن ہے جبکہ اسے 28ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں۔


ماہرین کے مطابق ،ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آباد ی میں اضافہ سے بھی پانی کی ضرورت اور ترسیل کے حوالے سے دباؤ بڑھا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں۔کسی باضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقررنہ گئے لہٰذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے موادزیر زمین پانی میں بھی رس گئے
۔


سیمنٹ اور چمڑہ فیکٹر یوں نے ناقابل تلافی نقصا ن پہنچایا۔نہروں کی دیکھ بھال نہ کی گئی اور نہری سلسلے میں آبپاشی کے دوران تقریباً50فیصد پانی ضائع ہوتا رہا۔سیم اور تھور کی روک تھام نہ کی جاسکی۔پاکستان میں پندرہ میٹر (49فٹ)سے بلند ڈیموں یا آبی ذخائر کی کل تعداد 153ہے ۔پاکستان اپنی سر زمین سے گزرنے والے سالانہ 145ملین ایکڑ فٹ پانی کا صرف 10فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے ۔

اس کے برعکس بھارت میں ڈیموں کی تعداد 3200اور چین میں 8400ہے۔پاکستان کے پاس دو بڑے ڈیم ہیں جن کی استعداد 50فیصد کم ہو چکی ہے ۔
پاکستان کے پاس دو بڑے ڈیم ہیں جن کی استعداد50فیصد کم ہو چکی ہے۔پاکستان ایک ماہ کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کا حامل ہے جبکہ بھارت 220دن ،مصر1000دن،امریکہ 900دن ،آسٹریلیا600دن اور جنوبی افریقہ 500دن کیلئے پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں ۔

دریائے جہلم پر منگلہ ڈیم(1965))اور دریائے سندھ پر تربیلہ ڈیم(1976-1968) ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے تعمیر کیے گئے ،جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔تربیلہ ڈیم اپنے رقبہ اور ڈھانچے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جبکہ پاکستان کا میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور اسی اعتبار سے سبزی ڈیم دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے ۔


پانی کے بحران کے حوالے سے حکومتی اور ریاستی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پیلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ء میں ہوا۔2005ء میں ورلڈ بینک کی تحقیق رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا،2010ء تک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی،2012ء میں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ء تک بحث ومباحثہ اور نظر ثانی کے مراحل سے گزرتا رہا۔

اس رپورٹ کے مطابق ،انڈس سسٹم کا 50فیصد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے ۔پاکستان کے موجودہ ڈیم اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور پاکستان میں خوراک ،پانی اور توانائی کے بحران باہم مربوط ہیں ۔اس رپورٹ میں دیا میر باشاڈیم بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔
اگر چہ زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کا صرف تین فیصد حصہ پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

ایک طرف دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسر ی جانب پینے کے پانی کی قلت میں اضافہ بھی ہورہا ہے ۔دنیا بھر میں دو ارب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی منافرت سے بالاتر ہو کر ہنگامی بنیادوں پر موجود ڈیموں کی تعمیر نواور نہروں کی مرمت کا کام شروع کیا جائے۔پانی کاضیاع روکنے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔

پاکستان کی روز افزوں عالمی اور علاقائی تنہائی سے اجتناب کیا جائے اور عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ حکومتوں سے ایسے تعلقات قائم کیے جائیں کہ وہ ،منگلا ،تربیلا اور دیگر ڈیموں کی طرح نئے آبی ذخائر کی تعمیر میں بھی ہماری مالی اور تکنیکی مدد کریں۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پانی سے معیشت کے دیگر شراکت اداروں کا صحیح اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے تاہم ہائیڈ روپاور جنریشن اس میں نمایاں ہے جس کی موجودہ مارکیٹ کی قیمت 1ارب سے 2ارب ڈالر تک ہے ۔

پانی اور پانی پر منحصر نظام کو ماحولیاتی اثرات پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ،دریا ،جھیل ،نم زمین اور انڈس ڈیلٹا تنزلی کا شکار ہیں اور اس تنزلی سے حیاتیاتی نقصان ،صاف پانی اور مچھلیوں کے ذخائر میں کمی سمیت دیگر ماحولیاتی نقصانات ہورہے ہیں اور ان میں ساحلی مینگر ووجنگلات کی جانب سے طوفان سے تحفظ بھی شامل ہے ،اس کے ساتھ ساتھ پانی کا بے جا اخراج اور آبادی کا بڑھنا بھی اس کی تنزلی کی اہم وجہ ہے ۔


خراب پانی کے ذخائر کے انتظامات اور پانی فراہم کرنے کے نظام میں خرابی کی وجہ سے پانی کے تحفظ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جس میں آب پاشی اور نکاسی ،مقامی پانی کی فراہمی اور صفائی بھی شامل ہے ،اس کے ساتھ ساتھ چند بڑھتے ہوئے ،پانی سے متعلق طویل المدتی خدشات پر بھی کام نہیں کیا جارہا ہے ۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ آبی ذخائر کے انتظامات پانی کے ڈیٹا اور معلومات کی کمی ،آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کا کمزور ہونا ،ماحولیاتی طور پر غیر مستحکم پانی کا اخراج ،آلودگی اور زراعت میں پانی سے پیداوار میں کمی پر سمجھوتہ کیا جارہا ہے ۔


عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبوں میں شعبوں کے درمیان پانی کے کم یا زیادہ ہوتے مطالبات یا شدید خشک سالی سے نمٹنے کیلئے میکا نزم موجود نہیں ہے جبکہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کی مانگ میں اضافے سے یہ خامیاں بدتر ہونے کا خدشہ ہے ۔مجموعی طور پر اس شعبے میں فنڈز، تجویز کردہ سطح سے بھی نیچے ہے اور یہی صورتحال انفرااسٹر کچر ،اصلاحات اور اداروں کی بہتری ،شہری سہولیات ،سیلاب کی معلومات اور ماحولیاتی انتظامات کی بھی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

2025 tak pakistan main pani khatam ho jaye ga? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.